نوابشاه – زرداری قبیلہ ضلع شہید بینظیر آباد (نوابشاہ) کے تعلقہ قاضی احمد کے دریائی علاقے کی تین سو نوے ایکڑ متنازع زمین میں سے ایک سو چوَن ایکڑ بھنڈ برادری کو دینے پر رضامند ہوگیا
یہ پیش رفت سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) کی حمایت یافتہ بھنڈ برادری کے پانچ مقتول افراد کے ورثا کی زرداری قبیلے کے افراد سے مذاکرات کے بعد سامنے آئی
سابق صوبائی وزیر قانون ضیا الحسن لنجار، ایم پی اے غلام قادر چانڈیو، ایس یو پی کے سید زین شاہ، ڈپٹی کمشنر عامر پنہور اور ایس ایس پی عامر سعود مگسی دونوں فریقین کے درمیان ثالثی کر رہے تھے، جبکہ خمیسو بھنڈ مذاکرات میں اپنے فریق کی نمائندگی کر رہے ہیں
سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم گزشتہ رات دھرنے کے مقام پر پہنچے تھے
سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی) کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی اور قومی عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو نے بھی مظاہرین سے ملاقات کرکے بھنڈ برادری کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور اس معاملے میں مبینہ طور پر زرداری برادری کی حمایت کرنے پر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پر سخت الفاظ میں تنقید کی
پیر کی شام تک پانچوں لاشوں کی تدفین نہیں کی گئی تھی اور دھرنے کے باعث قومی شاہراہ کا قاضی احمد سیکشن (این-5) تیسرے روز بھی بند رہا جبکہ ٹریفک کو انڈس ہائی وے کی جانب موڑ دیا گیا تھا
زرداری قبیلے کی جانب سے بھنڈ برادری کا بڑا مطالبہ تسلیم کیے جانے کے بعد شام کو ایم پی اے حاجی علی حسن زرداری، محسن زرداری اور عابد زرداری کے خلاف ایف آئی آر کے ساتھ ساتھ (12 فروری) کے روز اقدام قتل میں ملوث تمام ذمہ داروں کی گرفتاری کے مطالبے پر مزید بات چیت جاری تھی
متنازع زمین کے ٹکڑے پر معاہدے کے فوراً بعد زرداری برادری کے مسلح افراد زمین سے دستبردار ہو گئے، تاہم ہفتہ کی شام سے جاری احتجاجی دھرنا ختم نہیں کیا گیا
خمیسو خان بھنڈ نے دستبرداری کی تصدیق کی جبکہ ایس یو پی کے رہنما روشن برڑو کے مطابق زرداری برادری نے 390 ایکڑ میں سے 154 ایکڑ کے کاغذات بھنڈ برادری کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا
مذاکرات سے باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ بھنڈ برادری اپنی مجوزہ ایف آئی آر سے ایم پی اے علی حسن زرداری کا نام نکالنے کے لیے تیار تھے لیکن وہ احتجاج ختم کرنے کے لیے محسن زرداری اور عابد زرداری سمیت چند دیگر ملزمان کی گرفتاری پر اصرار کر رہے تھے، جبکہ بھنڈ برادری کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ایم پی اے علی حسن زرداری اپنے بھائی کی موت کی وجہ سے اس موقع پر موجود نہیں تھے
خمیسو بھنڈ کا کہنا تھا کہ 390 ایکڑ زمین ہماری ہے، زرداری برادری کے لوگوں نے زمین کے کاغذات میں جعلسازی کی ہے
اسی دوران پولیس نے واقعے کے فوراً بعد اٹھائے گئے سولہ مشتبہ افراد میں شامل دو افراد محمود مہر اور غلام حیدر کو رہا کر دیا
مذکورہ واقعے میں بھنڈ برادری کے 5 اور ایک پولیس انسپکٹر، حمید کھوسو، کو فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا تھا۔
شہید بینظیر آباد ضلع کے ایک پولیس افسر نے متنازع زمین کو بہت قیمتی قرار دیا جس کی مارکیٹ قیمت تقریباً بارہ لاکھ روپے فی ایکڑ ہے۔
12 فروری کے قتل کے خلاف ایس یو پی کی سندھ ایکشن کمیٹی کی طرف سے دی گئی کال کے جواب میں گزشتہ روز بھی سندھ کے کئی شہروں اور ٹاؤنز میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے
شہید بینظیر آباد، حیدرآباد، دادو، لاڑکانہ، میرپورخاص اور دیگر کئی اضلاع میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں مختلف سیاسی اور قوم پرست تنظیموں کے کارکنوں نے شرکت کی
جبکہ اس تنازعے پر چھ افراد کی ہلاکت کے بعد نیشنل ہائی وے پر ورثا مقتولین کی لاشوں سمیت دھرنا دیے ہوئے ہیں، جن کا مطالبہ ہے کہ واقعے کا مقدمہ زرداری برادری کے مقامی بااثر افراد کے خلاف دائر کیا جائے
