امریکا‘ اس کے اتحادیوں اور روس کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے ‘جنگ کی دھمکیاں اور فوجوں کا اجتماع ہو رہا ہے ‘سرد جنگ کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے‘ اس سارے تنازعہ کا پس منظر اور پھر موجودہ صورت حال کا جائزہ۔
1991میںسوویت یونین کے ٹوٹنے پرجب مغربی سامراجی خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے ‘ایک مارکسسٹ دانشور نے لکھا تھا کہ ’’آج یہ سامراجی جشن کے نشے میں دھت ہیں‘یہ نہیں جانتے کہ روس میں سوشل ازم کے خاتمے کے بعد سرمایہ داری پروان چڑھے گی ‘سرمایہ دارانہ روس ایک قوم پرست اور جارحانہ طاقت کے طور پر ان کے لیے وبال جان بن جائے گا‘‘۔
یوکرائن میں ہونے والے واقعات ا ور کریمیا کا روس کے ساتھ الحاق نئی سرد جنگ کی نوید ہے ‘روس کے عوام اپنی عظمت رفتہ کو یاد کرکے غصے میں تلملاتے ہیں اور اس حالت میں جب سامراجی قوتیں روس یا اس کے سابقہ اتحادیوں کے خلاف حرکت میں آتی ہیں‘ تو حکومت اور عوام دونوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔بہت عرصے سے سامراجی طاقتیں روس کو آخری حد تک دیوار سے لگانے کی سازشیں کر رہی ہیں‘ان کو اس بات پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ روس میں دوبارہ زندگی کے آثار نظر آرہے ہیں۔
گورباچوف کے دور میں اور اس کے بعد کافی عرصے تک روس میں سابقہ سوویت یونین کے متعدد تاریخی اقدامات کی مذمت کی جاتی تھی‘ ان میں خاص کر دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن سوویت معاہدہ دوستی اور افغانستان میں سوویت اقدام قابل ذکر ہیںلیکن اب ماحول تبدیل ہو رہا ہے اور روسی قوم پرستی ابھر رہی ہے ‘روسیوں کو جب سوویت دور کی عظمت اور طاقت کی یاد آتی ہے تو وہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔
اب روسی سیاستدان سوویت یونین کی عظمت رفتہ کے اسیرنظر آتے ہیں‘اب وہ فخر سے کہتے ہیں کہ وہ عظیم سوویت یونین کے سوشلسٹ رہنماؤں کے تمام کارناموں اور فتوحات کے اصل وارث ہیں‘یہ فتوحات اور کارنامے خواہ جنگ کے میدان میں ہوں‘ خلاء میں ہوں یا انجینئرنگ کے میدان میں ہوں‘یہ تاریخ اصل میں روسی ریاست کی ہے۔بہت سے عام روسی شہریوں کے نزدیک ‘قومی فخر اصل میں سوویت یونین کے واقعات میں پیوستہ ہے ‘تاریخی کامیابیوں میں ‘سب سے زیادہ قابل ذکر ‘شاہی دور اور پھر سوویت دور کے فتوحات ہیں
کریمیا پر حالیہ قبضے نے روسی صدر پیوٹن کی شہرت اور قبولیت میں کافی اضافہ کیا‘بہت سے شہریوں کے نزدیک کریمیا پر قبضہ اصل میں گمشدہ سوویت دور کے فوجی عظمت اورفتوحات کی بحالی ہے‘ صدر پیوٹن اکثر اپنی تقریروں میں اپنے کارناموں اور فتوحات کا موازنہ سابق سوویت یونین کے دور میں کیے گئے فتوحات کے ساتھ کرتا ہے ‘ان کا پیغام بہت واضح ہے ‘سوویت یونین ہو یا روس دونوں حالتوں میں یہ ملک عظیم ہے۔
روسی حکمرانوں کو اپنی حب وطنی اور تاریخ پر ہمیشہ فخررہا ہے ‘یہ حب الوطنی کی لہر اس وقت زیادہ ہوگئی‘ جب وہ 1939کی80ویں سالگرہ منا رہے تھے ‘جب یورپ میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تھی‘ سوویت یونین کے لیے اس سال کے اہم واقعات میں جرمن وزیر خارجہ ربن ٹراپ اور سوویت وزیر خارجہ مالوٹوف کے درمیان معاہدہ کے بعد جب جنگ عظیم شروع ہوئی تو اسٹالن اور ہٹلر نے دوستی کا معاہدہ بھی کیا‘جس میں دونوں ملکوں نے اپنے دائرہ اثر کا تعین کیا۔
