مشرقی یوکرین کی صورتحال مزید بگڑ رہی ہے، پوتن. ”پوتن نے یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا“ جو بائیڈن

ویب ڈیسک

ماسکو/واشنگٹن – روس کے صدر ولادی میر پوتن نے جمعے کو کہا کہ تنازعات سے متاثرہ مشرقی یوکرین کی صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ مغرب نے ماسکو پر الزام لگایا ہے کہ وہ عنقریب حملہ کرسکتا ہے

دوسری جانب بائیڈن نے جمعے کو وائٹ ہاؤس میں ٹیلی ویژن پر جاری ایک بیان میں ایک بار پھر کہا ’اس لمحے تک مجھے یقین ہے کہ پوتن نے حملے کا فیصلہ کر لیا ہے‘

تفصیلات کے مطابق روسی صدر ولادمير پوتن نے ماسکو میں بیلاروس کے اپنے ہم منصب الیگزینڈر لوکاشینکو کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’مشرقی یوکرین کی بگڑتی ہوئی صورتحال اس وقت ہمارے سامنے ہے۔‘

واضح رہے کہ روس نے حالیہ ہفتوں میں یوکرین کی سرحدوں کے قریب بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کی ہیں

تاہم پوتن، جنہوں نے مغرب سے ان وعدوں کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ نیٹو میں مشرق کی طرف توسیع نہیں کرے گا، نے کہا کہ یہ مشقیں جن میں ہزاروں فوجی شامل ہیں، کوئی خطرہ نہیں ہیں

’یہ مشقیں خالصتاً دفاعی نوعیت کی ہیں اور کسی کے لیے خطرہ نہیں۔‘

روئٹرز کے مطابق انہوں نے کہا کہ مغرب اور ان کے اتحادی سکیورٹی کے حوالے ان کے بنیادی مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے پر مائل نہیں ہیں

روس نے اس ہفتے مطالبہ کیا تھا کہ امریکا وسطی اور مشرقی یورپ سے اپنے تمام فوجیوں کو نکالنے کا عہد کرے

روس رہنما ہفتے کو ذاتی طور پر ماسکو کی ’اسٹریٹجک فورسز‘ پر مشتمل فوجی مشقوں کا معائنہ کریں گے، جن میں بیلسٹک اور کروز میزائل تجربات شامل ہوں گے

دوسری جانب جمعے کو مشرقی یوکرین میں ایک امدادی قافلے کو گولہ باری سے نشانہ بنایا گیا اور روس نواز باغیوں نے تنازعے والے علاقے سے شہریوں کو نکلنے کا حکم دیا

خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یوکرین کی سرحدوں کے ارد گرد تعینات ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ روسی فوجیوں پر توجہ مرکوز کرنے والے امریکی اور یورپی حکام نے خبردار کیا ہے کہ مشرقی یوکرین میں طویل عرصے سے سلگتا ہوا تنازع ایک وسیع حملے کے لیے چنگاری کا کام کر سکتا ہے

درین اثنا امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کو کہا ہے کہ انہیں ’یقین‘ ہے کہ روسی صدر ولادی میر پوتن نے ایک ہفتے کے اندر اندر یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے

تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو مغربی ممالک ماسکو پر پابندیاں عائد کر دیں گے، جس سے روس دنیا میں تنہا ہو جائے گا

بائیڈن نے جمعے کو وائٹ ہاؤس میں ٹیلی ویژن پر جاری ایک بیان میں کہا: ’اس لمحے تک مجھے یقین ہے کہ انہوں (صدر پوتن) نے اس (حملے کا) فیصلہ کر لیا ہے۔‘

امریکی صدر نے مزید کہا کہ ’یہ حملہ اگلے ’ہفتے یا چند دنوں‘ میں ہو سکتا ہے اور اس کے اہداف میں یوکرین کا دارالحکومت کیف شامل ہوگا جہاں اٹھائیس لاکھ معصوم لوگ بستے ہیں۔‘

جو بائیڈن نے اصرار کیا کہ اس سب کے باوجود روس کے ساتھ تعلقات محدود کرنے اور مذاکرات کی میز پر واپس آنے کے لیے اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کوئی حملہ ہوا تو روسی صدر سفارت کاری کے تمام دروازے بند کر دیں گے۔‘

دوسری جانب کریملن کا اصرار ہے کہ اس کا اپنے مشرقی پڑوسی ملک پر حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، لیکن امریکہ کا کہنا ہے کہ یوکرین کی سرحدوں پر ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ انچاس ہزار روسی فوجیوں کے ساتھ اکتالیس ہزار روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند جنگجو بھی شامل ہیں اور حملے کے لیے اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ کب ہوگا

عالمی بے چینی میں اضافہ کرتے ہوئے روس کی وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ صدر پوتن آج (ہفتے کو) جوہری صلاحیت کے حامل میزائلوں سے متعلق پہلے سے طے شدہ مشقوں کا ذاتی طور پر مشاہدہ کریں گے۔

