چائنا کے سستے اے سی پاکستان کو کیسے گرمی کا دہکتا جہنم بنا رہے ہیں؟

ویب ڈیسک

کراچی – ثاقب علی کراچی کے ڈیفنس کمرشل ایریا میں واقع ایک دکان ہائی ٹیک الیکٹرانکس میں کام کرتے ہیں۔ یہاں گھریلو آلات جیسے ایئر کنڈیشنر اور ریفریجریٹر کی مرمت کی جاتی ہے۔ ثاقب کا زیادہ تر کام آلات میں گیس بھرنے کا ہے

ثاقب جس ’گیس‘ کی بات کر رہے تھے، وہ ہائیڈرو فلورو کاربن (ایچ ایف سی) کی ایک قسم ہے، جسے فریج، ڈیپ فریزر اور اے سی میں ریفریجرینٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے پاکستان میں موسمِ گرما قریب آرہا ہے، ثاقب کی مصروفیت بھی بڑھتی جا رہی ہے

ماضی میں استعمال ہونے والے کلورو فلورو کاربن (سی ایف سی) کے برعکس، ایچ ایف سی زمین کی حفاظتی اوزون تہہ کو تو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن یہ طاقتور گرین ہاؤس گیسیں ہیں، جو زمین کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں 140 سے 11700 گنا زیادہ گرم کرتی ہیں

خیال رہے کہ ریفریجریشن اور ایئر کنڈیشننگ سے ہونے والا اخراج گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تقریباً دس فیصد ہے، جو ہوا بازی اور جہاز رانی کی صنعت کے اخراج سے بھی تین گنا زیادہ ہے

یہی وجہ ہے کہ 2019ع میں ترقی یافتہ ممالک نے ایچ ایف سیز کو مرحلہ وار ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ ترقی پذیر ممالک 2024ع سے 2028ع کے دوران اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے

حال ہی میں پاکستان کی جانب سے بھی اس سمت میں پہلا قدم اٹھانے کی بات کی گئی ہے۔ اکتوبر 2021ع میں اپنے تازہ ترین ’نیشنلی ڈیٹرمنڈ کنٹریبیوشن‘ میں، پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ 2026ع تک ملک میں ’پاکستان کولنگ ایکشن پلان‘ (پی سی اے پی) کو اختیار کرلیا جائے گا۔ یہ ملک میں ’کولنگ کی کلیدی ضروریات کی نشاندہی کرے گا اور اس میں ماحول پر کم سے کم اثرات کے ساتھ کولنگ سے متعلق موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کو ترجیح دی جائے گی‘

اس منصوبے کے بارے میں بہت محدود سرکاری معلومات دستیاب ہیں۔ بہرحال یہ خبر پاکستان کی موسمیاتی پالیسی کے حوالے سے ایک اہم وقت پر آئی ہے۔ ملک میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ مہلک ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ سال جون میں ایک جانب گرمی کی شدت اور ایئر کنڈیشننگ کی وجہ سے بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب بجلی کی فراہمی متاثر ہونے لگی

جیسے جیسے ملک ترقی کرے گا اور اس کی آبادی بڑھے گی ویسے ہی ایئر کنڈیشننگ کی ضرورت بھی بڑھتی جائے گی۔ انسانی صحت اور بہبود کے لیے اہم ہونے کے علاوہ، کولنگ یا ایئر کنڈیشنگ ٹیکنالوجی اقتصادی ترقی کے لیے بھی اہم ہے، دوسری جانب صنعتی پیداوار اور خوراک و ادویات کے تحفظ کے لیے بھی ریفریجریشن ضروری ہے

ایئر کنڈیشننگ اور کولنگ سے متعلق پاکستان کے مسائل

کولیبریٹو لیبلنگ اینڈ اپلائنس اسٹینڈرڈز پروگرام (سی ایل اے ایس پی) ایک بین الاقوامی این جی او ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ پاکستان کے کولنگ ایکشن پلان کے مسودے میں معاونت کرنے والی تنظیموں میں سے ایک ہے

سی ایل اے ایس پی میں کولنگ پلان کی پروجیکٹ منیجر آمنہ شہاب کہتی ہیں ”دنیا جتنی زیادہ گرم ہوتی ہے، اتنا ہی ہم خود کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ایئر کنڈیشننگ کا استعمال کرتے ہیں. لہکن زیادہ تر لوگوں کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ کولنگ کے آلات سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں (جی ایف جی) ہماری دنیا کے درجہ حرارت میں کتنا اضافہ کررہی ہیں“

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ گرمی بڑھنے پر ہم مصنوعی ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے گرمی کی آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں. کیا ہمیں درخت کی شاخ پر بیٹھے شیخ چلی پر اسی شاخ کو کاٹنے کی بے وقوفی کی وجہ سے ہنسنے کا حق ہے؟

