ایسٹ انڈیا کمپنی: چَپاتی اور برِصغیر میں برطانوی راج کا خاتمہ

ویب ڈیسک

کراچی – توے پر بنائی جانے والی گول چپاتیوں کی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں ترسیل ہونے لگی۔ کوئی پیغام رساں اپنے ساتھ چپاتیاں لے کر آتا اور گاؤں کے مکھیا کو دے کر چلا جاتا۔ مکھیا اس کے بعد اگلے گاؤں چپاتیوں کی ایک نئی کھیپ بھیج دیتا۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا

اس طرح چپاتیاں شمالی ہندوستان کے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں سیر کرتی رہتیں، اندور کی سلطنت سے لے کر ہندوستان کے شمال میں گوالیار شہر تک۔ وہ اس خطے سے ہوتی ہوئی، جو کبھی اودھ کی تاریخی سلطنت تھی، شمالی ریاست اتر پردیش میں روہیل کھنڈ تک پہنچیں، اور مزید جنوب میں الہ آباد تک بھی

برطانوی فوجی رہنماؤں کے اندازے کے مطابق چپاتیاں ایک رات میں ایک سو ساٹھ سے دو سو میل تک سفر کرتیں، اس رفتار سے تیز، جس رفتار سے اس وقت کا ڈاک کا نظام پیغامات پہنچاتا تھا۔ کبھی چپاتیوں کے ساتھ کنول کے پھول بھی ہوتے، کبھی بکرے کا گوشت، لیکن زیادہ تر کسی اور سامان کے بغیر صرف چپاتیاں ہی ہوتیں

تقریباً سو سال پہلے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجیوں کو شمالی مشرقی بھارت میں پلاسی کی جنگ میں نواب آف بنگال اور ان کے فرانسیسی اتحادیوں کا سامنا تھا، انہوں نے وہ جنگ میدانِ جنگ میں اور اس سے باہر اپنی شاطرانہ چالوں سے جیتی۔ دوسری چیزوں کے علاوہ نوآبادیاتی فتح کا مطلب یہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اب مغل علاقوں سے بھی ٹیکس اکٹھا کر سکتی ہے اور اس نے پورے بھارت میں کمپنی کے تسلط کی راہ ہموار کر دی

ایک صدی پہلے، ہندوستان انتہائی اعصاب شکن حالات میں مبتلا تھا۔ اندور میں ہیضے کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ اس سے پچھلے سال ایسٹ انڈیا کمپنی نے اودھ پر قبضہ کر لیا تھا، اور نواب کو معزول کر کے کولکتہ (جسے اس وقت کلکتہ کے نام سے جانا جاتا تھا) جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ انگریز گائے اور خنزیر کی ہڈیوں کے چورے سے آٹے کو آلودہ کر رہے ہیں، جبکہ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ انگریز دوائیوں میں تھوک ملا کر لوگوں کو دیتے ہیں

اسی حوالے سے دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ میں وزیٹنگ لیکچرار حسینہ انصاری کہتی ہیں کہ لکھنؤ سے مقامی اُردو اخبار ’طلسم لکھنؤ‘ ایک واقعہ کا ذکر کرتا ہے جہاں ہسپتال میں مریضوں نے دوائیاں لینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ یہ افواہیں تھیں کہ ایک برطانوی اہلکار نے دوائیوں میں تھوک دیا تھا

مصنف رانا صفوی اس پریشانی کی ایک اور ممکنہ وضاحت پیش کرتی ہیں: ’ایک افواہ تھی کہ 1757 کی پلاسی کی جنگ کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر غیر ملکی حکمرانی ختم ہو جائے گی۔‘ اس طرح کی افواہوں نے لوگوں کو اس مفروضے کی طرف راغب کیا کہ انگریز ملک میں زبردستی لوگوں کو عیسائی بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔‘

ایسے ماحول میں پھر ’چپاتی تحریک‘ آئی جس نے انگریزوں کو مکمل طور پر حیران کر دیا

پریشان حال حکام نے ایک دوسرے کو خطوط بھیجے، جن میں یہ کہا گیا کہ کم از کم تحریک کے آغاز میں چپاتیوں کو ناقابل فہم غیر معمولی حرکت کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ بار بار چپاتیوں کو ایک معمہ قرار دیا گیا

ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے کام کرنے والے ایک فوجی سرجن گلبرٹ ہیڈو نے مارچ 1857 میں اپنی بہن کے نام ایک خط میں لکھا کہ ’اس وقت پورے ہندوستان میں ایک انتہائی پراسرار معاملہ چل رہا ہے۔ کوئی بھی اس کا مطلب نہیں جانتا۔ یہ پتہ نہیں کہ اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی، کس کے ذریعے ہوئی یا اس کا مقصد کیا ہے، آیا اس کا تعلق کسی مذہبی تقریب سے ہے یا اس کا کسی خفیہ سوسائٹی سے تعلق ہے۔ ہندوستانی اخبارات اس کے متعلق قیاس سے بھرے پڑے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔۔۔ اسے ’چوپاٹی تحریک‘ کہا جا رہا ہے۔‘

