کراچی یونیورسٹی میں وی سی کے امیدواروں کے لئے ایچ ای سی اور سرچ کمیٹی کی نامکمل رپورٹس کیوں آئیں؟

نیوز ڈیسک

کراچی – کراچی یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی کے لئے سرچ کمیٹی کی جانب سے مبینہ طور پر تاخیری حربے اور جعل سازی کے بعد معاملہ عدالت چلا گیا تھا، جس کے بعد عدالت کی جانب سے سرچ کمیٹی کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر شپ کے امیدواروں کی اکیڈمک معلومات سمیت ضروری کوائف کی چھان بین کرکے رپورٹ جمع کرائے

جس کے بعد سرچ کمیٹی کے اس وقت کے کنوینئر عبدالقدیر راجپوت کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے مفصل تحقیق و تفتیش کے بجائے ادھوری معلومات حاصل کیں اور ان کا حوالہ دے کر ادھوری معلومات عدالت میں جمع کراکے کم، مبہم، غیر متعلقہ مجلات اور غیر مستند مجلات کے علاوہ 29 جون 2019ع کے بعد بھی شائع ہونے والے مضامین کو شامل کرکے مبینہ طور پر گمراہ کن رپورٹ عدالت میں جمع کرائی

اس رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر پیر زادہ جمال احمدکے 80 میں سے 59، ڈاکٹر جمیل ایچ کاظمی کے 111 میں سے 34، ڈاکٹر کمال ایس عارف کے 68 میں سے 19، ڈاکٹر مونس احمرکے 97 میں سے 13، ڈاکٹر محمد یوسف خشک کے 51 میں سے 35، ڈاکٹر خالد محمود عراقی کے 59 میں سے 35، ڈاکٹر رخسار احمد کے 88 میں سے 15، ڈاکٹر فتح محمد برفت کے 40 میں سے 15 تحقیقی مقالہ جات کی تصدیق کرکے رپورٹ جمع کرائی گئی

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس رپورٹ میں مبینہ طور پر تحقیقی مضامین کی مکمل معلومات درج نہ کرکے حقائق کو چھپانے کی کوشش کی گئی، سرچ کمیٹی نے وائس چانسلر کی تعیناتی کے عمل میں شفافیت کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مجلات کے نام و ٹائٹل، سن اشاعت و سیریل نمبر، تحقیقی مضمون کا موضوع تک درج کئے بغیر رپورٹ جمع کرائی اور اس میں خود کو بچانے کے لئے رپورٹ کے آخری پیرا گراف میں لکھا کہ اگر پھر بھی کوئی معلومات رہ گئی ہوں تواس کی تحقیق کی جاسکتی ہے

تاہم عدالتی فیصلے میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں وی سی کی پوزیشن پر اپلائی کرنے والے ہر ایک درخواست گزار کے اکیڈمک ریکارڈ کی تصدیق کی جائے۔ اس کے باوجود سرچ کمیٹی اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے حقائق کو پیش نہیں کیا، لیکن تفصیلی فیصلہ آنے پر یہی عمل دوبارہ دہرائے جانے کا امکان ہے۔ جس میں واضح طور پر وہ تمام پیپرز جو خالد عراقی نے بطور نگران وی سی کراچی یونیورسٹی سے شائع ہونے والے مجلات میں شائع کئے ہیں، وہ تمام منہا کر دیئے جائیں گے

یاد رہے کہ خالد عراقی کے وہ پیپرز بھی شمار نہیں کئے جائیں گے، جو انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے لئے دئے گئے اشتہار کے بعد شائع کئے ہیں۔ دستاویز کے مطابق خالدعراقی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے رولز کے برعکس بعض تحقیقی مضامین ایسے مجلات میں شائع کئے ہیں جو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تصدیق شدہ (ریکگنائزڈ) مجلات کی فہرست میں نہیں ہیں، جب کہ خالد محمود عراقی نے اعلیٰ ترین انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ایک ساتھ پانچ تحقیقی مقالے لکھنے کا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے انہیں ایک ہی تاریخ میں شائع کرے کا منفرد سلسلہ بھی انجام دیا ہے

خالد محمود عراقی نے جن مجلات میں اپنے تحقیقی مقالے شائع کئے ہیں، ان میں متعدد مجلات کے ایڈیٹر انچیف بھی وہ خود ہی تھے، جو کہ ہائیر ایجوکیش کمیشن کے قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ کمیشن کے مطابق ایڈیٹر کے زیر ادارت شائع ہونے والے مجلات میں وہ خود اپنے مضامیں شائع نہیں کر سکتا۔ رولز کے مطابق جس انسٹیٹیوٹ سے جتنے بھی مجلات شائع ہونگے،ان میں شائع ہونے والے کل پرچہ جات کا 1/5فیصد تحقیقی مضامین جامعہ سے ہونگے، اس سے زائد پرچہ جات کا اسی انسٹیٹیوٹ سے ہونا غیر قانونی تصور کیا جائے گا