2018ع میں ایئر کنڈیشننگ کی کُل عالمی طلب میں پاکستان کا حصّہ 0.7 فیصد تھا، ایک تخمینے کے مطابق یہ طلب عالمی سطح پر گیارہ کروڑ دس لاکھ میں سے آٹھ لاکھ چوبیس ہزار یونٹس تھی۔ محققین کا اندازہ ہے کہ پاکستان دنیا میں ایئر کنڈیشنگ کی طلب کے حوالے سے پانچویں نمبر پر ہے

پاکستان کے مسائل میں سے ایک مسئلہ پرانی ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ہے۔ 2010ع سے پہلے، آر22، یا آر22 فریون نامی ریفریجرینٹ دنیا بھر میں کولنگ ٹیکنالوجیز میں استعمال ہوتا تھا۔ بعد ازاں یہ اوزون کی تہہ کے لیے انتہائی نقصان دہ پایا گیا اور امریکا جیسے ممالک نے اس کے متبادل کے لیے کوششیں شروع کر دیں

ہیٹنگ، وینٹیلیشن، اے سی اینڈ ریفریجریشن (ایچ وی اے سی آر) انجینئرنگ سائنسز اور ٹیکنالوجیز پر کام کرنے والی پاکستان ایچ وی اے سی آر سوسائٹی کے سابق صدر خرم ملک کہتے ہیں ”نتیجے کے طور پر چین نے پاکستان کو اپنے ڈمپنگ گراؤنڈ کے طور پر استعمال کیا اور ہمیں ضائع ہونے کے قریب اور متروک اے سی سستے نرخوں پر فروخت کیے۔ یوں ہم میں سے بہت سے لوگ جو ایئر کنڈیشنر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے وہ بھی اے سی خریدنے کے قابل ہوگئے“

انہوں نے مزید کہا ”پاکستان میں پرانی ٹیکنالوجی کے انتظام کے لیے بہت کمزور طریقہ کار ہے۔ اب ملک اس میں پھنس کر رہ گیا ہے“

پی سی اے پی اس سمت میں پہلا قدم ہے اور یہ 2023ع تک تیار ہوجائے گا۔ پاکستان کی وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے نیشنل پروگرام منیجر برائے نیشنل اوزون یونٹ ضیا الاسلام نے دی تھرڈ پول کو بتایا ”دیگر اشیا کے علاوہ مستقبل میں استعمال ہونے والے برقی آلات کو کم از کم انرجی پرفارمنس اسٹینڈرڈز (ایم ای پیز) پر عمل کرنا ہوگا اور عمارتوں کی انسولیشن پر بھی توجہ دی جائے گی“

انہوں نے کہا ”کولڈ چینز (جو ترسیل کے دوران خراب ہونے والی اشیائے خورد و نوش کی تازگی کو برقرار رکھتی ہیں) اور درجہ حرارت برقرار رکھنے والی سہولیات (کولڈ اسٹوریج اور ریفریجریٹڈ ٹرانسپورٹیشن) بھی منصوبے کا حصہ ہوں گی“

ضیا الاسلام کا کہا تھا ”اگرچہ ‘پاکستان کولنگ ایکشن پلان’ ایک پابند دستاویز نہیں ہوگا، لیکن کولنگ پلان کا ہونا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ پی سی اے پی کو بطور پالیسی حکمتِ عملی متعارف کروایا جائے گا اور اس کے قواعد کو مشاورت کے بعد تیار کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر اس کے نفاذ کے معاملات کو وزارتِ تجارت کے ذریعے درآمدی پالیسی میں شامل کیا جائے گا“

کون سے ریفریجرینٹ استعمال کیے جائیں گے؟

آمنہ شہاب کہتی ہیں ”مصنوعی ریفریجرینٹس کو ’قدرتی‘ ہائیڈرو کاربن اور ہائیڈرو فلورولفائنز (ایچ ایف اوز) سے تبدیل کیا جائے گا۔ ایچ ایف اوز مصنوعی ریفریجرینٹ ہیں، لیکن اس وقت استعمال ہونے والے کیمیکلز کی نسبت کم گلوبل وارمنگ کا باعث بنتے ہیں۔“

لیکن خرم ملک کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ کام بتدریج ہوگا اس وجہ سے ’پاکستان 2040ع تک ایچ سی ایف سیز کا استعمال جاری رکھ سکتا ہے‘

انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی اکثر کولنگ آلات کی زیادہ سے زیادہ عمر تقریباً پندرہ سال ہوتی ہے اور اس وقت تک ملک کے زیادہ تر پرانے آلات تبدیل ہوچکے ہوں گے۔ خرّم ملک نے کہا کہ ’لیکن جو چل رہے ہوں گے ان کو نئی گیسوں پر چلنے کے قابل بنایا جاسکے گا‘

