لاہور – صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں ابوظبی حکومت کے تعاون سے شہر کی بلند ترین عمارت، جو امرتسر سے بھی دیکھی جا سکتی ہے، کی تعمیر پندرہ سال گزر جانے کے باوجود بھی مکمل نہیں ہو سکی
اس منصوبے کا معاہدہ 2006ع میں کیا گیا تھا، لیکن بدلتی حکومتوں، سیاسی مخالفت اور قانونی رکاوٹوں کی بنا پر یہ منصوبہ تا حال مکمل نہیں ہو سکا ہے
معاہدے کے مطابق یہ منصوبہ قذافی اسٹیڈیم کے قریب بننا تھا اور اگر یہ مقررہ وقت پر مکمل ہو جاتا تو کرکٹ ٹیموں کو اس میں بننے والے ہوٹل میں ٹھہرا کر شہریوں کو میچز کے دوران ٹریفک جام جیسے مسائل سے بھی بچایا جاسکتا تھا
پنجاب کے محکمہ ترقی و منصوبہ بندی کے مطابق اس منصوبے کی تکمیل سے غیر ملکی سرمایہ کاری بھی آتی اور لوگوں کو بھی بے مثال سہولیات میسر آتیں
تاہم اب پی ٹی آئی حکومت نے اس منصوبہ کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے دورہ دبئی میں ابوظبی گروپ سے اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ملاقات بھی شامل ہے
یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان حکومت میں آتے ہی شہروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بلند عمارتوں کی تعمیر سے متعلق قانون سازی بھی کرا چکے ہیں
محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ (پی این ڈی) پنجاب کی دستاویزات کے مطابق مبارک سینٹر کا منصوبہ فیروز پور روڑ پر کلمہ چوک اور قذافی اسٹیڈیم کے درمیان شروع کیا گیا تھا
2006ع میں ابوظبی حکومت سے معاہدہ طے پانے کے بعد اس پر تعمیراتی کام 2007ع میں شروع ہوا۔ اس منصوبے کے تحت 90 کنال سے زیادہ رقبے پر سہولیات سے آراستہ ایک ہزار فٹ بلند ٹاور بنانے کا فیصلہ ہوا جس پر اخراجات کا تخمینہ اکیس سو ارب روپے لگایا گیا تھا
محکمہ ترقی و منصوبہ بندی کے ریکارڈ کے مطابق یہ منصوبہ 2018ع میں مکمل ہونا تھا، لیکن اس منصوبے پر کام نواز شریف کی حکومت آنے کے بعد 2009ع میں ہی روک دیا گیا تھا
اس منصوبے کی کل لاگت میں 70 فیصد ابوظبی حکومت نے ادا کرنے تھے، جبکہ باقی 30 فیصد پنجاب حکومت نے زمین کی مد میں دینے تھے۔ اس مقصد کے لیے ایک کمپنی بنائی گئی، جس کا نام تعاون پرائیویٹ لمیٹڈ رکھا گیا تھا
اس منصوبے کو روکنے کی ایک وجہ اس وقت عمارت کی بلندی تھی، جس کی حد قانونی طور پر پانچ سو فٹ تک رکھنا تھی، جس پر سول ایوی ایشن نے این او سی جاری نہیں کیا تھا
دوسری وجہ سابق وزیر اعلی پرویز الہی کے مطابق ان کی مدت پوری ہونے کے بعد نئی آنے والی مسلم لیگ نون کی حکومت میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی عدم دلچسپی تھی، اس وجہ سے یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا تھا
اس کے بعد دو بار پھر مسلم لیگ ن کی پنجاب میں حکومت آئی لیکن یہ منصوبہ شروع نہ ہوسکا، اب تحریک انصاف کی حکومت، جس کی چودھری پرویز الٰہی کی جماعت مسلم لیگ ق بھی اتحادی ہے، اس منصوبہ کو دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے
وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار 19 فروری بروز ہفتہ دبئی روانہ ہوچکے ہیں، جہاں وہ ظبی گروپ کے ساتھ مبارک سینٹر کی تعمیر کی بحالی کے معاہدے کے مہمان خصوصی ہوں گے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار دبئی میں ظبی گروپ کے اعلی حکام سے بھی ملاقات کریں گے
