وہ اتوار کی ایک مصروف صبح تھی۔ میں ڈسٹنگ کر رہی تھی کہ بیڈ روم کی ڈسٹنگ کے دوران میری نظر آنگن میں بیٹھے ہوئے باصر پر پڑی اور یہ کیا…….!؟
میں وہیں منجمد ہو کر رہ گئی!
باصر کے ہاتھوں میں اخبار تھا مگر نظریں کہیں خلا میں بھٹک رہیں تھیں اور چہرے پر ایسی دلآویز مسکراہٹ، جس سے میں کم از کم اپنی پندرہ سالہ ازدواجی زندگی میں قطعی لاعلم تھی۔ ایک دم سے بیویوں والی ساری حسیں بیدار ہو گئیں..
یا الٰہی یہ کیا ماجرہ ہے؟
یہ وہ باصر تو نہیں، جن کو میں جاننے کی دعوے دار تھی۔
باصر میرے میاں، بہت ہی نپے تلے ہیں.. ان کی تو مسکراہٹ کا اینگل بھی مخصوص ہے، نہ ایک سنٹی میٹر کم، نہ ایک سنٹی میٹر زیادہ۔ گفتگو میں اختصار، پیار میں کفایت شعار، اور طبیعت سے بے زار..
میں ٹھہری ہنسوڑ طبیعت کی، شوخ و چنچل، شاعری، چاندنی اور سمندر کی دیوانی، زندہ دل…
شادی کے ابتدائی دنوں ہی میں باصر نے مجھے ”ڈو اینڈ ڈونٹ“ کی فہرست پکڑا دی تھی، پھر جب انہوں نے بتایا کہ میرے قہقہوں سے ان کے سر میں درد ہوتا ہے تو پہلے پہل تو دل ڈوبا، پھر آپ ہی آپ وہ ہنسنا، گنگنانا سب سنجیدگی کی دبیز کہر میں دھواں ہوتا گیا ۔ میکے کی طرف کے سارے کامدار، بھاری اور شوخ کپڑے امی کو واپس کر دیے، کہ گیتی کے کام آ جائیں گے ۔ میرے شولڈر کٹ بال قینچی کو ترس گئے ۔ اگر کبھی اچانک آئینہ پر نظر پڑ جاتی تو میں خود ٹھٹک جاتی کہ یہ کس کی شبیہ ہے؟
پھر یاد آتا کہ او ہو!! یہ تو عفت باصر ہے… کہ عفت رحیم تو کہیں کھو چکی ہے، جو اب ڈھونڈے سے بھی کہیں نہیں ملتی ۔
ساس کی بھی دن رات اٹھتے بیٹھتے یہی نصیحت تھی کہ شوہر کے دل میں اترنے کے لئے آپنا آپ بدلنا پڑتا ہے، دل مارنا پڑتا ہے ۔ سہاگن وہی، جو پیا من بھائے.. پر پیا کے من کا بھید کسی کل کھلتا ہی نہ تھا۔ نہ جانے نامراد کس پاتال میں تھا کہ پوری جان لڑا دی پر نتیجہ وہی دھاک کے تین پات۔
وہ تو اللہ بھلا کرے امی کا کہ ڈانٹ ڈانٹ کے کھانا پکانے کے فن میں طاق کر دیا تھا اور اللہ قائم رکھے باصر کے چٹورے معدے کو، کہ اس کے صدقے ان کے دل کے کسی کونے میں مجھے انچ دو انچ جگہ میسر آ گئی..
گذرتے وقت کے ساتھ تین بچے بھی ہو گئے. بچوں کی ذمہ داری، گھر داری اور ساتھ ساتھ ساس سسر کی تابعداری، اسی میں زندگی گزر رہی تھی..