بین الاقوامی دباؤ اور ذمہ داریاں

اس منصوبے کا وقت بھی اہم ہے۔ چین کا اپنا کولنگ پلان اس سال نافذ ہوا ہے۔ ضیا الاسلام کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان چینی ریفریجریشن اور ایئر کنڈیشنرز کا سب سے بڑا خریدار ہے اس وجہ سے یہ ’ہمارے لیے کولنگ پلان تیار کرنے کی معقول وجہ ہے‘

اس کے علاوہ بھی کچھ بین الاقوامی عوامل موجود ہیں۔ پاکستان نے اپنے نیشنلی ڈیٹرمنڈ کنٹریبیوشن میں 2030ع تک اپنے گرین ہاؤس گیس (جی ایچ جی) اخراج کو نصف کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جس کا ایک اہم جز مضبوط ریگولیٹری فریم ورک بھی ہے۔ ضیا الاسلام نے کہا کہ 2047ع تک ایچ ایف سیز کو 80 فیصد تک کم کرنے کے لیے مونٹریال پروٹوکول میں کیگالی ترمیم کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ایسا کرنا ضروری ہوگا کیونکہ پاکستان جلد ہی مونٹریال پروٹوکول کی توثیق کرے گا

آمنہ شہاب کا کہنا ہے”فی الحال موجودہ کولنگ ایپلائینسز سے ہونے والے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے لیے ایک بیس لائن تیار کی جا رہی ہے“

واضح رہے کہ جنوبی ایشیا میں ہندوستان نے اپنا کولنگ ایکشن پلان 2019ع میں شروع کیا تھا، جب کہ بنگلادیش اور سری لنکا اپنا منصوبہ تیار کرنے کے مرحلے میں ہیں۔ ابھی تک، ہندوستان کے منصوبے اور پاکستان کی جانب سے تیار شدہ مجوزہ منصوبے میں آبادی کے اس حصے کے بارے میں بہت کم کام کیا گیا ہے، جو کہ فی الحال اس ٹیکنالوجی کے متحمل نہیں ہیں

پاکستان میں ایئرکنڈشننگ کا مستقبل

فی الحال پاکستان اپنے زیر استعمال تمام ریفریجرینٹ درآمد کرتا ہے۔ ضیا الاسلام کہتے ہیں ”معاشی مشکلات کی وجہ سے انہیں مقامی طور پر تیار کرنا ناقابل عمل ہے۔ دنیا میں صرف مٹھی بھر کمپنیاں ہی [شیمورس، ژھونگ ہو 3 ایف، ہنی ویل، نوین فلورین] انہیں تیار کر رہی ہیں“

خرم ملک نے کہا ”نئے ریفریجرینٹس پر منتقلی ان گیسوں کو مقامی طور پر تیار کرنے کے امکانات پر غور کرنے کا موقع فراہم کرے گی.“ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پی سی اے پی میں تحقیق اور ترقی کا عنصر شامل ہوگا، تاکہ ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے کی حوصلہ افزائی ہو۔ ساتھ ہی اس میں ایسی پالیسیاں بھی موجود ہوں گی جو بلڈرز اور ڈویلپرز کو مقامی طور پر تیار اشیا استعمال کرنے کی ترغیب دیں گی

ضیا الاسلام کا کہنا تھا ”یہ نجی شعبے کے لیے بھی یہ ایک منافع بخش کاروبار ہو سکتا ہے کیونکہ وہاں ملکی کھپت کے ساتھ ساتھ برآمد کے لیے بھی امکانات موجود ہیں“

لیکن اس صورتحال میں بہتر یہ ہوگا کہ حکومت ثاقب علی جیسے کاریگروں کی بڑی تعداد کو مستقبل سے آگاہ کرے اور بتائے کہ ملک کس سمت میں پش قدمی کر رہا ہے

ثاقب جس دکان پر کام کرتے ہیں اس کے ساتھ آلات کی مرمت کی ایک اور دکان موجود ہے۔ اس دکان کے مالک محمد وقار نے کہا کہ ”نئے آلات کی مرمت کے لیے ہم سب کو نئی مہارتیں سیکھنے کی ضرورت ہوگی“

احمر اسلام ریفریجرینٹ درآمد کرنے والی کمپنی اتی اینڈ کو سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’نئی گیسیں حاصل کرنے کے بعد ہمارا سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ نئے کاریگروں کو اس بات کی آگاہی دی جائے کہ وہ ان گیسوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے خود کو اور دوسروں کو کن خطرات میں ڈال رہے ہوں گے

احمر اسلام نے کہا ”یہ گیسیں انتہائی آتش گیر ہیں اور انہیں سنبھالنا آسان نہیں ہے“

نوٹ: اس رپورٹ کے لیے تفصیلات دی تھرڈ پول سے ترجمہ کی گئی ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close