بھارت میں پارسیوں کی نسل معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار

ویب ڈیسک

بھارت میں ایک ’ڈیٹینگ ایپ‘ کے ذریعے پارسی مرد اور خواتین کو آپس میں ملانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ ان کی شادیوں اور خاندان بڑھانے سے پارسیوں کی آبادی میں اضافہ ہو

سن 1941ع میں بھارت میں ایک لاکھ 14 ہزار کے قریب پارسی آباد تھے۔ تقسیم کے بعد کچھ پارسی پاکستان میں بھی آباد ہوئے۔ بھارت میں آج پارسیوں کی تعداد صرف پانچ ہزار رہ گئی ہے

پارسی زرتشتی عقیدہ رکھتے ہیں، جسے عالمی تاریخ کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک مانا جاتا ہے اور اس کی جڑیں قدیم فارس سے ملتی ہیں

بھارتی پارسیوں کا تعلق ساسانی ایران کے فارسیوں سے جوڑا جاتا ہے، جو ساتویں صدی میں عرب مسلمانوں کی فتح فارس کے بعد بھارت ہجرت کر گئے تھے۔ پارسی عام طور پر مغربی بھارتی ریاستوں گجرات اور مہاراشٹر میں آباد ہیں۔ کچھ کمیونٹیز دیگر علاقوں میں بھی بکھری ہوئی ہیں

بھارت کے قابل ذکر پارسیوں میں صنعت کار رتن ٹاٹا، ٹاٹا گروپ کے سابق چیئرمین اور ادار پونا والا اور سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کے سی ای او شامل ہیں

بین الاقوامی سطح پر شاید سب سے مشہور پارسی، فریڈی مرکری، ہو سکتے ہیں، جو برطانوی بینڈ کوئین کے مرکزی گلوکار تھے

پارسیوں کی گَھٹتی تعداد کی وجہ کیا ہے؟

کسی کو عام طور پر تب پارسی تصور کیا جاتا ہے، جب اس کے دونوں والدین پارسی ہوں۔ ’جیو پارسی‘ نامی ڈیٹنگ ایپ پارسی جوڑوں کے بچوں کی دیکھ بھال میں معاونت اور تولیدی علاج جیسے انویٹرو فرٹیلائزیشن یا آئی وی ایف جیسی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔ لیکن یہ سہولیات ایسی پارسی خواتین کے لیے دستیاب نہیں ہیں، جنہوں نے پارسی برادری سے باہر شادی کر رکھی ہو

بہت سے پارسی اپنی کمیونٹی کے ان فرسودہ خیالات کو پدرانہ ٹھہراتے ہوئے ان پر تنقید کرتے ہیں

ایک پارسی خاتون کرمن بھوٹ کہتی ہیں ”مرد جس سے چاہیں شادی کر سکتے ہیں اور وہ پارسی ہی سمجھے جائیں گے۔ لیکن جس لمحے عورت کمیونٹی سے باہر شادی کرتی ہے، تو اسے اپنے سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ایسی خاتون اپنا عقیدہ نہ چھوڑے اور اپنے بچے کی پرورش زرتشتی کے طور پر کرنا چاہے، تو وہ ایسا نہیں کر سکتی‘‘

رشی کشنانی ایک ہندو باپ اور پارسی ماں کے ہاں پیدا ہوئے تھے، اس لیے انہیں پارسی نہیں سمجھا جاتا۔ انہوں نے اور ان کی پارسی بیوی نے زرتشتی عقیدے کے مطابق اپنے بیٹے کی پرورش کا فیصلہ کیا

کشانی بتاتے ہیں ”میرے بچے کو پارسی بچوں کے پارک میں جانے سے روک دیا گیا تھا، جہاں اس کے تمام دوست کھیلتے ہیں کیونکہ اس کی ماں نے برادری سے باہر شادی کی تھی۔ لیکن میرا مرد پارسی دوست، جس نے ایک ہندو عورت سے شادی کی، اس کے بچے کو وہاں جانے کی اجازت ہے۔ تو ہماری کمیونٹی میں اس قسم کا تعصب رائج ہے‘‘

کشنانی کی اہلیہ نے بین المذاہب شادیوں کے بعد پارسی خواتین اور ان کے بچوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے حوالے سے عدالت میں درخواست دائر کی ہوئی ہے۔ یہ کیس بھارت کی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے

اس شکایت میں سپریم کورٹ سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ 1908 میں منظور کیے گئے ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے، جس نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ پارسی زرتشتی مردوں کے بچوں کو پارسی تصور کیا جائے گا، جبکہ پارسی زرتشتی خواتین کے بچوں کو بین المذاہب شادیوں میں یکساں حیثیت دینے سے انکار کیا جائے گا

ممبئی میں کئی پارسی کالونیاں ہیں، جنہیں ’باغ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پارسیوں کو سستی رہائش خریدنے اور کرایے پر لینے کی سہولت دستیاب ہے۔ لیکن اپنے مذہب سے باہر شادی کرنے والی خواتین ان گھروں میں رہنے کا حق بھی کھو دیتی ہیں۔ حتیٰ کہ کمیونٹی کے کچھ حصوں میں، بین المذاہب شادیوں کی وجہ سے پارسی خواتین کو اپنے پیاروں کی آخری رسومات میں شرکت جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close