میرے گھر کا دستور ”کمانڈ اینڈ اوبے“ تھا… یعنی فیصلے باصر کے اور ان پر عمل درآمد کرانا میری ذمہ داری ۔ باصر وقت کے ضرورت سے زیادہ پابند تھے، اتنا کہ لوگ ان کو دیکھ کر گھڑی ٹھیک کیا کرتے تھے اور میں تو گویا گھڑی کے ساتھ نتھی تھی۔ زندگی نپے تلے انداز میں چلتی رہی. بچے بڑے ہوتے گئے اور آگے پیچھے ساس سسر بھی گزر گئے، مگر گھر، گھر نہیں مکان ہی رہا، ٹھنڈا اور ٹھٹھرتا ہوا بے رنگ ۔
زندگی روبوٹیک انداز میں گزر رہی تھی، نہ کوئی تھرل نہ ایکسائیٹمینٹ، نہ پیار کی چاشنی… اور رومانس تو گویا شجر ممنوعہ ۔ ضروریات ساری پوری ہو رہی تھیں، میاں گھریلوں معملات میں دخیل نہیں تھے. کھلا پیسا میرے ہاتھ میں دیتے تھے، لہٰذا خاندان میں اور خاص کر دونوں نندوں کی نظر میں، میں دنیا کی خوش نصیب ترین عورت تھی، جس کو اتنا بیبا شوہر ملا تھا۔ میں خود کو بھی یہی باور کراتی تھی۔
پر آج جو کچھ میری آنکھوں نے دیکھا تھا، وہ ناقابل یقین تھا… کس سے پوچھوں؟
کس سے صلاح لوں؟
باصر کے شب و روز پر میری گہری نظر تھی۔ اب وہ آئینہ کو نسبتاً زیادہ وقت دینے لگے تھے اور کھانے میں روغن کم کرنے کا نیا حکم نامہ بھی جاری ہو گیا تھا۔
میں اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ اللہ کو مجھ پر رحم آ گیا اور ایک شام میری بڑی نند، عرف بڑی باجی کی سواری باد بہاری کی تشریف آوری ہوئی ۔ باتوں باتوں میں بڑی باجی نے بتایا کہ ثروت آنے والی ہیں.. تم سے باصر نے ذکر تو کیا ہوگا؟
میں نے کہا ہاں کچھ کہہ تو رہے تھے.. کون ہیں یہ ثروت؟
بڑی باجی ایک خاص انداز سے ہنسی اور کہنے لگی کہ ثروت وہ ہیں کہ اگر وہ یہاں ہوتیں تو تم یہاں نہیں ہوتیں ۔ ثروت ان لوگوں کی سکینڈ کزن ہیں اور باصر اور ثروت ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے ۔ گھر والے بھی باصر کی دیوانگی سے آگاہ تھے، بس باصر کی نوکری کا انتظار تھا تاکہ پھر ٹھسے سے رشتہ مانگنے جائیں، مگر اللہ تعالٰی کو کچھ اور منظور تھا۔ ثروت کی کسی دوست کے گھر ثروت کو اس کے امریکن سیٹیزن کزن نے دیکھا اور دل ہار گیا ۔ اب امریکا پلٹ کے آگے بیچارہ پاکستانی مڈل کلاسیا بھلا کہاں ٹھہرتا؟ یوں ثروت امریکا سدھاری ۔ ادھر باصر اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ جذبات کو جلاوطن کر کے ربوٹ بن گئے ۔ بڑی باجی بتا رہیں تھیں کہ ثروت بہت حسین تھیں ۔ ان کی سب سے بڑی خوبصورتی ان کے لمبے، گھنے اور سیاہ ریشمی بال تھے..
