کراچی – ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہارڈ شیل کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت میں تیزی دیکھی گئی ہے، جس کے نتیجے میں کچھوؤں کی معدوم ہوتی ہوئی نسل کو خطرہ لاحق ہے اور صرف پانچ فیصد ہارڈ شیل کچھوے پاکستان میں رہ گئے ہیں
واضح رہے کہ اس ضمن میں قانون تو اگرچہ موجود ہے، لیکن عمل درآمد کہیں نظر نہیں آتا ، دوئم غیر قانونی تجارت میں پکڑے جانے پر جرمانہ بہت کم ہے، جبکہ تجارت میں منافع بہت زیادہ ہے
پاکستان میں کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت تقریباً سنہ 2000ع میں شروع ہوئی اور قوانین کی عدم موجودگی اور جو قوانین تھے ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر اور سزائیں نہایت کم ہونے کے باعث اس وقت کچھوؤں کی آٹھ اقسام معدوم ہونے کے دہانے پر ہیں اور نرم اور سخت شیل والے کچھوے تو تقریباً ناپید ہو گئے ہیں
پاکستان میں تازہ پانی کے کچھوے چاروں صوبوں کے دریاؤں، کینالوں، جھیلوں، اور یہاں تک کہ چاول کے کھیتوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن مشرقی ایشیائی ممالک جیسے کہ چین، ہانگ کانگ، ویتنام میں ان کے گوشت کی مانگ بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی غیر قانونی تجارت میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے
صرف یہی نہیں بلکہ ان کچھوؤں کی امریکا اور برطانیہ میں بھی مانگ کافی بڑھ گئی ہے، جہاں لوگ ان کو پالتے ہیں
اگر ایک کچھوہ دو ہزار ڈالر کا فروخت ہوتا ہے تو اس غیر قانونی تجارت میں ملوث افراد کو کیا نقصان ہے کہ اگر یہ پکڑے بھی جائیں اور چند ہزار روپے جرمانہ دے کر بری ہو جائیں، اس سب میں اصل قیمت تو کچھوے معدومی کی صورت میں چکا رہے ہیں
اسی غیر قانونی تجارت کے باعث انٹر نیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کے مطابق تازہ پانی کے کچھوؤں کی آٹھ اقسام میں سے پانچ یا تو معدوم ہو چکی ہیں یا ان کو خطرہ ہے
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک اور رپورٹ کے مطابق کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت کا آغاز سنہ 2000ع میں دریائے سندھ میں مچھلیوں کی تعداد میں کمی کے باعث ہوا
خیبر پختونخوا میں اس کا آغاز 2006ع میں ہوا، جبکہ پنجاب میں 2002ع میں ہوا
غیر قانونی تجارت کے طریقہ کار حوالے سے کہا جاتا ہے کہ کچھوؤں کی تجارت کرنے والے بڑے ڈیلرز چھوٹے چھوٹے علاقوں میں مقامی ڈیلرز سے رابطہ کرتے ہیں اور چھوٹے قصبوں سے کچھوؤں کو بڑے شہروں میں بھیجا جاتا ہے
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں تازہ پانی کے کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت کے آغاز کا سہرا لاہور کے بڑے ڈیلرز کو جاتا ہے
لاہور میں کچھوؤں کی آمد کے بعد ان کو کراچی روانہ کیا جاتا ہے، جہاں سے ان کچھوؤں کو مختلف ممالک میں بھیجا جاتا ہے
اس غیر قانونی تجارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2005ع میں کراچی کی بندرگاہ پر تین ہزار ساڑھے چھ سو کلو گرام کے فریز کیے ہوئے کچھوے پکڑے گئے، جن کو ویتنام بھیجنے کی کوشش کی جا رہی تھی
سنہ 2007ع میں کراچی کے ہوائی اڈے سے سکھائے ہوئے کچھوؤں کے حصے ضبط کیے گئے، جو سات سو کلو گرام وزن کے تھے، جنہیں چین بھیجا جا رہا تھا
اسی طرح 2007ع ہی میں پشاور میں محکمۂ جنگلی حیات نے تین سو کلوگرام سکھائے ہوئے کچھوؤں کے حصے ضبط کیے
کچھوے پکڑنے کا کوئی خاص سیزن تو طے نہیں، لیکن موسم سرما اور بہار میں پانی کم ہونے کے باعث ان کا شکار آسان ہوتا ہے
یہ یا تو نیزے یا ہوک لائن اور یا پھر جال سے پکڑے جاتے ہیں۔ ان پکڑے گئے کچھوؤں کے گوشت کو اسی وقت تیار کیا جاتا ہے یا پھر قریب ہی کسی مقام پر تیار کیا جاتا ہے
جو حصے چاہیے ہوتے ہیں، ان کو کاٹ کر پانی میں گرم کرلیا جاتا ہے تاکہ اس کی بدبو نہ پھیل سکے
اس کے بعد کچھوؤں کے گوشت کو فریز کر لیا جاتا ہے جبکہ زندہ کچھوؤں کو خاص بنائے گئے پانی کے زیر زمین ٹینکوں میں رکھا جاتا ہے
کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے ملک کے قوانین کو مزید سخت کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے.