پاکستان کے معروف شاعر فیض احمد فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی نے یہ بات اپنے والد کی ایک سو گیارہویں سالگرہ کے موقع پر انٹرویو دیتے ہوئے سالگرہ کے حوالے سے کہا کہ ‘اکثر وہ لاہور میں نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے کافی عرصہ تو جیل میں بھی کاٹا تھا۔ تو سالگرہ تو وہ دن ہوتا تھا جب وہ گھر میں موجود ہوں اور ہم سب کے ساتھ ہوں، تو ہماری سالگرہ ہوجاتی تھی۔’
سلیمہ ہاشمی نے اپنے والد کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے بتایا کہ ان کی دادی کو صرف یہ یاد تھا کہ سردی تھی اور بارش ہو رہی تھی
‘ہم کئی سال سمجھتے رہے کہ ابا کی سالگرہ جنوری میں ہے۔ پھر ہماری فیملی میں ایک جاسوس قسم کا عزیز تھا۔ وہ سیالکوٹ گیا اور سارا ریکارڈ کھنگالا۔ پھر وہ میونسپل کارپوریشن کے آفس گیا تو پتا چلا کہ ابا کی تاریخ پیدائش 13 فروری 1911 ہے۔’
اور پھر اس کے بعد 13 فروری ہی سرکاری اور مستند تاریخ ہو گئی
بیگم سرفرازاقبال اور فیض احمد فیض کا رشتہ
جہاں فیض احمد فیض کے مداح پوری دنیا میں موجود ہیں، ان میں سے ایک اسلام آباد کی رہائشی بیگم سرفراز اقبال تھیں، جن کو فیض احمد فیض سے بہت عقیدت تھی اور ان کے لیے انہوں نے ایک کتاب بھی مرتب کروائی
بیگم سرفراز اقبال کی آسٹریلیا میں مقیم بیٹی ڈاکٹر ثمینہ نے بتایا کہ ان کی والدہ کا فیض سے عقیدت مندانہ دوستی کا رشتہ تھا۔ ‘انکل فیض جب بھی راولپنڈی اسلام آباد آتے تو ہمارے گھر ہی ٹھہرتے۔’
انکل سے امی کی اتنی گہری دوستی تھی اور انکل فیض جہاں بھی جاتے امی سے خط و کتابت کرتے رہتے اور امی بھی ان کو خط لکھتی رہتی تھیں۔ امی کی یہ ساری یادیں کتاب کی صورت میں دامن یوسف میں مرتب ہیں
ڈاکٹر ثمینہ نے کہا کہ امی نے مجھے بتایا تھا کہ فیض صاحب نے ایک نظم مجھے لکھ کر بھیجی تھی، جو میرے لیے تھی اور وہ اس کتاب کا حصہ ہے۔۔ وہ نظم کچھ یوں تھی-
میں کیا لکھوں کہ جو میرا تمہارا رشتہ ہے
وہ عاشقی کی زباں میں کہیں بھی درج نہیں
اس عشق خاص کو ہر ایک سے چھپائے ہوئے
گزر گئے ہیں زمانے گلے لگائے ہوئے
ڈاکٹر ثمینہ نے بتایا کہ ان کا مکان اردو ادب کے چاہنے والوں کے لیے ایک مرکزی مقام تھا
‘لوگوں کو معلوم نہیں ہوگا لیکن جس سڑک پر ہمارا گھر ہے اسلام آباد میں اس سڑک کا نام بیگم سرفراز اقبال روڈ ہے۔ ہماری امی نے اردو ادب کی بہت خدمت کی۔ بہت سے مصنفین ہیں جن کا لوگ نام لیتے ہیں وہ سب ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ فیض احمد فیض، احمد فراز، منیر نیازی، ضمیر جعفری، احمد ندیم قاسمی، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، ابن انشاء، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، بہت سے نام ہیں ان سب کا ہماری والدہ کے ساتھ بہت گہرا رشتہ تھا۔’
میڈم نور جہاں اور فیض کی دوستی
سلیمہ ہاشمی نے اپنے والد کی یادیں شئیر کرتے ہوئے بتایا سالوں قبل وہ لاہور میں تھے جب ان کے دوست حمید اختر اپنے ہمراہ میڈم نور جہاں کو ساتھ لائے
سلیمہ ہاشمی بتاتی ہیں کہ ان دونوں کی ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور اس موقع پر فیض کے ایک اور دوست رضا کاظم بھی وہاں موجود تھے جو اپنے ساتھ ایک ٹیپ ریکارڈر بھی ساتھ لائے تھے جو انھوں نے نیا نیا خریدا تھا
‘ہم نے میڈم نورجہاں سے کہا کہ آپ کچھ سنائیے تو انہوں نے بغیر ساز کے گیت اور نظمیں سنائیں، جس میں انہوں نے ایک مشہور گیت مُنڈیا سیالکوٹیا اور فیض صاحب کی نظم تنہائی بھی سنائی تھی کیونکہ وہ نظم اکثر لوگ گاتے بھی نہیں ہیں، تو بہت اچھا لگا تھا۔’
اس نظم کے بول کچھ یوں ہیں:
پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا ، کہیں اور چلا جائے گا
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا
دوستوں کا ساتھ ہمیشہ رہا
سلیمہ ہاشمی بتاتی ہیں، جب فیض جیل میں تھے تو ان کے کچھ دوست پھول اور پھل بھجوا دیتے تھے
‘ان کے دوست امی کا اور ہم دونوں بہنوں کا بہت خاص خیال رکھتے تھے تاکہ ہم یہ محسوس نہ کریں کہ اگر ابو ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو وہ ان کو بھول گئے ہیں۔’
وہ بتاتی ہیں کہ لوگوں نے دوسرے شہروں میں بھی فیض کی سالگرہ منانا شروع کر دی تھی اور ایک ایسی روایت قائم ہو گئی کہ سالگرہ پھر زیادہ ’فارمل‘ (روایتی) طریقے سے سالگرہ منائی جانے لگی
‘بچپن میں ہم نے دیکھا تھا کہ ابو گھر میں ہوں گے تو ہم سالگرہ منا لیتے تھے، اگر نہیں ہوں تو ہم غائبانہ منا لیتے تھے۔’
سلیمہ ہاشمی نے کہا کہ فیض صاحب کے گہرے دوست جن سے ان کی قریبی ملاقات رہی ان میں پطرس بخاری، فیض کے استاد صوفی غلام مصطفی تبسم، حمید اختر، عبد اللہ ملک وغیرہ شامل تھے
‘پھر جو ان سے چھوٹے تھے ان میں کشور ناہید تھیں اور لندن میں ہم نے افتخار عارف کو بہت دیکھا۔ بچپن میں ان کے جو دوست دیکھے ان میں مولانا چراغ حسن حسرت تھے، بدرالدین بدر تھے۔ پھر صحافت کے دوست الگ تھے، مظہر علی خان تھے، حمید نظامی تھے۔’
فیض صاحب کو رونق پسند تھی
سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ گو کہ ان کے والد خاموش طبع تھے لیکن ہر دم ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی موجود رہتا تھا
‘ابا کے ساتھ یہ تھا کہ وہ خود بہت خاموش آدمی تھے لیکن ان کے پاس اردگرد بہت سارے لوگوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا- ہمارے حصے میں بہت تھوڑا وقت بچتا تھا۔ کبھی کبھار ناشتے میں یا کبھی چائے پر ہم سب لوگ اکٹھے ہوتے تھے۔ ورنہ جو بھیڑ ہوتی تھی ان کے ارد گرد اگر دائیں بائیں کوئی چھوٹی سی جگہ مل جاتی تھی تو ہم بیٹھ جاتے تھے ورنہ اندر چلے جاتے تھے۔’
سلیمہ ہاشمی اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں شام کے وقت ان کے مکان پر گھنٹی مسلسل بجتی رہتی تھی اور فیض کے جو قریبی دوست تھے وہ آتے رہتے تھے