یہ واقعہ نواب شاہ کے مرزا پور تھانے کی حدود میں دیھ بنبھائی میں 12 فروری کو پیش آیا تھا، جس میں زرداری برادری اور بھنڈ برادری کے درمیان تنازعے میں ایک ایس ایچ او سمیت چھ افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے ہیں
پولیس کا موقف ہے کہ فریقین میں کچے کے علاقے میں واقع زرعی زمین پر حق ملکیت کا تنازعہ ہے۔ یہ تنازعہ سنہ 2009ع سے چل رہا ہے
واضح رہے کہ نواب شاہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کا آبائی ضلع ہے جہاں ان کے رشتے دار اور برادری کے لوگ بھی آباد ہیں
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ایسی کئی وڈیوز شیئر ہوئیں، جن میں گاؤں کے لوگ پولیس اہلکاروں کی منت سماجت کرتے دکھائی دیتے ہیں اور انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ اس زمین پر کاشت انہوں نے کی تھی اور عدالت جو بھی فیصلہ کرے اس وقت تک انہیں نہیں ہٹایا جائے
اسی دوران فائرنگ ہوتی ہے جس کے بعد چند لوگ زخمیوں کو کندھوں پر اٹھا کر جاتے ہوئے نظر آتے ہیں، جبکہ شدید فائرنگ کی آواز مسلسل پس منظر میں سنائی دیتی ہے
اس دن اصل میں ہوا کیا اور اس تنازعے کی وجہ کیا ہے جس نے چھ افراد کی جان لی، اس حوالے سے کچھ مقامی افراد سے تفصیلات معلوم کی گئیں
اس واقعے کے عینی شاہد محمد امین بھنڈ، جو خود بھی واقعے میں زخمی ہو گئے تھے، ان کا تعلق بھنڈ برادری سے ہے، جو متنازع زمین پر ملکیت کی دعوے دار ہے۔ دوسری جانب زرداری برادری ایک فریق ہے جو خود بھی اس زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرتی ہے
امین بھنڈ نے بتایا کہ ہفتے کے روز وہ معمول کے مطابق اپنے گھر میں موجود تھے کہ ان کو برادری کے کسانوں نے فون کیا۔ ان کو بتایا گیا کہ زرداری برادری کے لوگ متنازع زمین پر سرسوں کی فصل کی کٹائی کر رہے ہیں
’ہم گاؤں والے، جو ڈیڑھ سے دو سو ہوں گے، روانہ ہوگئے۔ یہ زمینیں گاؤں سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ کچھ پیدل تھے، کچھ موٹر سائیکلوں پر۔ راستے میں ایک جھیل بھی آتی ہے جس کو کشتی کے ذریعے پار کیا گیا۔
’ہم سب نہتے تھے۔ کوئی اسلحہ یا کلہاڑی وغیرہ ساتھ نہیں تھی۔ جب وہاں پہنچے تو پولیس کی نفری آئی، جس میں ایک ایس ایچ او شامل تھا۔ اسے ہم نے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے، 24 فروری کو سماعت ہے، لہٰذا زمین پر ہم بیٹھیں گے نہ اور کوئی بیٹھے، صرف پولیس موجود رہے۔‘
محمد امین نے دعویٰ کیا کہ ان کی برادری کی بات سے پولیس ایس ایچ او نے اتقاق کیا لیکن اسی دوران مخالفین کے مسلح افراد نے، جو ان کے مطابق ’ڈاکو لگ رہے تھے‘، فائرنگ شروع کردی
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’ہمارے لوگ اور پولیس والے دونوں ہی اس فائرنگ کی زد میں آگئے۔ مجھے سینے میں ایک گولی لگی جو آر پار ہوگئی۔‘
محمد امین کو پہلے نواب شاہ ہسپتال پہنچایا گیا، جس کے بعد انہیں کراچی منتقل کیا گیا، جہاں وہ انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج رہے
محمد امین نے بتایا کہ ان کے ساتھ کچھ خواتین اور بچے بھی تھے۔ ‘اگر تصادم کرنے جاتے تو انہیں کیوں ساتھ لیتے۔ اسلحہ بھی ہمراہ ہوتا۔ لگتا ہے اتنے لوگوں کو دیکھ کر انہوں نے بوکھلاہٹ میں فائرنگ کی۔’
دوسری طرف اس تنازعے کے دوسرے فریق عابد زرداری ہیں، جن پر بھنڈ برادری فائرنگ کا الزام لگاتی ہے، نے بتایا کہ اس دن وزیر اعلیٰ سندھ نے نواب شاہ آنا تھا، جس کے لیے شہر کی پولیس کی اضافی ڈیوٹی لگائی گئی تھی اور متنازع زمین پر صرف چار پولیس کانسٹیبل ہی تعینات تھے
واضح رہے کہ یہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد گزشتہ سال نومبر میں مقامی انتطامیہ سے بات چیت کے بعد دونوں فریقین نے یہاں پولیس کی تعیناتی سے اتفاق کیا تھا، جس کے بعد گزشتہ ڈیڑھ مہینے سے پولیس اہلکار متنازع زمین پر تعینات تھے
عابد زرداری کا دعویٰ ہے کہ واقعے کے دن بھنڈ برادری کے دو سو سے زائد لوگوں نے متنازع زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، جس کے دوران انہوں نے ایک حکمت علمی کے طور پر اپنی خواتین کو آگے کیا جن کے پیچھے مسلح افراد بھی تھے
عابد زرداری کا الزام ہے کہ بھنڈ برادری کے انہی مسلح افراد کی ابتدائی فائرنگ سے پولیس اہلکار ہلاک ہوا، جس کے بعد وہاں موجود لوگوں نے جوابی فائرنگ کی