ادھر یوکرین کے متنازع نے مشرق یورپ میں اِکا دُکا جھڑپوں نے خوف کے بڑھتے ہوئے احساس کو جنم دیا ہے

اے ایف پی کے رپورٹر نے یوکرین کی سرکاری افواج اور روسی حمایت یافتہ باغیوں درمیان محاذ کے قریب لوگانسک کے علاقے میں دھماکوں کی آوازیں سنی اور کیف کی جانب علاقوں میں تباہ حال شہری عمارتوں کو دیکھا ہے

یہ خدشہ بڑھتا جا رہا تھا کہ صرف ایک چنگاری، جس کے بارے میں واشنگٹن نے خبردار کیا ہے کہ یہ روسیوں کی طرف سے جان بوجھ کر ’کسی جعلی کارروائی‘ کا واقعہ ہو سکتا ہے، خطے کو جنگ کی آگ میں دھکیل دے گی جو دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں سب سے بڑا فوجی تصادم ثابت ہو سکتا ہے

ایک امریکی دفاعی اہلکار نے کہا کہ ”یوکرین کے ارد گرد موجود چالیس فیصد سے زیادہ روسی فوجی اب حملے کی پوزیشن میں کھڑے ہوئے ہیں۔“

بائیڈن نے جمعے کو نیٹو کے اتحادیوں کے ساتھ ایک کانفرنس کال میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر روس کی فوجیں یوکرین پر حملہ کرتی ہیں تو مغرب روس کے خلاف پابندیوں کے منصوبوں کو آگے بڑھائے گا

بائیڈن نے بعد میں کہا: ’ہم لاک سٹیپ میں رہنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

ایک سینیئر اہلکار کے مطابق روس کے خلاف ممکنہ پابندیوں کا پیکج تباہ کن ہوگا

امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر برائے بین الاقوامی اقتصادیات دلیپ سنگھ نے صحافیوں کو بتایا: ’اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو یہ عالمی برادری سے کٹ جائے گا۔ یہ عالمی مالیاتی منڈیوں سے الگ تھلگ اور انتہائی جدید ترین تکنیکی معلومات سے محروم ہو جائے گا۔‘

دلیپ سنگھ نے پیشن گوئی کی کہ پابندیوں سے روس کو ’سرمائے کے اخراج، کرنسی پر مزید دباؤ، بڑھتا ہوا افراط زر، زیادہ قرض، اقتصادی سکڑاؤ اور پیداواری صلاحیت میں کمی‘ جیسے معاشی مسائل کو سامنا کرنا پرے گا

دوسری جانب روسی افواج آج سے فوجی مشقوں کا آغاز کر رہی ہیں، جس میں فضائیہ، سدرن ملٹری ڈسٹرکٹ یونٹس کے ساتھ ساتھ شمالی اور بحیرہ اسود کے بحری بیڑے جوہری صلاحیت کے حامل میزائل تجربات میں شامل ہوں گے

روس کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین کی سرحد سے اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹے گا جب تک کہ مغربی ممالک کیف کو نیٹو میں شامل نہ کرنے اور امریکی افواج کو مشرقی یورپ سے واپس بلانے کا عہد نہیں کرتے

ملک کے مشرق میں بھاری ہتھیاروں سے لیس روس نواز باغیوں اور یوکرین کی سرکاری افواج کے درمیان تنازع آٹھ سال سے جاری ہے، جس میں چودہ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور پندرہ لاکھ سے زیادہ کو بے گھر ہونا پڑا ہے

یوکرین پر حملے کی صورت میں چین کیا کرے گا؟

روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو ماہرین کے مطابق چین سفارتی اور معاشی طور پر اس کی حمایت کرے گا۔ اس اقدام سے چین کے مغربی ملکوں کے ساتھ پہلے سے خراب تعلقات مزید بگڑیں گے۔ تاہم چین روس کی فوجی امداد نہیں کرے گا

امریکی صدر جو بائیڈن جمعے کو کہہ چکے کہ روس کے صدر ولادی میر پوتن نے چند دنوں کے اندر یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاہم روس اس دعوے کی تردید کی ہے

چین کی وزارت خارجہ نے بار بار امریکہ پر’غلط معلومات پھیلانے‘ اور کشیدگی پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ وہ روس کے تحفظ کی ضمانتوں کے مطالبے کا احترام کرے اور اس پر توجہ دے

صدرپوتن نے یکجہتی کے اظہار کے لیے چار فروری کو سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے بیجنگ کا دورہ کیا۔ اس موقعے پر انہوں نے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ’لامحدود‘ اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنانے کا اعلان کیا۔ چین کے سرکاری میڈیا کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک’دنیا میں انصاف کی بالادستی کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔‘

یوکرین پر روس کا حملہ اس کی حمایت میں چین کے اعلان کو عملی شکل دینے کے حوالے سے آزمائش ہو گا۔ خاص طور پر چین کی عدم مداخلت کی خارجہ پالیسی کے اس اصول کی آزمائش ہو گی جس کا وہ اکثرذکر کرتا ہے۔ بیجنگ کے خیالات سے واقف ماہرین کا کہنا ہے کہ چین تقریباً یقینی طور پر روسی حملے میں عسکری طور پر ملوث نہیں ہونا چاہے گا

رینمن میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر شی ین ہونگ کا کہنا ہے کہ اگرچہ چین اور روس آزادانہ تعلقات سے آگے بڑھتے ہوئے نیم اتحاد کی طرف جا چکے ہیں لیکن بڑے پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات اس رسمی اتحاد سے دور ہیں جس کے تحت ایک ملک کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں دوسرا ملک اس کی حمایت میں فوج بھیجتا ہے

چین نے مسلسل یوکرین کے بحران کو بات چیت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ سنگاپور میں ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر لی منگ جیانگ کے بقول: ’جس طرح چین تائیوان کے خلاف جنگ کے معاملے میں روس سے فوجی مدد کی توقع نہیں رکھتا اسی طرح روس کو یوکرین کے معاملے پر چین سے فوجی مدد کی توقع نہیں ہے اور نہ ہی اسے ایسی مدد کی ضرورت ہے۔‘

حملے کی مذت سے گریز

روس کے یوکرین پر حملے کی صورت میں عالمی سطح پر اس کی مذمت کا حصہ نہیں بنے گا جس سے ظاہر ہو گا کہ وہ روس کا وہ قابل اعتماد دوست ہے۔ چین وہ واحد ملک تھا جس نے یوکرین کی سرحد پر روسی فوج کے اجتماع کے معاملے پر غور کے لیے اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کا اجلاس رکوانے کے لیے گذشتہ ماہ روس کے حق میں ووٹ دیا تھا تاہم یہ امریکہ کی درخواست پر بلایا جانے والے اجلاس رکوایا نہیں جا سکا تھا

سال 2014 میں چین مزید آگے بڑھ گیا اور اس نے امریکہ کی تیار کردہ سلامت کونسل کی قرارداد ووٹ دینے سے گریز کیا جس میں ملکوں پر زور دیا گیا تھا کہ روس کی جانب سے کریمیا کے اپنے ساتھ الحاق کو تسلیم نہ کرے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین روس کے ساتھ اقتصادی تعاون بڑھا سکتا ہے جو حملے کی صورت میں مغرب کی طرف سے اعلان کردہ پابندیوں کے اثرات کو ختم کر دے گا۔ کریمیا پر روس کے حملے کے بعد چائنا ڈویلپمنٹ بنک اور ایکسپورٹ امپورٹ بینک آف چائنا سمیت چین کے متعدد سرکاری بنکوں نے روسی سرکاری بنکوں کو قرضے فراہم کیے جن پر مغربی بنکوں نے پابندیاں لگا رکھی تھیں

جنگ جو چین نہیں چاہتا

چین اس بات کو ترجیح دے گا کہ روس یوکرین پر حملہ نہ کرے

صدر شی نے کہا کہ’بین الاقوامی دنیا کے اس قدرتقسیم ہونے کی وجہ سے ممکن ہے کہ امریکہ اور مغرب روس کے ساتھ ساتھ چین کو الگ تھلگ کو بھی کرنے یا اس پر پابندی لگانے کے لیے متحد ہو جائیں‘

اس ماہ کے شروع میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا تھا کہ یوکرین پر روسی حملے کی صورت میں چینی کمپنیوں نے ماسکو پر عائد برآمدی پابندیوں کی خلاف ورزی کی کوشش کی تو انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی خیالات سے باخبرعہدے دار نے صحافیوں کو بتایا کہ ٹیکنالوجی سے متعلق پابندیاں اور برآمدی کنٹرول جس کے واشنگٹن اتحادیوں کے ساتھ منصوبہ بندی کر رہا ہے چین ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ عہدے دار کے بقول: ’ہم کسی بھی غیر ملکی ملک یا ادارے کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار ہیں جو ان پابندیوں سے بچنے کے متبادل راستہ اختیار کرے گا‘

بیجنگ یہ بھی نہیں چاہتا کہ اسے یوکرین پر روسی حملے کے معاشی اثرات کا سامنا کرنا پڑے خاص طور پر اس سال میں جب شی استحکام کو ترجیح دیتے ہوئے تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کی تیاری کر رہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ شی کا کہنا ہے کہ حملہ یہ بھی ظاہر کرے گا کہ روس سمیت تمام فریقوں سے یوکرین کے بحران کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے چین کی بار بار کی گئی درخواستوں پوتن نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اس طرح چین کے مؤثر مصالحتی کردار پر شکوک و شبہات پیدا ہو جائیں گے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close