سلیمہ ہاشمی کہتی ہیں کہ بظاہر خاموش طبیعت والے انسان کو رونق پسند تھی اور آنے والے ملاقاتیوں کے ساتھ گفتگو بھی بہت دلچسپ رہتی تھی
‘بہت سے لوگوں کی بات سننے میں انہیں لطف آتا تھا۔ ہر قسم کے لوگ آیا کرتے تھے۔ ان میں شاعر اور ادیب بھی ہوتے تھے، مصور اور دانشور بھی ہوتے تھے، صحافی اور بیوروکریٹس بھی ہوتے تھے۔ کبھی ٹریڈ یونین لیڈر بھی آ جاتے تھے اور کبھی کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ جو مفرور ہوتے تھے وہ بھی پہنچ جاتے تھے تو ان کے لیے ملاقات کا خاص انتظام ہوتا تھا۔’
فیض صاحب کی بارات میں صرف دو لوگ
سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ جب فیض کی شادی ہوئی تو بارات میں صرف دو لوگ ساتھ تھے
‘چچا عنایت اور ان کے کمیونسٹ پارٹی کے ایک دوست نعیم جن کا تعلق لکھنؤ سے تھا، بس یہ دونوں تھے۔ یہ افراد بارات لے کر سرینگر پہنچے میری والدہ ڈاکٹر تاثیر کے یہاں میری خالہ کے ساتھ تھیں۔ بس یہ مختصر بارات تھی۔ ابا ایک ساڑھی لے کر آئے تھے میری امی کے لیے جو انھوں نے پہنی تھی اور ایک سادہ سی انگوٹھی تھی۔ یہ انگوٹھی میری اماں نے ساری عمر پہنی۔ جب تک وہ حیات تھیں اور یہ انگوٹھی ابھی تک میرے پاس ہے۔’
مختصر بارات کی وجہ بتاتے ہوئے سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ وہ جنگ کا وقت تھا اور پیسے کی قلت تھی اور شادی بھی مشکل سے ہوئی تھی
‘میری دادی، جنہیں ہم بے بے جی کہتے تھے ان کا نام غلام فاطمہ تھا، وہ اجازت نہیں دے رہی تھیں کہ فیض کی شادی ایک انگریز خاتون سے ہو اور میرے والد اس بات پر تلے ہوئے تھے کہ جب تک والدہ اجازت نہیں دیں گی وہ شادی نہیں کریں گے۔’
انہوں نے بتایا کہ فیض کی والدہ نے کچھ شرائط رکھیں کہ بہو کو پہلے اسلام قبول کرنا ہوگا، اردو سیکھنی ہوگی، نماز سیکھنی ہوگی، اور ان کی والدہ نے یہ تمام شرائط پوری کیں۔
‘اسی لیے بہت ہی مختصر سی بارات تھی اور پھر جب وہاں پہنچے تو پہلے سے کچھ ہی دوست سرینگر پہنچے ہوئے تھے، جنھوں نے شاندار دعوت کی اور رات کو مشاعرہ بھی ہوا تھا۔
سرینگر کشمیر میں گوشہ فیض ابھی بھی موجود ہے
سلیمہ ہاشمی کہتی ہیں کہ سرینگر میں جہاں فیض کا نکاح ہوا تھا وہ وہاں کے مہاراجہ کا گیسٹ ہاؤس تھا جو کہ اب لڑکیوں کا کالج بن چکا ہے اور جس کمرے میں ان کا نکاح پڑھایا گیا تھا وہ اب کالج کی لائبریری ہے۔
‘میں خود وہاں سے ہو کر آئی ہوں۔ وہاں فیض احمد فیض کی تمام کتابیں رکھی ہوئی ہیں اور لائبریری کے اس حصے کو گوشۂ فیض کہا جاتا ہے۔’
سلیمہ ہاشمی بتاتی ہیں کہ 2006 کے آس پاس وہ اپنے خاوند شعیب ہاشمی کے ہمراہ سرینگر گئیں تو اُس کالج کی میوزک سوسائٹی اور پرنسپل نے ایک پروگرام کا بھی اہتمام کیا جہاں کالج کی طالبات نے فیض کی نظمیں پڑھیں۔
