چین کے شہنشاہوں کی خوراک ’کالے چاول‘ کی کہانی، جو اب پاکستان میں بھی کاشت ہوتے ہیں

ویب ڈیسک

کالی گھٹاؤں، کالی زلفوں اور کالے گلاب سے تو سب آشنا ہیں. مگر آج ہم آپ کو متعارف کرواتے ہیں کالے چاولوں سے… جی ہاں کالے چاول، جسے انگریزی میں Black rice کہا جاتا ہے، قدیم زمانے سے اہل چین کے ہاں کالے چاولوں کی کاشت کی جاتی رہی

چین کی سر زمین پر اُگنے والے نایاب کالے چاولوں کو ماضی میں ان گنت فوائد کی بنا پر صرف چین کے شہنشاہ استعمال کیا کرتے تھے اور اس کا استعمال بطور شاہی غذا کیا جاتا تھا

جانے کیسے چین کے شاہی خاندان کے لوگ ان کالے چاولوں کی غذائی خوبیوں سے واقف ہوئے کہ انہوں نے اس کی کاشت اور استعمال کو صرف شاہی خاندان تک محدود کر دیا اور ان کا عمومی استعمال سختی سے منع قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ انہیں شاہی چاول (ایمپرر رائس) اور ممنوعہ چاول (فار بڈن رائس) کہا جاتا تھا، جبکہ عرف عام میں انہیں کالے چاول (بلیک رائس) کہتے ہیں

ان کا سائنسی نام Oryza Sativa L ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں چین میں جب بادشاہت کا نظام ختم ہوا تو آہستہ آہستہ چاولوں کی اس قسم تک عوام کو رسائی حاصل ہوئی۔ پاکستان میں بھی بلیک رائس کی ’ریحان کھوسو ورائٹی‘ کچھ عرصہ سے تجرباتی اور آزمائشی طور پر کاشت کی جارہی ہے

یوں ایک قدیم چینی شاہی کھانے ’کالے چاول‘ نے پاکستان میں اپنا راستہ بنا لیا ہے اور یہ ملک کے لیے تین گنا زیادہ برآمدی آمدنی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ایک کاشتکار ریحان کھوسو کے خیالات ہیں، جنہوں نے پہلے تحقیق کے بعد چاول کی اس قسم کی کامیابی سے سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقے جیکب آباد میں کاشت کی ہے

رواں سال کے آغاز پر انٹرویو دیتے ہوئے ریحان کھوسو نے بتایا کہ چاول کی یہ قسم شاہی خوراک ہونے کی وجہ سے کبھی عام لوگوں کے لیے حرام تھی

مختلف قسم کے صحت کے فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے، انہوں نے وضاحت کی کہ کالے چاول میں 28 اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس قسم کی برآمدی صلاحیت بہت زیادہ ہے، کیونکہ ہندوستان 2017 سے بڑے پیمانے پر اس قسم کے چاول برآمد کر رہا ہے

انہوں نے نئی قسم کی مکمل صلاحیت سے فائدہ اٹھانے اور زرمبادلہ حاصل کرنے کے لیے حکومت سے تعاون کی درخواست کرتے ہوئے کہا ”چاول ٹیکسٹائل کے بعد پاکستان کی دوسری سب سے بڑی برآمدی مصنوعات ہے“

انہوں نے کہا، ”ابھی تک، پاکستان کے پاس کالے چاول کے لیے کوئی مکمل مقامی مارکیٹ نہیں ہے اور اسے برآمد کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت اور رقم درکار ہوتی ہے۔“

پودے کے سائز، اضافی تنوں، وزن اور کالے چاول کے دانے کی لمبائی جیسی خصوصیات کی حامل اس نئی ورائٹی کو پاکستان میں کاشت کار عمار حسین شاہ نے بھی میانوالی کے علاقے کوٹ بیلیاں میں چین سے درآمد شدہ کالے چاول کی کاشت کا کامیاب تجربہ کیا

عمار حسین شاہ کا کہنا ہے کہ کالے چاول ایشیا میں چین کے بعد بنگلہ دیش، بھارت، ویتنام اور جاپان کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں غذائی استعمال کی وجہ سے مشہور ہو رہے ہیں

ان چاولوں میں سفید چاول کی نسبت زیادہ غذائیت، اینٹی آکسیڈنٹس اور کم شوگر والی غذائی خصوصیات موجود ہیں

انہوں نے بتایا کہ عرب ممالک میں ان چاولوں کی مانگ کے پیش نظر کالے چاول امپورٹ کرنے والے وہ پہلے پاکستانی ہیں

عمار حسین شاہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے لاکھوں کی خطیر رقم سے صرف دس کلو گرام کالے چاول کا بیج منگوا کر میانوالی کی آب و ہوا میں اس کو اگانے کا تجربہ کیا تھا، جو کامیاب رہا اور اب فصل کٹنے کے مراحل میں ہے

عمار کے مطابق ابتدائی طور پر پاکستان میں کالے چاول درآمد کرنے کے اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ مہنگے ہوگئے، لیکن جب یہ ورائٹی عام ہو جائے گی تو اس کی قیمت سفید چاول کے برابر آجائے گی

عمار اس ورائٹی کی پہلی کھیپ سے مزید بیج اگانے جبکہ مستقبل میں بطور خوراک کمرشل سطح پر انہیں فروخت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں

کچھ عرصہ قبل جب جدید سائنس نے مختلف اجناس کے غذائی اجزاء کا ازسرنو جائزہ لینا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ کالے چاولوں میں اینٹی آکسیڈنٹس اور فائٹو کیمکلز کی مقدار بہت زیادہ ہے

بلکہ سب سے زیادہ کارآمد اینٹی آکسیڈنٹ اور نیوٹراسیوٹیکل کیمیائی مرکب اینتھوسائیانین کی سب سے زیادہ مقدار کالے چاولوں میں پائی جاتی ہے.

