پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نوابشاہ: ”اگر آج نہ بولتی تو میری پنکھے کے ساتھ لٹکی ہوئی لاش ملتی اور اسے خودکشی بتایا جاتا“

نیوز ڈیسک

نوابشاہ – صوبہ سندھ میں پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نوابشاہ میں ایک نرس پروین زادی رند کی جانب سے شعبے کے ڈائریکٹر اور وارڈن پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ جس پر مقدمہ دائر کر لیا گیا ہے، جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے

اس حوالے سے ایس ایس پی نوابشاہ سعود مگسی نے بتایا کہ جنسی ہراسانی کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں، جبکہ ہاسٹل وارڈن کو یونیورسٹی انتظامیہ نے معطل کر دیا ہے

پروین زادی رند اپنا نرسنگ کورس پاس کرنے کے بعد پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نوابشاہ میں ہاؤس جاب کر رہی ہیں، اور گزشتہ روز انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سمیت نوابشاہ میں احتجاجی دھرنا دیا اور مطالبہ کیا کہ متعلقہ حکام کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے

ان کی حمایت میں قوم پرست جماعتوں سمیت سول سوسائٹی کے ارکان بھی اس دھرنے میں شریک ہوئے

پروین زادی رند نے بتایا کہ ’میں ایک ماہ پہلے پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار ویمن کے نرسنگ شعبے میں ہاؤس آفیسر مقرر ہوئی ہوں اور یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہتی ہوں۔‘

ان کے بقول ’مجھے بہت عرصے سے نرسنگ شعبے کے ڈائریکٹر غلام مصطفیٰ راجپوت دوستی کرنے اور جنسی تعلقات رکھنے کا بول رہے ہیں۔ وہ مجھے واٹس ایپ پر میسیج کرتے رہے ہیں۔جس کی شکایت میں نے اپنے سینیئرز کو بھی کی تھی‘

’9 فروری کی صبح جب میں ہاسٹل پر اپنے کمرے میں تھی تو ہاسٹل کے نرسنگ شعبے کی استاد میڈم فرحین اور ہاسٹل کی وارڈن عاطقہ آئیں اور کمرے کا دروازہ لاک کرکے میرا گلا دبایا اور کہا کہ آپ کیوں ڈائریکٹر کی بات نہیں مان رہی ہیں۔ انہوں نے میرا موبائل بھی چھین لیا اور مجھ پر تشدد کیا، میں جان بچانے کے لیے دروازے کی جانب بھاگی‘

بعد میں ان کا میڈیکل یونیورٹی ہسپتال میں میڈیکل چیک اپ کیا گیا

میڈیکل لیگل آفیسر (ایم ایل او) ڈاکٹر نازیہ مگسی کی رپورٹ کے مطابق ’پروین زادی رند کے گلے، بازو، ہاتھوں پر چوٹ کے نشانات ہیں اور ان کے گال پر بھی سوجن ہے۔‘

پروین زادی رند کے مطابق نہ تو انہیں میڈیکل رپورٹ دی گئی اور نہ ہی ان کا مقدمہ درج کیا جا رہا ہے

مدعی کے مطابق، خواتین نے ان پر تشدد کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے فلاں انتظامی عہدیدار کے ساتھ جنسی تعلقات نہیں رکھے تو تمہیں مار کر لاش پنکھے سے لٹکا دی جائے گی۔ اسی دوران اس نرس نے موقع ملتے ہی اپنے چچا کو ٹیلی فون کیا اور صورتحال سے آگاہ کیا

پولیس نے نرس کی درخواست پر اقدام قتل اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا ہے

یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر گلشن علی میمن سے اس بارے میں جاننے کے لیے بار بار رابطے کے باوجود ان کا مؤقف سامنے نہیں آ سکا تاہم مقامی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ان الزامات کو مسترد کیا اور کہا تھا کہ متعلقہ نرس کو ہراساں نہیں کیا گیا. ان کے بقول ”اس کا اور ہاسٹل کا مسئلہ تھا، جو حل ہو چکا ہے اور لڑکی پر کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔“

دوسری جاب ڈویژنل ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن شہید بینظیر آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر غلام عباس گوراہو نے بتایا کہ واقعے کے بعد پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار ویمن کی جانب سے ایک پریس بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے ایسا کوئی واقعہ یونیورسٹی میں پیش نہیں آیا