‘وہ اس قدر جوش و محبت سے ملے کہ وہ بہت ہی جذباتی موقع تھا۔ میرے تو آنسو نہیں رکے۔ لیکن اس بات کی اتنی خوشی تھی کہ جس طرح کشمیر میں ان کو یاد کیا جاتا ہے، سرینگر میں جس طرح لوگ ان کے کلام کو یاد رکھتے ہیں تو بہت تسکین ہوتی ہے اور لگتا ہے کہ شاید وہ بندھن ابھی تک اسی طرح سے قائم ہے۔ شاید وہ دوستیاں، پیار اور محبت کے جو جذبے ہیں ہم میں آپس کے وہ ابھی تک اسی طرح سے ہرے بھرے ہیں۔’
ابا نے کبھی کسی چیز پر مجبور نہیں کیا
سلیمہ ہاشمی کہتی ہیں کہ ان کے والد نے کبھی کسی چیز پر مجبور نہیں کیا کہ کتنا پڑھنا ہے اور کیا پڑھنا ہے۔
‘ان کو اس بات کا بہت احساس تھا کہ اس معاشرے میں عورت کو خود مختار ہونا چاہیے اور اسے کسی مرد پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ وہ عورتوں کی آزادی اور خود مختاری پر بہت گہرا یقین کرتے تھے۔’
سلیمہ ہاشمی بتاتی ہیں کہ انھوں نے اور ان کی بہن نے شادیاں اپنی مرضی سے کی تھیں
‘میں لندن میں پڑھ رہی تھی اور شعیب بھی وہیں پڑھ رہے تھے۔ میری شعیب سے دوستی تھی۔ ابا نے محسوس کیا تو شعیب سے کہا یہ چیزیں ہم تو روایتی طریقے سے کرتے ہیں تو شعیب نے اپنی امی کو میری دادی کے پاس بھیجا رشتہ مانگنے کے لیے۔ میرے ابا اپنی دونوں بیٹیوں پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جو بیٹیوں کی پسند ہوگی وہ ان کی بھی پسند ہوگی۔’
فیض احمد فیض کے ساتھ بیتے یادگار لمحے
سلیمہ ہاشمی اپنے والد کے ساتھ گزرے یادگار لمحات کے بارے میں کہتی ہیں کہ جب وہ فیض کے ہمراہ لینن پیس ایوارڈ لینے ماسکو گئیں اور وہاں 40، 45 دن گزارے وہ بہت یادگار تھے۔ انھوں نے بتایا کہ اسی دورے میں ان کی ملاقات چلی کے معروف شاعر، مصنف اور سیاستدان پابلو نرودا سے بھی ہوئی تھی۔
وہ بتاتی ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں وہ اسلام آباد چلے گئے اور پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس (پی این سی اے) قائم کیا، اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل بنے اور لوک ورثہ سیٹ اپ کیا اور اس کا قانون پاس کروایا۔
ان کے مطابق ‘پوری ایک کلچر پالیسی تھی جو انھوں نے تیار کر کے بھٹو صاحب کی حکومت کو دی۔ اکیڈمی آف لیٹرز یا نیشنل پبلک تھیٹر وغیرہ سب کی سب اسی پالیسی کا حصہ تھے۔’
فیض صاحب پر پچاس ہزار روپے کا الزام
سلیمہ ہاشمی کہتی ہیں کہ انھیں نہیں یاد کہ کبھی انھوں نے اپنے والد کو طیش میں دیکھا ہو اور وہ ہمیشہ دھیمی آواز میں بات کیا کرتے تھے۔
‘مجھے یاد ہے کہ سنہ 1974، 1975 کی بات ہے جب اخبار نوائے وقت ہمارے گھر آیا اور میں نے ایک خبر پڑھی، لکھا ہوا تھا کہ فیض صاحب روس گئے ہیں اور وہاں سے ان کو پچاس ہزار روپی ملے ہیں۔ ہمیں معلوم تھا کہ اتنے پیسے ہوں تو نظر بھی آ جائیں۔ اسں زمانے میں پچاس ہزار بہت رقم تھی۔ تو میں نے کہا کہ ان کو فون کر کے ڈانٹیں کہ انھوں نے غلط کیوں لکھا ہے۔
فیض صاحب نے کہا کہ دیکھو جو مجھے جانتے ہیں انھیں پتا ہے میں کیسا ہوں۔ جو مجھے نہیں جانتے میں ان کی پرواہ نہیں کرتا۔ ان کے ماتھے پہ کوئی بل نہیں آیا، ان کو کوئی غصہ نہیں آیا۔