اینتھوسائیانین بنیادی طور پر پھلوں میں پایا جانے والی گہرا جامنی رنگ ہوتا ہے، جسے پھلوں سے سادہ کیمیائی عمل سے علیحدہ کیا جاتا ہے. یہ وہ مرکب ہے، جس کا مستقل استعمال دائمی امراض کے خاتمے کے لئے بیحد مفید ہے

حتیٰ کہ بہت سے اقسام کے کینسر کے خلیے بھی اینتھوسائیانین کے استعمال سے ختم ہوجاتے ہیں. اس وجہ سے پوری دنیا میں اینتھوسائیانین کی مانگ اور قیمت فروخت بہت زیادہ ہے

کالے چاولوں میں اس جامنی اینتھوسائیانین کی اس قدر زیادہ مقدار ہوتی ہے کہ وہ کالے نظر آتے ہیں

جب کہ پکنے کے بعد یہ گہرے جامنی ہی دکھائی دیتے ہیں. اس زبردست دریافت کے بعد دنیا بھر میں کالے چاولوں کا استعمال بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے.

خطے میں چین کے بعد سب سے پہلے تھائی لینڈ میں اس کی کاشت شروع ہوئی

پھر فلپائن اور سال 2011 میں بھارت میں آسام میں ایک کسان نے اس کی کاشت کا کامیاب تجربہ کیا

اس وقت سے اب تک بھارت میں آسام، اڑیسہ اور ارد گرد کے علاقوں میں ہزاروں ایکڑ پر سالانہ کالے چاولوں کی کاشت کی جا رہی ہے

سال 2017 میں بھارتی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں اس کی کاشت کامیابی سے کی گئی

یہاں اس کی فی ایکڑ پیداوار تیس سے پینتیس من حاصل کی گئی

عام چاول کی نسبت کالے چاول کی قیمت فروخت بہت زیادہ ہے. بھارت میں اس کی تھوک میں فروخت ساڑھے تین سو روپے بھارتی فی کلوگرام ہوتی ہے

یعنی پاکستانی آٹھ سو روپے فی کلو. اور اگر یہ کھاد اور کرم کش ادویات کے بغیر یعنی آرگینک طریقے سے اگایا گیا ہوتو اس کی قیمت فروخت پانچ سو روپے بھارتی یعنی ساڑھے گیارہ سو روپے پاکستانی فی کلوگرام ہوتی ہے

آسان الفاظ میں اگر عام طریقہ سے بھی اگایا جائے تو فی ایکڑ دس لاکھ روپے کی فصل حاصل کی جاسکتی ہے.
پاکستان میں خاص طور پر پنجاب میں جہاں کچھ علاقے چاول کی کاشت کے انتہائی موزوں ہیں عین ممکن ہے کہ اس کی فی ایکڑ پیداوار اور معیار اور بھی شاندار ہو. جس کی قیمت عالمی منڈی میں اور بھی زیادہ ہو

ہم نہ صرف کالے چاول براہ راست فروخت کرسکتے ہیں بلکہ اس میں امسے اینتھوسائیانین ایکسٹریکٹ کرکے بھی مہنگے داموں بیچ کر بہت سا زرمبادلہ کما سکتے ہیں

سندھ آبادگار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز شاہ بتاتے ہیں "بنیادی چیز کاشتکاروں کو بیج حاصل کرنا ہے اور وہ اسے خود اگائیں گے کیونکہ یہاں ہائبرڈ اقسام مقبول ہو رہی ہیں۔ اگرچہ یہ بیج زیادہ مہنگے اور بغیر جانچے گئے ہیں، لیکن اب یہ اپنی زیادہ پیداواری صلاحیت کی وجہ سے تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر حکومت چاول کی اس نئی قسم کو سپورٹ کرتی ہے، تو اس سے پاکستان کے لیے نمایاں برآمدی ریونیو حاصل ہوگا“

ایگریکلچر ریپبلک کے شریک بانی عامر حیات بھنڈارا کا خیال ہے کہ کالے چاول کی بین الاقوامی منڈی میں بہت زیادہ مانگ ہے۔ اس طرح، اگر اس قسم کو پورے ملک میں کامیابی سے کاشت کیا جائے تو پاکستان میں برآمدات کی وسیع صلاحیت موجود ہے

انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت کو تحقیقی پلیٹ فارمز کو بڑھانا چاہیے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے انہیں کسانوں سے جوڑنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close