تاہم خالد عراقی بطور وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی سے شائع ہونے والے مجلات کے ایڈیٹر ان چیف بھی رہے۔ جس کی وجہ سے وہ کراچی یونیورسٹی کے مجلات میں اپنے پرچہ جات شائع کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ اس کے برعکس انہوں نے پرچہ جات شائع کئے، بلکہ کئی ایسے شعبہ جات کے پرچے بھی ان کے نام منسوب ہوئے، جن میں وہ ماہر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر شعبہ صحافت کے پرچہ جات میں خالد عراقی کا نام شامل کیا گیا، جبکہ مذکورہ فیلڈ میں ان کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اسی طرح اسلامیات، بین الاقوامی تعلقات اور دیگر شعبہ جات سے شائع ہونے والے پرچوں بھی میں ان کا نام شامل کیا گیا

ذرائع کا دعویٰ ہے اگر ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے خالد عراقی کا ایمان دارانہ اکیڈمک آڈٹ کیا تو وہ آئندہ وائس چانسلر کے لئے دراخواست دینے کے اہل نہیں ہو نگے۔ گوگل اسکالرز پر موجود رکارڈ کے مطابق خالد عراقی نے کل 54 تحقیقی آرٹیکلز شائع کئے ہیں، جن میں 1996ع میں ایک، 2002 میں ایک، 2003 میں ایک، 2009 میں ایک، 2015 میں چھ، 2017 میں ایک،2019 میں اکیس، 2020 میں دس اور 2021 میں تین تحقیقی مقالے شائع کیئے ہیں

1996ع میں انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے Y کیٹیگری کے جنرل آف سوشل سائنسز اینڈ ہیومنٹیز کے والیم ون میں شائع کیا تھا، جس کا عنوان ریاست کے عروج اور زوال پر ابن خلدون کے نظریہ کا جائزہ تھا۔ اس آرٹیکل کا لنک Jsshuok.com پر موجود نہیں ہے

2002ع میں انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے Y کیٹیگری کے جنرل آف سوشل سائنسز اینڈ ہیومنٹیز میں عالمی مسائل اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کی ذمہ داریاں کے نام سے شائع کیا تھا جس کا لنک Jsshuok.com پر موجود نہیں ہے۔

2003 میں ابوذر واجدی، محمد اقبال خان اور خالد محمود عراقی نے ریسرچ جنرل سوشل سائنسز کے والیم 2 کے اشو نمبر 1 میں پاکستان کے بلدیاتی نظام کی منتقلی کا پلان اور لوکل گورنمنٹ کا نیا ڈھانچہ کے نام سے شائع کیا تھا، جو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے ریکیگنائزڈ ہے نہ ہی اس کا ISSN اور جنرل کا لنک گوگل اسکالر پر موجود ہے

2009ع میں انہوں نے Small and Medium Enterprises in Transitiona Economies میں تحقیقی مقالہ لکھا، جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ریکگنائزڈ جنرلز میں نہیں ہے

2015ع میں حسن رضا، خالد محمود عراقی، سید شاہد، ظہیر زیدی، علی رضا نے مشترکہ طور پر بین الاقوامی جنرل آف مینجمنٹ سائنسز میں ایک تحقیقی مقالہ لکھا، جس کا گوگل اسکالر پر ISSN نمبر موجود ہے نہ ہی وہ ایچ ای سی کے ریکیگنائزڈ مجلات میں شامل ہے

ستمبر 2015ع میں خالد عراقی، انعم فاطمہ اور وردہ ندیم نے ایک مشترکہ آرٹیکل انٹرنیشنل ریسرچ جنرل آف ہیومن ریسورس اینڈ سوشل سائنسز میں تحقیقی مقالہ لکھا جو ایچ ای سی کے ریکیگنائزڈ مجلات میں نہیں ہے

6 جون 2015ع کو انٹرنیشنل جنرل ان مینجمنٹ اینڈ سوسل شائسنز میں خالد محمود عراقی، نصرت ادریس اور محمد علی نثار نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا، جو ایچ ای سی سے ریکگنائزڈ مجلے میں شائع ہوا نہ اس کا آن لائن ریکارڈ موجود ہے

2015ع کو ارشد سید کریم اور خالد محمود عراقی نے Y کیٹیگری کے نیو ہوریزون میں تحقیقی مجلہ شائع کیا، جس کا آن لائن صرف پہلا صفحہ موجود ہے، اس کے علاوہ کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے

8 ستمبر 2015ع کو سمیرا کالیہ اور خالد محمود عراقی نے Y کیٹیگری کے پاکستان جنرل آف جینڈر اسٹیڈیز میں تحقیقی مقالہ شائع کیا

مئی 2015ع کو خالد محمود عراقی، ہدیٰ یٰسین محسن اور محمد یٰسین نے مشترکہ طور پر تحقیقی مقالہ انٹرنیشنل جنرل آف کمپیوٹر ایپلیکیشن میں شائع کیا تھا، جس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے

2015ع میں انہوں نے چھ تحقیقی آرٹیکلز لکھے، جن میں چار ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ریکگنائزڈ مجلات میں نہیں ہیں، جبکہ دو ریکگنائزڈ مجلات میں شامل ہیں

