پاکستان میں بھنگ سے تیار جینز ’پائیدار اور زیادہ منافع بخش‘

ویب ڈیسک

فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کا شعبہ فائبر اینڈ ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی بھنگ کے پودے سے فائبر حاصل کر کے اس سے جینز کی پتلون تیار کرنے کے بعد اب اسی سلسلے کے اگلے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے

اس جینز کو بنانے میں جو دھاگہ استعمال کیا گیا، اس میں بھنگ کے پودے سے لیے گئے ریشے کا تناسب بیس سے تیس فیصد اور کپاس کے ریشے کا تناسب ستر سے اسی فیصد ہے

اس منصوبے کے اگلے مرحلے میں بھنگ کی وسیع پیمانے پر کاشت کے لیے پاکستان میں اُگنے والی جنگلی بھنگ کی مختلف اقسام پر تجربات کیے جا رہے ہیں تاکہ ٹیکسٹائل کی مختلف مصنوعات میں استعمال کے لیے ایسی اقسام کی نشاندہی کی جا سکے، جو زہریلی یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ نہ ہوں

زرعی یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف فائبر اینڈ ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کے چیئرمین ڈاکٹر اسد فاروق اس بارے میں کہتے ہیں کہ بھنگ سے فائبر کے حصول کا تجربہ اس وجہ سے کیا گیا کہ یہ ایک قدرتی اور پائیدار فائبر ہے اور اسے اگانے کے لیے کسی قسم کی کھاد، کیڑے مار ادویات یا پانی کی ضرورت بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے

’اس وقت دنیا میں جو رواج چل رہا ہے وہ پائیدار فیشن اور پائیدار ٹیکسٹائلز کا ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ ٹیکسٹائل دنیا کی دوسری بڑی آلودگی پھیلانے والی انڈسٹری ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز پر ان کے غیر ملکی گاہکوں کا دباؤ ہے کہ پائیدار فائبر اور پائیدار ٹیکسٹائل مصنوعات متعارف کروائی جائیں

ان کا کہنا تھا کہ دوسرے قدرتی فائبرز کے مقابلے میں بھنگ ایک بہت بڑا متبادل ہے کیونکہ یہ پائیدار ہے اور اسے کپاس کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جا سکتا ہے

’بنیادی طور پر اس منصوبے میں ہم نے پاکستان میں اُگنے والی جنگلی بھنگ سے فائبر بنایا، اس کے بعد اس سے جینز بنائی اور اب ہم میڈ ان پاکستان ہیم پروڈکٹس پر کام کر رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر اسد کے مطابق بھنگ کے ریشے سے تیار ٹیکسٹائل مصنوعات اربوں ڈالر کی انڈسٹری ہے اور پوری دنیا میں اس کی مانگ بہت زیادہ ہے

انہوں نے بتایا کہ اگر بھنگ کی غیر زہریلی اقسام کو مقامی سطح پر کاشت کرنے اور اس کے استعمال کی ٹیکنالوجی کو عام کر دیا جائے تو پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بہت فائدہ ہو گا اور انڈسٹری کو کپاس کا ایک بہتر متبادل میسر آ جائے گا

’بھنگ قدرتی طور پر اینٹی بیکٹیریل ہے۔ اگر ہم اسے کاٹن کے ساتھ بلینڈ کر کے کوئی بھی مصنوعات بناتے ہیں تو یہ ہمیں اینٹی بیکٹریل افیکٹس پیدا کر کے دے سکتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھنگ ایک ویلیو ایڈڈ پروڈکٹ ہے یعنی عام کاٹن کی جینز کے مقابلے میں بھنگ کے ریشے سے تیار کی گئی جینز کی قیمت پانچ سے چھ گنا زیادہ مل سکتی ہے

حکومت کی طرف سے بھنگ کی کاشت کے لیے لائسنس کے اجرا سے متعلق ڈاکٹر اسد فاروق نے بتایا کہ حکومت نے اجازت تو دی ہے لیکن ابھی اس پر بہت سارا کام باقی ہے

’فائبر بیسڈ لائسنس ابھی حکومت نے جاری نہیں کیے یا ابھی تک ہمیں نہیں ملے۔ ہم بھی اس کے پراسس میں ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ انڈسٹری کو لائسنس ملے اور پھر اسے فائبر بیسڈ پروڈکٹس کی طرف لے کر جایا جا سکے۔‘

ڈاکٹر اسد فاروق کہتے ہیں کہ وہ بنیادی طور پر چاہتے ہیں کہ بھنگ کی غیر زہریلی اقسام کی نشاندہی کی جائے

اس سلسلے میں انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں سے جنگلی بھنگ کے نمونے اکٹھے کیے ہیں جن کا ٹاکسک لیول چیک کیا جا رہا ہے

’اس کے علاوہ وہ بیرون ملک سے بھنگ کا بیج درآمد کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اسے پاکستان کی آب و ہوا میں اُگایا جا سکے۔‘

ڈاکٹر اسد فاروق کے مطابق ان میں سے جو بیج اُگ جائے گا وہ پاکستان کے لیے نان ٹاکسک بھنگ حاصل کرنے کے لیے کاشت کیا جا سکے گا جس کے بعد پاکستان میں صنعتی پیمانے پر مقامی بھنگ کے ریشے سے جینز اور دیگر ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری شروع ہو جائے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close