واضح رہے کہ نواب شاہ کے مرزا پور تھانے کی حدود میں دیھ بنبھائی میں کچے کی اس 800 ایکڑ زمین پر فریقین میں 2009 سے تنازعہ جاری ہے۔ دونوں فریقین دعوی کرتے ہیں کہ یہ زمین ان کی ہے
محمد امین بھنڈ کے مطابق یہ ان کی آبائی زمینیں ہیں اور یہاں ان کا قبرستان بھی موجود ہے جبکہ ’زرداریوں کا کچھ بھی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس پوری زمین میں ان کی برادری کے بہت سے کھاتے دار ہیں جن کے پاس چار سے پانچ ایکڑ تک زمین ہے
دوسری جانب عابد زرداری کے مطابق یہ ساری زمین انھوں نے 2009 میں لغاری خاندان سے خریدی تھی اور ان کے پاس اس زمین کی تمام دستاویزات موجود ہیں لیکن بھنڈ برادری مختلف حیلوں بہانوں سے انھیں تنگ کرتی رہتی ہے اور اس زمین پر قابض تھی
بھنڈ برادری نے اس سے قبل گزشتہ سال نومبر میں اس معاملے پر چالیس روز تک دھرنا دیا تھا۔ اس دھرنے کے بعد مقامی انتظامیہ کی مدد سے یہ طے ہوا کہ اس تنازعے کا فیصلہ کیا جائے
نواب شاہ کے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی کی موجودگی میں یہ بھی طے ہوا کہ اس متنازع زمین سے فیصلہ ہونے تک دونوں فریقین پیچھے ہٹ جائیں گے اور یہاں پولیس اہلکار تعینات کیے جائیں گے
دونوں فریقین کی جانب سے اس فیصلے کے لیے سابق صوبائی وزیر منظور پنہور پر اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا
زرداری برادری کی جانب سے پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر اکبر جمالی جبکہ بھنڈ برادری کی جانب سے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما زین شاہ کو اس فیصلے کے لیے امین مقرر کیا گیا
عابد زرداری کے مطابق منظور پنہور نے اس وقت کہا تھا کہ دونوں فریقین ریوینیو کا ریکارڈ پیش کریں جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا
عابد زرداری دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ یہ ریکارڈ پیش کرنے کے لیے تیار تھے، لیکن بھنڈ برادری اس پر راضی نہیں ہوئی
اس سے پہلے کہ منظور پنہور کوئی فیصلہ کرتے، بھنڈ برادری یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ لے گئی جہاں پر مقدمہ زیر سماعت ہے
’اب بھی فیصلہ ہو سکتا ہے‘
بی بی سی نے جب منظور پنہور سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ 20 فروری کو فیصلہ ہونا تھا
انہوں نے بتایا کہ اس دوران وہ علاج کے لیے امریکہ چلے گئے تھے جب کہ فریقین کو کہا گیا تھا کہ جو ریوینیو ریکارڈ ان کے پاس موجود ہے وہ پیش کریں جس کی تصدیق کرائی جائے گے
منظور پنہور کے مطابق اس بات پر دونوں فریقین راضی تھے لیکن ’بعد میں بھنڈ برادری کے مشیر روشن برڑو نے ڈپٹی کمشنر کو کہا کہ وہ عدالت میں جانا چاہتے ہیں۔‘
ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں سمیت ورثا قاضی احمد کے مقام پر قومی شاہراہ پر دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کی قیادت سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما زین شاہ کر رہے ہیں
زین شاہ نے الزام لگایا کہ سندھ کے محکمہ ریوینیو نے اس زمین کے جعلی کاغذات بنائے جس کی وجہ سے معاملہ بگڑ گیا
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’سندھ حکومت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ملازم بن چکی ہے۔‘
زین شاہ کا کہنا ہے کہ مقدمے کی ایف آئی آر ورثا کی خواہش کے مطابق دائر کی جائے، جب کہ لواحقین کا کہنا ہے کہ قاتلوں کو بااثر افراد کی پشت پناہی حاصل ہے
واقعے کے خلاف قاضی احمد شہر میں ہڑتال بھی جاری رہی، جب کہ نواب شاہ میں عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کیا گیا
قومی عوامی تحریک کے رہنما ایاز پلیجو، سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما ڈاکٹر قادر مگسی اور تحریک انصاف کے رہنما بھی اس دھرنے میں شریک ہوئے ہیں
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کو ہدایت کی ہے کہ واقعے کی شفاف انکوائری کرائی جائے
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کی جائیں اور واقعے کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کیا جائے.