بڑی باجی مزید مدح سرا رہتیں پر شاید میرے چہرے پہ ملال کے رنگ زیادہ ہی گہرے ہو گئے تھے سو انہوں نے بات بدل دی۔
میں نے پوچھا کہ کب آ رہیں ہیں؟
پتہ چلا پہلی اگست کو ۔ پھر میں نے ثروت کی پسند نا پسند پوچھی، رنگوں میں کھانوں میں…
میں نے بڑی باجی سے آہستگی سے بس اتنا کہا کہ اگر آپ یہ سب کچھ مجھے شادی کے شروع دنوں میں بتا دیتی تو شاید باصر کو ہینڈل کرنا قدرے آسان ہو جاتا۔ باجی پوچھنے لگیں کہ تمہیں برا لگا کیا؟
میں نے کہا نہیں، برا نہیں لگا کہ اس وقت باصر committed نہیں تھے، آزاد تھے، کس پر دل آ جانا فطری بات ہے۔ کسی کی چاہ کرنا ان کا حق تھا، لیکن انہوں نے یہ بہت بڑا ظلم کیا کہ میری شخصیت کو ختم کر کے مجھے ثروت بنانا چاہا اور پھر بھی میرے نہ ہوئے۔ اس سے بھی زیادہ غلط تب ہوگا کہ اگر اب وہ ان کو سوچیں، کیوں کہ یہ بےوفائی اور بد عہدی ہوگی۔ بندہ محبت کرے یا نہ کرے پر وفا تو نبھائے۔ ویسے بھی میرا ایمان ہے کہ رزق کی طرح بندے کے نصیب میں محبت بھی لکھی ہوتی ہے اور میں اپنے نصیب پر راضی ہوں۔
بڑی باجی بہت شرمندہ تھیں، کہنے لگی کہ میں تمہاری کچھ مدد کر سکتی ہوں؟
میں نے کہا کہ آپ نے میری بہت بڑی الجھن حل کر دی ہے اور آپ بےفکر ہو جائیں کچھ برا نہیں ہوگا۔
اب مجھے اپنا لائحہ عمل طے کرنا تھا۔ دونوں اپنے اپنے گھر کے تھے اور بال بچے دار بھی ، پھر بقول بڑی باجی کہ ثروت کے میاں ابھی تک ان کے شیدائی تھے، لہٰذا چنگاریوں کے بھڑکنے کا امکان تو بلکل نہیں تھا مگر میری خواہش اور کوشش تو یہی ہوگی کہ چنگاری بھی بجھ ہی جائے۔
میرے ہاتھ میں ابھی بیس دن تھے ۔ میں نے اپنے اکاؤنٹ کا جائزہ لیا اور اللہ کا نام لے کر اس نئی مہم میں جت گئی ۔
گھر کی آرائش میں مناسب ردوبدل کی اور باصر کی وارڈ روب خاصی بدل ڈالی۔ اپنا ناقدانہ جائزہ لیا اور ایک اچھے بیوٹی پالر سے وقت لے لیا ۔ کھانے میں ویسے ہی مرغن بناتی رہی ، باصر نے ایک آدھ بار اعتراض کیا تو بچوں کی پسند کا بہانہ بنا کر ٹال دیا ۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ کم از کم اس وقت تو ان کو ڈائٹنگ بالکل بھی نہیں کرنے دینی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنا ڈائیٹ چارٹ تیار کیا اور سختی سے اس پر عمل پیرا ہو گئی ۔
فجر کی نماز کے بعد ذکر اور واک کا دورانیہ بڑھا دیا۔ باصر اپنی دنیا میں اس قدر مگن تھے کہ گھر کی خاموش تبدیلی کو نوٹس ہی نہیں کیا ۔
بالآخر ثروت کی دھماکہ دار آمد ہو گئی اور میں نے فون پر بہت محبت سے ان کو سنیچر کو رات کے کھانے پر مدعو کیا، جیسے انہوں نے نہایت خوش دلی سے قبول کر لیا ۔
دعوت سے ایک دن پہلے اور دعوت کا دن انتہائی مصروف تھا۔ میرے دل کی دھڑکن بھی معمول سے تیز تھی اور میں چپکے چپکے باصر کو بھی دیکھ رہی تھی ۔ ان کے چہرے پر جیسے کسی نے رنگ کی پچکاری مار دی ہو اور ان کا چہرہ پل پل رنگ بدلتا تھا اور ان کی کیفیت شدید اضطرابی.