اس وقت متھرا شہر کے مجسٹریٹ مارک تھورن ہل لکھتے ہیں: ’ایک شخص ایک گاؤں میں آیا اور چوکیدار کو ایک کیک دیا اور کہا کہ وہ اس طرح کے چار (کیک) بنائیں اور ملحقہ دیہات کے چوکیداروں میں تقسیم کر دیں ، اور ان سے بھی ایسا ہی کرنے کا کہیں۔۔۔ یہ عجیب سلسلہ نو دن تک چلتا رہا، اور پھر اس معاملے پر چپ سادھ لی گئی۔‘

کچھ ان بدشگونیوں پر پریشان ہوتے، جو چپاتیاں اپنے ساتھ لے کر آتیں

برطانیہ کی ناٹنگھم یونیورسٹی میں برطانوی سامراجی، نوآبادیاتی اور پوسٹ نوآبادیاتی تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ارون کمار کہتے ہیں: ’وہ نوآبادیاتی اہلکاروں کے لیے بغاوت اور انڈینز کے لیے نوآبادیاتی مخالف قوم پرست مزاحمت کا نشان بن گئی تھیں۔ ان چپاتیوں کو بھی اسکاٹ لینڈ میں جلے ہوئے اور خون کے دھبوں والے گردش کرتے ہوئے کراس کی طرح سیاسی متحرک اور بغاوت کے آلات کے طور پر دیکھا جانے لگا۔‘

واضح رہے کہ کسی زمانے میں اسکاٹ کے قبیلے جلے ہوئے اور خون کے دھبوں والے کراس کو لے کر چلتے تھے تاکہ جنگ کے لیے لوگوں کو اکٹھا کیا جائے

تاہم کچھ دوسروں نے ہندوستان میں چلنے والی اس سرگرمی کو ایک مقامی رواج کہا جو بیماریوں سے بچاتا تھا۔ اور درحقیقت اس طرح کی پیغام رسانی کی بازگشت ہندوستانی تاریخ میں گونجتی بھی رہی ہے

کمار کہتے ہیں کہ ’ہندوستان کے قبائلیوں میں بہت سی چیزوں، تیروں اور مخصوص پودوں کے پتوں کے ساتھ ناریل اور مٹی کے برتن بیماریوں، تہواروں، متحرک ہونے اور بغاوت کے حوالے سے پیغامات پہنچانے کی کچھ دوسری شکلیں تھیں۔‘

کمار بتاتے ہیں کہ اطلاعات کے مطابق کول برادری کے لوگوں نے، جو کہ مشرقی ہندوستان کی ایک مقامی برادری ہے، 1830 اور 1832 کے درمیان چھوٹا ناگپور میں پیغامات پہنچانے کے ایک ذریعہ کے طور پر ایک دوسرے کو تیر دیے تھے۔ جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مشرقی ہندوستان میں بھی مقیم سنتال برادری 1857 سے پہلے سال کے درخت کی شاخیں اور سیندور کو اجتماعی کارروائی کے پیغام کے طور پر ایک دوسرے کو دیتی تھی

کمار کہتے ہیں کہ ’تاہم چپاتی تحریک کے وسیع جغرافیائی پھیلاؤ کے مقابلے میں وہ چھوٹے پیمانے کے واقعات تھے۔ شمالی ہندوستان کی سب سے زیادہ جانی جانے والی کھانے کی چیز ہونے کی وجہ سے چپاتی کی ایک دیہی علامتی قدر تھی جو پورے دیہی معاشرے کو متحرک کر سکتی تھی۔‘

بعد میں مہاتما گاندھی نے بھی روزمرہ کی اشیا جیسے کہ نمک کی اشتعال انگیز علامت کا استعمال کرتے ہوئے، اسی طرح دیہی ہندوستان کو متحرک کرنے کی کوشش کی تھی

صفوی کہتی ہیں کہ اس وقت پہاڑ گنج میں ایک پولیس افسر معین الدین حسن خان نے چپاتیوں کے پھیلاؤ کے بارے میں اسی طرح کی حیرانی کے ساتھ بات کی تھی۔ ’اطلاعات کے مطابق انہوں نے چارلس میٹکاف کی 1898 کی کتاب، ’ٹو نیٹو نیریٹیوز آف دی میوٹنی ان دہلی‘ (دہلی میں بغاوت کے دو مقامی بیانیے) میں کہا کہ ’اگلے مہینے، فروری میں، چپاتیوں کی وسیع پیمانے پر تقسیم کا ایک اور اشارہ دیا گیا، جو کہ ایک بد شگون تھا۔‘

