سائنس تاریخ کو کس طرح متاثر کر رہی ہے؟

ڈاکٹر مبارک علی

انسانی سماج کے ساتھ ساتھ تاریخ نویسی کے اسلوب بھی بدلتے رہتے ہیں کیونکہ تاریخ سماج کی عکاسی کرتی ہے اس کے ماحول، روایات اور اداروں کا تجزیہ کرتی ہے۔ اس لیے یہ ایک متحرک علم ہے جس کی مدد سے معاشرے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جیسے جیسے انسانی تہذیب ترقی کر رہی ہے اسی حساب سے اس کو سمجھنے کے لیے نئے علوم پیدا ہو رہے ہیں اور پرانے علوم میں اضافے ہو رہے ہیں۔ خاص طور سے سائنس کے علوم نے جو خیالات میں تبدیلی کی ہے۔ نیچر کے بارے میں جو انکشافات کیے ہیں۔ اس سے تاریخ کا علم بھی متاثر ہوا ہے اور تاریخ نویسی میں نئی دریافتوں نے اس کی ساخت کو بدل ڈالا ہے

انسان کی ابتدائی تاریخ سے لے کر عہد وسطیٰ تک یورپ میں چرچ کا گہرا اثر تھا اور مذہب کی سچائی کا معاشرے پر مکمل تسلط تھا۔ اس سچائی میں مذہب کسی کو شریک نہیں کرتا تھا۔ اس کی یہ سچائی آفاقی تھی یعنی ہمیشہ رہنے والی جس میں تبدیلی کے کوئی امکانات نہیں تھے، لیکن سائنسی انقلاب نے آہستہ آہستہ مذہب کی سچائی کی بنیادوں کو توڑنا شروع کر دیا۔ نیکولس (Nicolaus Copernicus-1543) اور (Johannes Kepler-1630) اور گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei-1642) نے جب سورج کے بجائے زمین کی گردش کا نظریہ پیش کیا تو اس نے مذہب کی سچائی میں دراڑیں ڈالیں۔ فرانسس بیکن (Francis Bacon-1626) نے منطق کے ذریعے علوم کو تجزیاتی بنایا جس کی وجہ سے فطری اور سماجی علوم کے ذریعے حالات کو سمجھنے میں آسانی ہوئی

اس موضوع پر "Telling the trufh about history” کے نام سے ایک کتاب جس میں تین مورخوں کے مقالات شامل ہیں، اس بات کی وضاحت کی ہے کہ سائنس کی ایجادات نے تاریخ کے علم کو بدلنے میں کیا کردار ادا کیا۔ خاص طور سے نیوٹن (Isaac Newton d.1727)کے عہد کو سائنسی انقلاب کہا جاتا ہے، کیونکہ اس عہد میں سائنس نے کائنات کی تسخیر کی اور کائنات کے وہ راز جو اب تک پوشیدہ تھے ان کا انکشاف کرکے انسانی علم میں اضافہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ نیپولین نے فرانس کے سب سے بڑے سائنس دان سے یہ سوال کیا کہ کیا فرانس میں بھی نیوٹن جیسا سائنس دان پیدا ہو سکتا ہے تو اس پر اس نے جواب دیا کہ خدا نے ایک کائنات بنائی ہے جیسے نیوٹن دریافت کر چکا ہے۔ نیوٹن چونکہ ایک بڑا سائنس دان تھا مگر اس کا کہنا تھا کہ ہم نے سارا علم دوسرے عظیم سائنس دانوں کے کندھوں پر سوار ہو کر سیکھا ہے

