’تنخواہوں کی عدم ادائیگی‘: بھارتی صحافی کی نیوز روم میں ’خودکشی‘

ویب ڈیسک

تامل ناڈو – بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو میں ایک سینیئر صحافی نے مبینہ طور پر تنخواہ نہ ملنے پر نیوز روم میں ’خودکشی‘ کر لی، جس سے بھارت کی صحافتی برادری میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے

بھارتی خبر رساں ایجنسی یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا (یو این آئی) سے وابستہ چھپن سالہ فوٹو جرنلسٹ ٹی کمار کو پیر کو ان کے ساتھیوں نے اپنے دفتر میں مردہ حالت میں پایا۔ وہ یو این آئی کے لیے تمل ناڈو بیورو چیف تھے. بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ اتوار کی شام پیش آیا تھا

کمار کی موت نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور صحافیوں کو درپیش گہرے مالی مسائل کے بارے میں سوالات کھڑے کر دیے ہیں، جیسا کہ یو این آئی کے ملازمین نے الزام لگایا ہے کہ ادارے نے انہیں گذشتہ ساٹھ ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کیں

خبر رساں ادارے کے ملازمین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کمار کو مالی مسائل کا سامنا تھا، کیونکہ انہیں ایجنسی سے باقاعدہ تنخواہ نہیں مل رہی تھی

تاہم یو این آئی کے چیف ایڈیٹر اجے کمار کول نے اسے افسوسناک واقعہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ پولیس کو اس معاملے کی صحیح طریقے سے تحقیقات کرنی چاہیے

انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک ہم جانتے ہیں انہوں نے خودکشی کا ایسا کوئی نوٹ نہیں چھوڑا، جس میں آنجہانی صحافی نے یہ لکھا ہو کہ وہ مالی دباؤ یا تنخواہ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے انتہائی قدم اٹھا رہے ہیں، جیسا کہ میڈیا کے کچھ اداروں نے رپورٹ کیا ہے۔‘

چیف ایڈیٹر کا مزید کہنا تھا کہ ’کچھ لوگ اس حوالے سے غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔ یہ خودکشی تھی یا کچھ اور؟ ہم چاہتے ہیں کہ پولیس اس کی صحیح طریقے سے تفتیش کرے۔ ہم بھی اس افسوسناک واقعے کی درست تفصیلات اور حالات جاننا چاہتے ہیں۔‘

بھارت کے سینیئر صحافی وشوا وشواناتھ نے پیر کو ٹوئٹر پر کمار کی موت کے بارے میں سب سے پہلے پوسٹ کیا تھا، جس کے بعد کئی دیگر صحافیوں نے ان کی پیروی کرتے ہوئے اس واقعے پر صدمے اور غم کا اظہار کیا

وشواناتھ نے ٹوئٹر تھریڈ میں لکھا: ’مسٹر کمار نے کم عمری میں ہی یو این آئی میں ایک عام ملازم کے طور پر شمولیت اختیار کی، جو بھارت کی سرکردہ اور اہم خبر رساں ایجنسی ہے۔ لیکن اپنی محنت اور مہارت اور علم کی بدولت جلد ہی وہ یو این آئی تمل ناڈو ڈویژن کے بیورو چیف بن گئے۔‘

تھریڈ میں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یو این آئی کے عملے کو طویل عرصے سے ان کی تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہی ہیں

انہوں نے لکھا: ’بدقسمتی سے یو این آئی گذشتہ ساٹھ مہینوں سے تنخواہ نہیں دے رہا ہے۔ یو این آئی کے تمام عملے کے ارکان کو ان کی ماہانہ تنخواہ قسطوں میں مل رہی ہے لیکن یہ بھی کبھی کبھار نہیں ملتی۔‘

سینیئر صحافی نے یو این آئی پر اپنے ملازمین میں ذہنی دباؤ پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ تنخواہ کی عدم ادائیگی سے پیدا ہونے والے اسٹریس نے بہترین صحافی اور غیر معمولی طور پر ایک اچھے انسان کو خودکشی کرنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے کہیں اور نہیں بلکہ یو این آئی نیوز ایجنسی کے تامل ناڈو کے مرکزی دفتر چنئی کے مرکزی ہال میں خود کشی کی ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ کس کرب سے گزر رہے تھے۔ یو این آئی نے ان کی پوری زندگی تباہ کر دی۔‘

دوسری جانب ادارے کے چیف ایڈیٹر کول کا کہنا ہے کہ ’اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تنخواہوں میں تاخیر ہوئی ہے، تاہم کمار سمیت ملازمین کو تنخواہوں کی جزوی ادائیگی باقاعدگی سے کی جا رہی ہے، کم از کم میری یو این آئی میں شمولیت کے بعد پچھلے سات ماہ سے ایسا ہی ہو رہا ہے‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ گذشتہ سال دسمبر میں کمار کو مالی مدد کی ضرورت تھی کیونکہ ان کی ساس بیمار تھیں تو ہم نے انہیں کچھ رقم فراہم کی تھی