انہوں نے کہا کہ ’بیان کے مطابق صرف ہاسٹل میں مقیم طالبات اور ملازمین کے کمرے تبدیل کیے جا رہے تھے، جس پر ایسا الزام لگایا گیا۔ اس کا حتمی فیصلہ کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد کیا جائے گا۔‘

نرس کے چچا گذشتہ شب متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر درج کروانے گئے تھے، تاہم پولیس نے انکار کر دیا تھا اور ان کی وائس چانسلر ڈاکٹر گلشن علی میمن سے فون پر بات کروائی تھی

نرس کے چچا اور ڈاکٹر گلشن کی ایک وڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں وائس چانسلر کہہ رہے ہیں ”ہم کوشش کر رہے تھے کہ لڑکی کے والد کا نمبر ملے۔“

نرس کے چچا انہیں بتاتے ہیں ”لڑکی میری بھتیجی ہے اور میرے بھائی (لڑکی کے والد) سعودی عرب میں رہتے ہیں۔“

نرس کے چچا وائس چانسلر کو بتاتے ہیں کہ ان کی بھتیجی کو صبح قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ نرس کے چچا وائس چانسلر کو یہ بھی کہتے ہیں کہ ’میری بھتیجی نے آپ سے بھی ملاقات کی تھی‘ جس پر وائس چانسلر انہیں کہتے ہیں کہ ’میں دفتر میں بیٹھا ہوں آپ آ جائیں۔‘

نرس کے چچا کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی زیادتی ہوئی، ان کی بھتیجی کو مسلسل جنسی ہراساں کیا جاتا رہا اور وائس چانسلر نے انہیں دفتر بلا لیا

وائس چانسلر نے پرو وائس چانسلر کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دی اور ایک روز میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کیا

نرس کے دعوے کے مطابق، انتظامی عہدیدار انہیں دوست بنانے کے لیے ہراساں کر رہا تھا، جس کی شکایت وہ حکام کو کرتی آئی ہیں، لیکن ان کی شنوائی نہیں کی گئی

گذشتہ روز جب صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوھو یونیورسٹی کے دورے پر آئیں، تو انہیں بھی شکایت کی گئی جس پر ڈاکٹر عذرا نے کہا کہ ’آپ کے ساتھ انصاف ہو گا‘ اور وہ یہ کہہ کر چلی گئیں

اس بارے میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا کا مؤقف جاننے کے لیے ان کی ترجمان سے تحریری طور پر رابطہ کیا گیا، لیکن ان کا کوئی جواب نہیں آیا

دوسری جانب یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر قربان علی کے دستخط کے ساتھ جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے وائس چانسلر اینڈ ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز پروفیسر ڈاکٹر فریدہ وگن، پروفیسر ڈاکٹر قربان علی راہو اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ شاہانی پر مشتعمل تین رکنی کمیٹی قائم کی ہے

بیان کے مطابق کمیٹی تین دن میں رپورٹ پیش کرے گی جس کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی

پروین زادی نے یونیورسٹی انتظامیہ کی تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عدالتی کمیٹی تشکیل دے کر انہیں انصاف دلایا جائے

نرس نے الزام عائد کیا کہ ’تربیت کے دوران ہمیں کہا جاتا تھا کہ ہم سے دوستی کرو، باہر ڈنر پر چلو ورنہ فیل کر دیں گے، سپلی لگائیں گے، داخلہ منسوخ کروا دیں گے، جب ہم ان کی ڈیمانڈ نہیں مانتے تو ہمیں مارا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’سندھ کی جامعات میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران چار، پانچ طالبات کی خودکشیوں کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ طالبات خود کو نہیں مارتیں بلکہ ان انہیں جنسی زیادتی کے انکار پر مار دیا جاتا ہے اور بعد میں خودکشی قرار دیا جاتا ہے۔‘

’میں بلاول بھٹو زرداری سے درخواست کرتی ہوں کی یہ یونیورسٹی ان کے والدہ بینظیر بھٹو نے بنائی تھی۔ مجھ سے انصاف کیا جائے۔‘

آنسو بہاتے اور سسکیاں لیتی ہوئی نرس کا کہنا تھا کہ ’میں اگر آج نہ بولتی تو میری بھی شاید پنکھے کے ساتھ لٹکی ہوئی لاش ملتی اور میڈیا میں آتا کہ اس نے پریشانی میں یہ اقدام اٹھایا۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close