منصوبے کے حوالے سے ترجمان پی این ڈی سحر اقبال نے بتایا کہ ’یہ شہر کی بلند ترین عمارت ہوگی جس کی اونچائی ایک ہزار فٹ تک طے کی گئی تھی، مگر جب اعتراض لگا تو پانچ سو فٹ بنانے پر غور کیا گیا، لیکن پالیسی میں اجازت شامل ہونے سے امکان ہے کہ یہ ایک ہزار فٹ بلند ہی ہوگی، جو بھارتی شہر امرتسر سے بھی دکھائی دے گی، جو لاہور سے پچاس کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ظبی گروپ اور پنجاب حکومت کی جانب سے بنائی گئی تعاون کمپنی سولہ میٹر گہرے چار تہہ خانے بھی بنائے گی۔‘
سحر اقبال کے مطابق ’اس سینٹر میں ہوٹل، کانفرس ہالز، رہائشی اپارٹمنٹس، دفاتر اور ٹریڈ سینٹر بھی شامل ہیں۔‘
اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کو قذافی اسٹیڈیم سے منسلک کیا جائے گا اور پارکنگ بھی سٹیڈیم کی سائیڈ پر بنائی جائے گی۔‘
ترجمان پی این ڈی کے مطابق تقریباً چالیس ہزار مربع میٹر جس کا دائرہ آٹھ سو تیس میٹر ہے، اس کی مشرقی دیوار دو سو میٹر لمبی فیروز پور روڈ کے قریب مغربی دیوار گارڈن ٹاؤن رہائشی علاقے کے قریب دو سو چھبیس میٹر لمبی ،شمالی دیوار راجہ مارکیٹ کے قریب ایک سو نوے میٹر لمبی اور رہائشی علاقہ گارڈن ٹاؤن کی طرف جنوبی دیوار جبکہ تجارتی مرکز کے قریب دو سو چھ میٹر لمبی دیوار بنے گی۔‘
مجوزہ چار تہہ خانوں کے لیے 16M کی گہرائی تک کھدائی عارضی طور پر شورنگ سسٹم کی فراہمی کے ساتھ کی گئی ہے
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں پر سیاست کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت میں جو منصوبے شروع کیے گئے تھے، مسلم لیگ ن کی حکومت نے پنجاب میں اقتدار ملتے ہی ان میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا اور مبارک سینٹر جیسے کئی منصوبے تعطل کا شکار ہو گئے
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت، متعدد شہروں میں ہسپتال اور اسکولوں کے منصوبے، جو اُن کی حکومت نے شروع کیے تھے، مسلم لیگ ن کی حکومت نے وہ بند کر دیے تھے اور وہی منصوبے کئی سال بعد جب پی ٹی آئی حکومت سے شروع کرائے تو ان پر لاگت کئی گنا بڑھ گئی، وقت کے ساتھ فنڈز بھی ضائع ہوئے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح ریسکیو 1122 کا ادارہ اور ٹریفک وارڈنز بھی ہم نے بھرتی کیے، لیکن اس جانب بھی خاص توجہ نہیں دی گئی۔‘
اس منصوبے پر سامنے آنے والے خدشات پر پی این ڈی کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس منصوبے میں بننے والے سینٹر سے قذافی اسٹیڈیم تک ایلیویٹڈ روڈ اور پارکنگ کے لیے قذافی اسٹیڈیم کے قریب وفاقی حکومت کی زمین فائنل ہوئی، لیکن ابھی تک اس زمین کے استعمال کی اجازت بھی نہیں ملی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وزیر اعلیٰ دبئی میں مبارک سینٹر منصوبے سے متعلق ملاقات میں اس پر دوبارہ کام شروع کرنے پر بات کریں گے، لیکن پندرہ سال بعد اب تعمیراتی میٹریل پر لاگت بھی زیادہ آئے گی اور اس کا ڈیزائن بھی جدید بنانا پڑے گا کیوں کہ پہلے والا منصوبہ اس وقت کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تھا‘
پی این ڈی افسر نے بتایا کہ ’موجودہ حکومت اس منصوبہ کی تکمیل میں سنجیدہ تو ہے لیکن اب ان کی ڈیڑھ سال مدت باقی ہے اور اس قلیل مدت میں اس منصوبے کی تکمیل ممکن نہیں۔ تاہم شروع ضرور ہوسکتا ہے اور آئندہ انتخابات میں کسی اور جماعت کے اقتدار میں آنے پر یہ منصوبہ پھر تعطل کا شکار ہونے کا خدشہ رہے گا‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس بار معاہدے میں اس بات کا بھی خیال یقینی رکھا جائے گا کہ حکومت تبدیل ہونے پر یہ دوبارہ نہ رکے اور جتنی قانونی رکاوٹیں ہیں وہ دور کی جائیں‘