ان کے بقول : ’کمار کو جب بھی کوئی ہنگامی صورتحال درپیش ہوئی، اس سے قطع نظر کہ کمپنی کو کن مالی مسائل کا سامنا ہے، ان کی ہمیشہ مالی مدد کی گئی۔ پچھلے سال ستمبر میں انہوں نے کہا کہ ان کی بیوی گرنے سے زخمی ہو گئیں اور انہیں ہسپتال میں داخل کرانا پڑا ہے جس پر ہیڈ آفس سے کمار کو فوری طور پر پچیس ہزار روپے بھیجے گئے اور پچیس ہزار روپے کی ایک اور قسط چند دنوں بعد بھیج دی گئی۔‘

کمار کے پسماندگان میں بیوی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے سٹالن اور ریاست کی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ایڈاپڈی کے پلانی سوامی نے کمار کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے

وزیر اعلیٰ نے کمار کے اہل خانہ کے لیے تین لاکھ روپے کے معاوضے کا بھی اعلان کیا، جب کہ اپوزیشن لیڈر پلانی سوامی نے وزیر اعلیٰ سے صحافیوں کے لیے مختص ویلفیئر فنڈ سے کمار کے خاندان کو پچیس لاکھ روپے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے

آن لائن نیوز پورٹل ’دا نیوز منٹ‘ (ٹی این ایم) نے یو این آئی کے ایک سابق ملازم کے حوالے سے بتایا کہ ’مستقل عملے کے ملازمین کو ہر متبادل مہینے کی ادائیگی کی جاتی تھی یا انہیں ہر سال صرف سات ماہ کی تنخواہیں ملتی تھیں۔ جب میں وہاں کام کر رہا تھا تو میرے وہاں بیالیس سے چوالیس ماہ تک کے بقایا جات جمع ہو چکے تھے۔‘

سابق ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ٹی این ایم کو مزید بتایا کہ جب کول نے چیف ایڈیٹر کا عہدہ سنبھالا تو بہت سے مستقل ملازمین کو فارغ کر دیا گیا تھا

سابق ملازم نے دعویٰ کیا کہ ایسے کئی بقایاجات اور پراویڈنٹ فنڈز ہیں، جن کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔ کئی ملازمین اس صورت حال میں لیبر کورٹ سے رجوع کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں

یو این آئی میں ایک اور ملازم نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے ٹی این ایم کو بتایا کہ کمار کو پیسوں کی اشد ضرورت تھی، کیونکہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کا ادارہ رکھتے تھے

یو این آئی آل انڈیا ایمپلائز فرنٹ نے کمار کی موت کے تناظر میں جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مسٹر کمار کی اہلیہ کو کچھ ماہ قبل ایک حادثہ پیش آیا تھا اور انہوں نے اپنی اہلیہ کے علاج کے لیے اپنے زیر التوا واجبات میں سے کم از کم ایک لاکھ روپے ادائیگی کی درخواست دی تھی۔ تاہم انہیں محض پچیس ہزار روپے کی معمولی رقم بھیجی گئی۔ نیز کمار کی بیٹی کی منگنی اگلے ہفتے ہونے والی تھی اور معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے اس کے لیے پانچ لاکھ روپے کے لیے درخواست دی تھی، لیکن انتظامیہ نے ابھی تک اس پر کوئی جواب نہیں دیا تھا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا: ’ساٹھ ماہ کی تنخواہوں میں تاخیر کے باوجود ملازمین کے سنگین مالی بحران کے بارے میں انتظامیہ کا ناروا رویہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ رواں ماہ ہی سابق ملازمین کی زیر التوا قانونی گریجویٹی، زیر التوا تنخواہوں اور دیگر قانونی واجبات کی مد میں دس ہزار روپوں کی ادائیگی روکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘

کول نے اس بات سے انکار کیا کہ کمار نے اپنی بیٹی کی منگنی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے یو این آئی سے پانچ لاکھ روپے مانگے تھے۔

انہوں نے بتایا: ’یہ سچ نہیں ہے۔ ہمیں ایسی کوئی درخواست نہیں ملی۔‘

ایمپلائز فرنٹ کا الزام ہے کہ ان کی تنخواہوں کا صرف ایک حصہ، جو پندرہ ہزار روپے بنتا ہے، نئی دہلی میں یو این آئی کے ہیڈ آفس سے جاری کیا جا رہا ہے۔ ملازمین نے اپنی تنخواہوں میں مجموعی طور پر ساٹھ ماہ کے بیک لاگ کی طرف بھی اشارہ کیا

یو این آئی آل انڈیا ایمپلائیز فرنٹ نے بھی کمار کی موت کا باعث بننے والے واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’خودکشی کے لیے اکسانے والے ذمہ داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔‘

چیف ایڈیٹر نے کہا: ’میرے پاس مزید چار سو لوگوں پر مشتمل عملہ ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اس واقعے کی وجہ سے ان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ مجھے ان کے حوصلے بلند رکھنا ہوں گے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close