2017ع میں احمر ظفر، خالد عراقی اور صدف مصطفیٰ نے مشترکہ طورپر تحقیقی مقالہ انٹرنیشنل جنرل آف اکیڈمک ریسرچ ان بزنس اینڈ سوشل سائنسزمیں لکھا، جو ایچ ای سی سے تصدیق شدہ (ریکیگنائزڈ) نہیں ہے

2018ع میں نو تحقیقی مقالے لکھے، جن میں چھ ایچ ای سی سے ریکیگنائزڈ مجلات میں شامل ہیں، جبکہ تین نہیں ہیں

18 اگست 2018ع کو خالد عراقی اور مصطفیٰ حیدر نے ساتویں بین الاقوامی کانفرنس ملائشیا میں اپنا مقالہ پیش کیا، جو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے ریکیگنائزڈ ہی نہیں ہے

15 اکتوبر 2018ع کو مصطفیٰ حیدر اور خالد محمود عراقی نے ایک مقالہ لکھا، جو چوتھی بین الاقوامی کانفرنس برائے ایڈوانس ایجوکیشن اینڈ سوشل سائنسز پر تھا، جو ایچ ای سی سے ریکیگنائزڈ جنرل میں نہیں ہے

2018ع میں خضرحیات، خان طاہر اور خالد عراقی نے مشترکہ طو رپر جنرل آف مینجمنٹ سائنسز میں ایک مقالہ لکھا، جو ایچ ای سی سے منظور شدہ مجلے مین شائع ہوا

2018 میں مصطفیٰ حیدر اور خالد عراقی نے ایک مقالہ Y کیٹیگری میں شائع کرایا، 23 دسمبر 2018 کو خالد عراقی نے ایک مقالہ Y کیٹیگری میں شائع کر ایا، جو ایچ ای سی سے منظور شدہ مجلے میں شائع ہوا

6 روز بعد 28 دسمبر 2018 کو بین الاقوامی جنرل آف اکیڈمک ریسرچ اینڈ بزنس اینڈ سوشل سائنسز میں زہیمہ، اسرار محی الدین، خالد عراقی اور حیدر اقبال کا مشترکہ مضمون شائع ہوا، 30 جون 2018 کو Y کیٹیگری کے پاکستان جنرل آف جینڈر اسٹیڈیز سینٹر آف ایکسکلیوسیو برائے وومن اسٹڈیز کراچی یونیورسٹی میں سارہ پرویز، خالد محمود عراقی کا مشترکہ مضمون شائع ہوا، 2018میں ساؤتھ ایشین جنرل آف مینجمنٹ سائنز میں محمد علی، خالد محمود عراقی، آمنہ سہیل، راوت اور شعیب محمد کا مشترکہ تحقیقی مضمون شائع ہوا اور 2018میں Yکیٹیگری کے جنرل آف ایجوکیشن اینڈ سوشل سائنسز میں فہیم اختر اور خالد محمود عراقی کا مضمون شائع ہوا تھا

2019میں خالد محمود عراقی نے دیگر مصنفین کے ساتھ مل کر اکیس تحقیقی مقالے لکھے، اور حیران کن طورپر تیز ترین تحقیق کرتے ہوئے ہر ماہ تقریباً دو تحقیقی مضامین شائع کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جن میں سے 9 ریسرچ مقالے ایسے مجلات میں شائع کیئے ہیں جن کے پیٹرن ان چیف وہ خود ہیں، 15جولائی 2019 کو جامع کراچی کے وائس چانسلر کے تقرر کے لئے اشتہار شائع کئے تھے، اس اشتہار کے بعد خالد محمود عراقی نے 7 تحقیقی مقالے لکھ کر اپنی تعداد پوری کرنے کی کوشش کی تھی جب کہ 9 تحقیقی مضامین ایسے ہیں جن میں شائع ہونے کی تاریخ لکھی ہی نہیں ہے اور 2 تحقیقی مضامین غیر متعلقہ قرار دیئے گئے ہیں جبکہ 3 مقالے 31 دسمبر 2019 کو مختلف مجلات میں شائع کئے گئے ہیں

2020 میں دس تحقیقی مضامین شائع کئے ہیں، جن تین ایسے مجلات میں تحقیقی مضامین شائع کئے ہیں، جن کے پیٹرن ان چیف خالد عراقی خود ہیں، جب کہ تین تحقیقی مضامین ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ریکیگنائزڈ مجلات میں شائع ہوئے اور سات غیر مستند مجلات میں شائع ہوئے ہیں۔ان میں دو مضامین 22 جون 2020 کو ایک ہی تاریخ مین شائع ہوئے ہیں

2021 میں خالد محمود عراقی نے تین تحقیقی مضامین شائع کئے ہیں، تینوں وائس چانسلر کے لئے جاری ہونے کی تاریخ 29 جون 2019 کے بعد شائع ہوئے ہیں، جن میں سے ایک ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ریکیگنائزڈ ریسرچ جنرل میں شائع ہوا ہے جبکہ دو غیر مستند مجلے میں شائع ہوئے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close