اماں نے ابا کا بہت خیال رکھا
سلیمہ ہاشمی بتاتی ہیں کہ اگر کوئی مہمان دوپہر کو آ جاتا تو ان کی اماں انھیں ایسا کہتی تھیں کہ آپ شام کو آ جائیے گا اس وقت فیض کے آرام کا وقت ہے۔
‘اماں، ابا کی خوراک کا اور آرام کا بہت خیال رکھتی تھیں اور میرے خیال میں ان کی عمر اتنی دراز تو نہیں تھی۔ ہمارے حساب سے وہ بہت جلد چلے گئے۔ لیکن جتنے برس ابا زندہ رہے وہ صرف میری والدہ کی وجہ سے۔ وہ طے کر لیتی تھیں کہ دوپہر کو ایک دو گھنٹے آرام کرنا ضروری ہے۔ فون بھی نہیں سنتی تھیں اور نہ ہی کسی سے بات کرواتی تھیں۔ وہ کوشش کرتی تھیں کہ دوپہر کا آرام ان کو میسر ہو۔
اپنے والد کی پسندیدہ غذا کے بارے میں یاد کرتے ہوئے سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ فیض احمد فیض کو کھانے میں شب دیگ اور دال بہت پسند تھی۔
‘صوفی تبسم اکثر دعوت کیا کرتے تھے تو میرے ابا نہ صرف اس کا بہت انتظار کیا کرتے تھے بلکہ لازمی وہاں جایا کرتے تھے۔ میری دادی کی ہاتھ کی کچھ چیزیں ان کو بہت پسند تھیں۔ میری امی اتنی خاص کُک نہیں تھی لیکن کچھ بنیادی چیزیں وہ پکا لیتی تھیں۔’
جیل سے چوبیس گھنٹے کی مہلت
سلیمہ ہاشمی نے فیض احمد فیض کے دورِ اسیری کے بارے میں یاد کرتے ہوئے بتایا کہ حیدرآباد میں فیض صاحب پر مقدمہ چل رہا تھا جب ان کے تایا چوہدری طفیل احمد ان سے ملنے گئے۔
‘حیدرآباد میں فجر کی نماز کے بعد ان کا ہارٹ فیل ہو گیا اور وہ وفات پا گئے۔ فیض صاحب کو اس سانحہ کا علم نہیں تھا۔ عدالت میں کارروائی چل رہی تھی جب اسی دوران کوئی شخص آیا اور اس نے ایک پرچی جج صاحب کو تھمائی۔ پھر جج صاحب نے ابا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم سوری اور کارروائی روک دی گئی۔
فیض صاحب کو الگ لے جایا گیا اور بتایا گیا کہ 24 گھنٹے کی مہلت دی گئی ہے کہ جا کر آخری رسومات ادا کریں۔ فیض صاحب چوبیس گھنٹے کے بعد واپس جیل چلے گئے اور انھوں نے ایک نوحہ لکھا۔’
مجھ کو شکوہ ہے میرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ میری عمر گزشتہ کی کتاب
اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں ہیں
اس میں بچپن تھا میرا اور میرے عہد شباب
اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب
سلیمہ ہاشمی کہتی ہیں کہ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل فیض نے ان سے کہا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں جو چاہا وہ کیا کیونکہ انھیں میری والدہ پر بھروسہ تھا۔
‘انھوں نے کہا کہ میں نے جو کچھ بھی کیا، وہ اس لیے کہ مجھے پتا تھا کہ تمہاری امی جان تمہیں سنبھال لیں گے، تمہارا پیٹ پال لیں گی۔’
سلیمہ ہاشمی بتاتی ہیں کہ پھر ان کی والدہ ایلس فیض نے پاکستان ٹائمز میں نوکری کر لی جہاں وہ سائیکل پر دفتر آنا جانا کیا کرتی تھیں.