ان معاہدوں پر گور باچوف دور میں کافی تنقید کی گئی لیکن حالیہ مہینوں میں روس میں ایسے مضامین شایع ہو رہے ہیں‘ جن میں مالوٹوف اور ربن ٹراپ معاہدے کو سوویت یونین کا کارنامہ بیان کیا گیا ہے ‘اس بارے میں حالیہ دنوں میں روسی وزیر ثقافت ‘وزارت خارجہ کے ارکان سمیت بہت سے اہم روسی حکام کے بیانات شایع ہوئے ہیں‘اسی طرح سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت اور سوویت یونین دور کے تمام جنگوں‘فتوحات اور معاہدوں کی تعریف ہو رہی ہے ‘اس پر پولینڈ نے اعتراض کیا اور جنگ عظیم کے پروگراموں میں روسی صدر کو مدعو نہیں کیا جس پر روس نے پولینڈ کو امریکی ایجنٹ قرار دے کر اس پر تنقید کی ۔
روس میں جنگ عظیم دوم کو ’’ عظیم حب وطنی کی جنگ‘‘ کہا جاتا ہے‘اور اس جنگ میں سوویت یونین کی فتح کو بڑا فخر قرار دیتے ہیں‘ اس جنگ میں فتح کا دن ہر سال 9مئی کو بڑی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے بلکہ ہرسال اس میں جوش بڑھتا جاتا ہے ‘روسی اس جنگ کو جرمنی کے بجائے مغربی سامراج کے خلاف جنگ قرار دیتے ہیں‘پیوٹن کی زیر قیادت روسی اپنی ریاست کو سوویت یونین کا تسلسل قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب ہم کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس سے مراد موجودہ روس اور سابقہ سوویت یونین دونوں ہوتے ہیں۔
مخالفین اسٹالن کے ظالمانہ اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جب کہ اکثر روسی ان مظالم کو سیاسی طور پر حق بجانب قرار دیتے ہیں‘اب تو سرکاری طور پرروسی تاریخ کو سوویت دور سے منسلک کیا گیا ہے اور اسٹالن کی کامیابیوں پر فخر کیا جاتا ہے ۔
اس سے قبل روس میں چند سال قبل ایک بہت بڑا معاشی میلہ سجایا گیا ‘اس میلے میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اورچین کے صدر شی جن پنگ نے جو لہجہ اور بیانیہ اختیار کیا ‘وہ اس امر کی دلالت کرتا ہے کہ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے‘ روس کے صدر پیوٹن نے تو اپنے خطاب میں دنیا پر امریکی بالادستی کو انسانیت کے مستقبل کے لیے خطرہ قرار دیا‘انھوںنے روس اور یورپ کے درمیان گیس پائپ لائن کو روکنے کی امریکی کو ششوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ ان قوتوں کے مفاد کے خلاف ہے جو اپنے بل دوسروں سے ادا کراتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صریح نا انصافی پر مبنی کوئی بھی نظام مستحکم اور متوازن نہیں رہ سکتا‘روسی صدر کا یہ خطاب نہ صرف امریکا کو طویل عرصے بعد چیلنج کرنے کا بیانیہ ہے بلکہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ دنیا میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں ایک نیا بلاک بن رہا ہے‘ چین کے صدر نے روس کو اپنا اسٹرٹیجک شراکت دار قرار دیا۔ 1991میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد جب مغربی طاقتیں اور ناٹو طاقت کے نشے میں سرشار تھیں اور پورے سوویت یونین کو ہڑپ کرنے کے منصوبے بنا رہی تھیں تو اس وقت بعض جنگی اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے ناٹو کو مشورہ دیا تھا کہ ’’مشرق کی طرف روسی سرحدوں کی طرف زیادہ نہ بڑھیں ‘یہ پل بہت خطرناک ہے‘‘۔