شام سات بجے ثروت اپنے میاں اور دونوں بچوں کے ساتھ تشریف لائیں ۔ میں نے بڑی باجی کی فیملی کو بھی مدعو کر لیا تھا، جبکہ چھوٹی نند سیر و تفریح کی غرض سے ملک سے باہر تھیں۔
ثروت کو دیکھ کر تو میری سانس ہی رک گئی۔ اس قدر حسین اور اسمارٹ کہ حد نہیں۔ ان کے سراپے سے تو گویا نظریں ہی نہیں ہٹتی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پورا خاندان ہی اسمارٹ اور خوش شکل تھا، مگر اب وہ مشرقی بلکل نہیں تھیں، پوری کی پوری امریکن تھیں ۔ برگنڈی رنگ کے بوب کٹ بال اور مغربی لباس و انداز ۔ نہایت خوش دلی اور بے تکلفی سے سب سے ملی اور باصر کی صحت اور توند پر ظالمانہ تبصرہ بھی کر دیا، جس کے بعد باصر کچھ بجھ سے گئے..
کھانے پر میں نے بہت اہتمام کیا تھا اور چن چن کر ان کی ناپسندیدہ ڈشز بنائی تھیں، صرف بریانی اور دہی بیگن ان کے پسند کے تھے کہ آدابِ میزبانی کا بھی کچھ تقاضہ تھا۔ میں نے ان کی تمام ناپسندیدہ ترین ڈیشز کو باصر کی پسندیدہ ترین کہہ کہہ کر ان کی طرف بڑھائی، ایک لمحے کو ان کی آنکھوں میں حیرت جھلکی مگر سر جھٹک کر وہ پھر اپنے امریکا نامہ میں مشغول ہو گئی ۔
چلتے وقت میں نے ان کی ساری فیملی کو تحائف پیش کیے اور خاص کر ثروت کو جو سوٹ دیا وہ یہ کہہ کر دیا کہ یہ آپ کے لیے خاص طور پر باصر نے پسند کیا ہے اور ظاہر ہے، وہ سوٹ بھی ان کے ناپسندیدہ رنگ کا تھا۔
ایک لمحے کو انہوں نے حیران نظروں سے باصر کو دیکھا پھر انہوں نے کھینچ کر مجھے گلے لگایا اور میری اور میرے سلیقے طریقے کی بہت تعریف کی اور باصر کو اس قدر اچھی بیوی مل جانے پر لاکھ لاکھ شکر ادا کرنے کا مشورہ دیتی ہوئی ہنستی مسکراتی رخصت ہوئیں ۔ بڑی باجی نے رخصت ہوتے ہوئے ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ میرے کندھے تھپکے، وہ میری سازش جان گئی تھیں۔
سونے سے پہلے جب میں اپنا میک اپ صاف کر رہی تھی تو باصر میرے اسٹول کے پیچھے آکر کھڑے ہو گئے اور میرے بالوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر ان کی نرماہٹ محسوس کرتے ہوئے پہلی بار میرے بالوں کو سراہا اور کہنے لگے لمبے بالوں کا حسن ہی الگ ہے اور ہاں کھانے کا انتظام آپ نے نہایت عمدگی سے کیا تھا، ہر چیز پرفیکٹ تھی۔
یہ پندرہ سالہ ازدواجی زندگی کی پہلی ستائش اور اقرار تھا۔ میں نے پلٹ کے ان کی آنکھوں میں جھانکا اور ان آنکھوں میں پہلی بار دھند نہیں بلکہ میری واضح شبہہ تھی۔
دیر تو ہوگئی تھی، پر شکر کہ بالآخر میرا ”اسنو مین“ پگھلنا شروع ہو گیا تھا اور میرا مکان ایک دم سے گھر ہو گیا.