اس سائنسی انقلاب کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ اب تک سچائی پر جو چرچ اور مذہب کی اجارہ داری تھی وہ ٹوٹ گئی اور سچائی سائنس کے دائرے میں آگئی، لیکن یہ سچائی ابدی اور آفاقی نہیں ہے اور سائنس کی نئی تحقیقات کے ذریعے یہ بدلتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس برابر دنیا کو بدل رہی ہے، اگر سچائی کو ابدی مان لیا جائے تو پھر تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ لہٰذا جن معاشروں میں مذہب کی سچائی کا تسلط ہے۔ وہ معاشرے جمود کا شکار ہیں اور ان کی سوچ اور فکر بھی ایک جگہ آکر رُک گئی ہے، لیکن جو معاشرے سائنس کی سچائی کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ سائنس کی نئی تحقیقات کے ذریعے سائنس میں جو ردو بدل ہوتی ہے اسے بھی مانتے ہیں۔ یہ رحجان معاشرے کے ذہن کو تنگ نظری سے نکال کر کشادگی کی طرف لاتا ہے اور وہ دوسری تہذیبوں سے بھی سیکھتے ہیں

اس سائنسی انقلاب کے نتیجے میں تاریخ کی ایک نئی صنف وجود میں آئی ہے۔ اسے Big History کا نام یعنی وسیع و عظیم تاریخ کا نام دیا جاتا ہے۔ مورخ اس تاریخ کی ابتداء کائنات کی تخلیق سے کرتے ہیں، کیونکہ سائنس نے تخلیق کائنات کے جو نظریات فراہم کیے ہیں، ان کی مدد سے انسانی علم میں اضافہ ہوا ہے کہ یہ کائنات کیسے وجود میں آئی اور زمین بھی اس طویل مدت کے بعد موجودہ شکل میں سامنے آئی اور پھر ڈارون (Charles Darwin-1882) کے نظریہ ارتقاء نے سائنسی طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ نوع انسانی کی تکمیل کن مراحل سے گزرنے کے بعد ہوئی

تاریخ پر اس کا یہ اثر ہوا کہ اب تک تاریخ کی بنیاد بائبل کی تاریخ پر تھی۔ جس کی ابتداء آدم کے جنت سے نکالنے پر ہوتی تھی اور چرچ کے ایک عہدیدار نے تو زمین کی پیدائش کی مدت بھی مقرر کر دی تھی، لیکن سائنس نے تاریخ کو بائبل سے نکال کر اس کو منطقی بنیادیں فراہم کیں اور جب تاریخ کا علم سیکولر ہو گیا اور مذہب کی پابندیوں سے آزاد ہو گیا تو اس میں وسعت اور کشادگی آتی چلی گئی۔ اب اس میں ان قوموں کا تذکرہ بھی شامل ہو گیا جن کا کوئی ذکر بائبل میں نہیں۔ اسی طرح سے جب آثار قدیمہ نے قدیم تہذیبوں کے آثار دریافت کیے تو ان کی تاریخ نے بھی بائبل کی تاریخ کو ایک طرف رکھ دیا۔ اس کے علاوہ جب علم نشریات یعنی (Anthropology) نے جب دور دراز کی بستیوں اور قبیلوں کو دریافت کیا اور ان کے کلچر سے آگاہی حاصل کی تو یہ سب بھی بائبل کی تاریخ میں نہیں تھا، لیکن اس کرۂ ارض پر ان کا وجود تھا جسے موجودہ زمانے میں دریافت کیا گیا

بگ ہسٹری (Big History) کے عنوان سے اب جو تاریخ لکھی جارہی ہے۔ وہ تخلیق کائنات سے لے کر موجودہ زمانے تک ہے اور اس سے یہ بات واضع ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ جیسے جیسے سائنسی اور سماجی علوم میں اضافے ہوں گے اسی طرح سے تاریخ بھی اپنے دائرے کو بڑھاتی رہے گی اور تاریخ کے علم میں شامل یہ نئے خیالات اور افکار معاشرے کے ذہن کو بدلتے رہیں گے، کیونکہ یہ بات پائے ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ کوئی روایتی ادارہ ابدی نہیں ہوتا ہے بلکہ معاشرے کی ضرورت کے مطابق اس کی تشکیل بھی ہوتی ہے اور اس کو بدلا بھی جا سکتا ہے۔ یہ تاریخ کا اہم سبق ہے جو انسانی معاشرے کی ترقی کے لئے راہیں کھولتا ہے

حوالہ :ڈی ڈبلیو اُردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close