بلوچستان میں مبینہ پولیس فائرنگ سے دس سالہ بچہ ہلاک، لواحقین کا لاش سمیت احتجاج

نیوز ڈیسک

تربت : بلوچستان کے ضلع کیچ میں ہفتے کی صبح مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے بچے کی ہلاکت کے بعد لواحقین نے تربت میں لاش سمیت حکومت کے خلاف دھرنا دے دیا ہے

لواحقین نے الزام عائد کیا ہے کہ دس برس کے رامز خلیل ہفتے کی صبح اپنے گھر پر پولیس کے ایک چھاپے کے دوران گولی لگنے سے ہلاک ہوئے، جبکہ ان کا چھوٹا بھائی بھی زخمی ہوا

جبکہ دوسری جانب پولیس کا موقف ہے کہ بنیادی طور پر کرائم برانچ کو ایک مقدمے میں گرفتاری مطلوب تھی اور بچے کی ہلاکت گھر سے گرفتار کیے جانے والے ملزم خلیل کی فائرنگ سے ہوئی

واضح رہے کہ رامز بلیدہ کے رہائشی خلیل رند کے بیٹے اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے رہنما ظریف رند کے بھتیجے تھے

بلیدہ ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت سے اندازاً 47 کلومیٹرکے فاصلے پر شمال مغرب میں واقع ہے۔

بی ایس او کے رہنما ظریف بلوچ نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے ان کے گھر پر علی الصبح پانچ بجے کے قریب چھاپہ مارا۔ وہ خود گھر پر موجود نہیں تھے، لیکن جب پولیس نے وہاں چھاپہ مارا تو ان کے بھائی اور دیگر رشتہ دار سوئے ہوئے تھے

انہوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس کے اہلکاروں نے پہلے گھر کے اندر آنسو گیس کے شیل فائر کیے جس کے بعد فائرنگ کی گئی

ظریف رند نے بتایا کہ ان کا ایک بھتیجا پولیس کی فائرنگ سے ہلاک جبکہ دوسرا زخمی ہوئا، تاہم بچوں کی والدہ اس کارروائی کے دوران گھر میں آگ لگنے سے زخمی ہوئیں

ظریف رند کے مطابق زخمیوں کو بلیدہ میں مقامی ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کو بتایا گیا کہ رامز کی موت پہلے ہی ہوچکی تھی۔ رامز کے گردن، چھاتی اور ہاتھ پر گولیوں کے نشان تھے، جبکہ ان کے چھوٹے بھائی کی ٹانگ پر ایک گولی لگی ہے

انہوں نے بتایا کہ گھر کی تلاشی لینے اور توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ پولیس اہلکار بچوں کے والد خلیل رند کو اپنے ساتھ لے گئے

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بچے کی ہلاکت پر بلیدہ میں لوگ مشتعل تھے اس لیے انہوں نے فدا احمد شہید چوک پر بچے کی لاش کے ہمراہ دھرنا دیا

ضلع کیچ میں پولیس کے سربراہ ایس ایس پی بہرام مندوخیل کا کہنا ہے کہ گھر پر چھاپے کی کارروائی کیچ پولیس کی نہیں بلکہ کرائم برانچ کی تھی. بنیادی طور پر کرائم برانچ پولیس کو ایک مقدمے میں گرفتاری مطلوب تھی، جس کے لیے کوئٹہ سے کرائم برانچ کی ایک ٹیم آئی تھی، جس نے وہاں جا کر چھاپہ مارا لیکن گھر سے پولیس کی ٹیم پر فائرنگ کی گئی

انہوں نے دعویٰ کیا کہ بچے کی ہلاکت گھر سے گرفتار کیے جانے والے ملزم خلیل کی فائرنگ سے ہوئی جو کہ بچے کے والد بھی ہیں. گھر پر ہونے والی فائرنگ سے پولیس کا ایک اہلکار زخمی بھی ہوا

تربت میں بچے کی لاش کے ہمراہ دھرنے میں لواحقین، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکن شریک ہیں۔ آل پارٹیز کیچ کے کنوینئر مشکور انور نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے

ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر کیچ اور دوسرے حکام یہاں مذاکرات کے لیے آئے اور احتجاج پر بیٹھے افراد کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ چھاپہ کرائم پولیس کا تھا، جس کی ٹیم کوئٹہ سے آئی تھی اور وہ یہ چھاپہ گھر سے ایک مطلوب شخص کی گرفتاری کے لیے مارا گیا

انہوں نے بتایا کہ پولیس اہلکار ہلاک ہونے والے بچے کے والد خلیل رند کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ کوئٹہ لے گئے، حالانکہ ان کے پاس ان کی گرفتاری کا کوئی وارنٹ نہیں تھا

ان کا کہنا تھا کہ دھرنے پر بیٹھے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ بچے کے والد کو رہا کیا جائے اور اس بات کی وضاحت کی جائے کہ اگر کسی کی گرفتاری مطلوب تھی تو وہاں فائرنگ کیوں کی گئی؟ اس واقعے کی تحقیقات ایک جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے ذریعے کرائی جائیں

ہلاک ہونے والے بچے کے چچا اور بی ایس او کے چیئرمین ظریف رند کا کہنا تھا کہ جو سرکاری حکام مذاکرات کے لیے آئے ان کا یہ کہنا تھا کہ خلیل کے گارڈز نے فائرنگ کی، جس سے ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا

ان کا کہنا تھا کہ اگر خلیل کے گارڈز تھے تو وہ کہاں گئے اور اگر کوئی پولیس اہلکار زخمی ہوا تو وہ کہاں ہے

واضح رہے کہ جب گذشتہ سال مئی میں ضلع کیچ میں ایک گھر پر بظاہر ڈکیتی کی واردات میں فائرنگ کے واقعے میں ایک معصوم بچی برمش کے زخمی ہونے اور اس کی ماں کی ہلاکت کے خلاف بلیدہ میں ایک ریلی منعقد ہوئی تھی، اس احتجاج میں محض نو برس کے رامز خلیل بھی شریک ہوئے تھے

اس ریلی میں رامز ہاتھ میں ایک کتبہ تھامے ہوئے تھے، جس پر درج تھا کہ ’مسئلہ فرد کی گرفتاری سے حل نہیں ہو گا، ہمارا مطالبہ ہے کہ مسلح جتھوں کی پشت پنائی بند کی جائے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close