ان سازشوں اور اقدامات نے واقعی روسی قوم پرستی کو جگا دیااور روسی ریچھ کو خواب غفلت سے بیدار کردیا ‘سوویت یونین کے سابق اتحادیوں اور وارسا پیکٹ کے ممبر ممالک بلغاریہ ‘رومانیہ اور سینٹرل ایشیاء میں نئی امریکی اڈے تعمیر کیے گئے‘اب امریکا کی یہ کوشش تھی کہ سابقہ سوویت ریاست یوکرین اور کریمیا میں قائم اہم نیول بیس سواستوپول (Sevastopol) کو ناٹو کے کنٹرول میں لایا جائے ‘اس سے اس کے دو مقاصد ہیں ‘ ایک تو روس کو مکمل بے دست و پا کرنااور دوسری اس کو ایران اور شام کی حمایت کی سزا دینا اور اپنی شام کی سبکی کا بدلہ لینا بھی تھا ‘امریکا کی یہ کوشش اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوئی اور کریملن کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا ‘اب تو سامراجی طاقتوں کے سامنے روسی حکومت ہر مسئلے میں اس طرح مزاحمت کر رہی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دو قطبی دنیا (Bipolar) اور سرد جنگ کا زمانہ دوبارہ آگیا ہے۔
18مارچ 2017کو ماسکو میں ڈوما (پارلیمنٹ) کے سامنے فیصلہ کن تقریر کرتے ہوئے روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کریمیا کو روسی تحویل میں لینے کا اعلان کیا‘ جشن فتح کی پریڈ میں تقریر ‘خطے میں مغرب کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے بے زار ی اور غصے کی عکاس ہے ‘انھوں نے واضح طور پر کہا کہ ’’یورپی یونین اور امریکا نے ہم سے بار بار جھوٹ بولا ‘مشرق میں ناٹو کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور ہماری سرحدوں پر فوجی تنصیبات کی تعمیر اسی فریب کی کڑیاں ہیں‘یہ لوگ ہمیں دیوار سے لگانا چاہتے ہیں کیونکہ ہم آزادانہ تشخص رکھتے ہیں‘ ہم سیدھی بات کرتے ہیں‘لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور یوکرین میں مغربی طاقتوں نے وہ حد عبور کی ہے۔
آج یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ روس عالمی سطح کے معاملات میں ایک اہم فریق ہے‘ہمارے اپنے مفادات ہیں جن کا احترام کیا جانا چاہیے ‘‘۔انھوں نے امریکا کو وارننگ بھی دی کہ وہ دنیا کو یک قطبی) (Uni Polar بنانے کی کوشش نہ کرے۔سوویت یونین کے انہدام نے روس‘وسطی ایشیاء اور مشرقی یورپ کے عوام کو برباد کرکے رکھ دیا ہے‘ تاریخی طور پر یہ آگے کے بجائے پیچھے کی طرف قدم تھا ‘منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کے بعد ان ملکوں میں جرائم اور کرپشن پر مبنی سرمایہ داری استوار ہوئی ہے ‘سوویت دور میں تعلیم ‘علاج ‘رہائش اور بجلی کی مفت سہولیات اب ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔
یورپ اور امریکا میں یہ تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ نئی ابھرتی ہوئی روسی فوج کہیں یوکرین کے مغرب میں واقع مالدوہ‘بالٹک کی ریاستوں ‘یہاں تک کہ پولینڈ کو بھی حاصل نہ کرلے‘ مغرب ابھی تک سرد جنگ کے مسائل سے باہر نہیں آسکا ‘مغربی طاقتوں کو نہ صرف تشویش ہے بلکہ ان کو یہ احساس بھی ہے کہ اگر روسی افواج اپنی سابقہ دائرہ اثر والے ممالک پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہیں تو ان کے پاس اس حملے کو روکنے کے لیے کافی وسائل موجود نہیں ہیں۔
سخت باتیں کرنا آسان ہوتا ہے لیکن روس کے کسی ممکنہ حملے سے مشرقی یورپ کو بچانا مشکل ہوگا‘سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ روس کے حساس سرحدوں تک ناٹو اور امریکی وعدے اور گارنٹی تو جاتی ہے لیکن ان کی فوجی صلاحیت وہاں تک نہیں پہنچتی‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی صلاحیت کے وعدے کرنا۔ امریکی سامراج کی حرکتوں کی وجہ سے روسی قوم ایک دفعہ پھر خواب غفلت سے بیدار ہو گئی ہے اور امریکا کادنیا کو ’’ یک قطبی ‘‘بنانے اور خود ’’واحد سپر پاور‘‘ بننے کا خواب اب تشنہ تکمیل رہے گا ۔روسی عظمت رفتہ کی بحالی سامراجی اقدامات کو روکنے میں مددگار ثابت ہوگی‘جس کا مظاہرہ وینزویلا اور شام میں ہو چکا ہے۔ اب یوکرین کے بحران نے سامراجی دنیا کو ایک اور مصیبت سے دوچار کردیا ہے۔
حوالہ : ایکسپریس نیوز