خان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’اس وقت میں دہلی شہر سے بالکل باہر پہاڑ گنج تھانے کا تھانیدار تھا۔ ایک دن صبح سویرے اندراپوت کے گاؤں کے چوکیدار نے آ کر اطلاع دی کہ سرائے کا چوکیدار، فاروق خان، ایک چوپاٹی لایا تھا۔۔۔‘ اس نے کہا کہ اسے پانچ ایسی ہی چپاتیاں پکانے اور پڑوس کے پانچ قریبی گاؤں میں بھیجنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس کے بعد ہر وصول کنندہ گاؤں کو تقسیم کے لیے پانچ ایک جیسی (چپاتیاں) بنانا تھی، بالکل ایک قسم کی چپاتیوں کی ریلے ریس کی طرح۔‘

خان کے مطابق ’ہر چپاتی جو اور گندم کے آٹے سے بنی ہوئی ہوتی تھی، جو کہ انسان کی ہتھیلی کے برابر ہوتی، اور اس کا وزن دو تولہ (تقریباً بیس گرام) ہوتا تھا۔ میں حیران تھا، پھر بھی میں نے محسوس کیا کہ چوکیدار کی بات سچ تھی، اور ایسا واقعہ اہم تھا جس نے بلاشبہ پورے انڈیا کے مقامی ذہنوں میں ایک بڑے خطرے کا احساس پیدا کیا تھا۔‘

انقلاب کی علامت کے طور پر چپاتی کے اس خیال کا تذکرہ متنازع سیاست دان اور دائیں بازو کے رہنما ونائک ساورکر کی کتاب ’انڈین وار آف انڈیپینڈنس 1857‘ میں بھی کیا گیا ہے۔ ان کی رائے میں چپاتی تحریک ان ہندوستانیوں کی حوصلہ افزائی تھی، جو برطانوی سلطنت کا حصہ بننے سے ناخوش تھے

اس کے بعد ایک اور افواہ پھیل گئی۔ وہ یہ تھی کہ جو کارتوس برطانوی فوج نے اپنے ہندوستانی فوجیوں کو جنگ میں استعمال کے لیے دیے تھے، وہ مبینہ طور پر سؤر اور گائے کے گوشت کی چربی سے بنے تھے۔ یہ مسلمانوں اور ہندوؤں، دونوں کے عقائد سے ہی متصادم تھے

مسئلہ اس وقت مزید سنگین ہو گیا جب یہ سامنے آیا کہ یہ کارتوس جن پیکٹوں میں بند تھے، انہیں فوجیوں کو اپنے دانتوں سے کھولنا پڑتا تھا۔ اس سے ایک بحران پیدا ہو گیا۔ ہندو اور مسلمان فوجیوں نے اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے گولیوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے انکار نے غصے کو مزید ہوا دی، اور دوسری چیزوں کے علاوہ، اس واقعہ نے بھی ایک بڑے پیمانے پر ہونے والی بغاوت کو شروع کرنے میں کردار ادا کیا

اب یہ صرف فوجیوں کی بغاوت نہیں رہی تھی، اس واقعہ نے نوآبادیاتی لوگوں کی مزاحمت کو جنم دیا تھا۔ نئے لیڈر سامنے آئے، جیسے دہلی کے بہادر شاہ، کانپور میں نانا صاحب، جو کہ جلاوطن مراٹھا پیشوا باجی راؤ دوئم کے لے پالک بیٹے تھے، جھانسی میں رانی لکشمی بائی، لکھنؤ میں مولوی احمد اللہ شاہ اور جنرل بخت خان، اور وسطی انڈیا میں تانتیا ٹوپے۔ سبھی اپنے مقصد کو کسی نہ کسی طرح مزاحمت کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ مئی سے ستمبر تک شدید لڑائیاں لڑی گئیں، جن کا اختتام دہلی میں انگریزوں نے وحشیانہ انتقامی قتلِ عام کے ساتھ کیا

اس سوال پر کہ کیا بے ضرور چپاتی ان سب کی وجہ بن سکتی تھی؟ صفوی کہتی ہیں کہ ’چپاتی کا معمہ ایک افواہ تھی جو 1857ع کے اوائل میں پھیلی تھی جس کا مقصد انڈینز کو یہ پیغام دینا تھا کہ نئی اینفیلڈ رائفل کے کارتوس میں سؤر اور گائے کی چربی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ زیادہ تر بیانات جو تقسیم کا ذکر کرتے ہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کیوں کیا جا رہا تھا، ایسا نہیں لگتا کہ بغاوت شروع ہونے میں ان کا بھی کوئی کردار تھا، بعد میں جو لوگ باغیوں میں شامل ہوئے انھوں نے پھر کڑی سے کڑی ملائی۔‘

حالیہ دہائیوں میں تحقیق نے اس سال کے واقعات کا ایک پیچیدہ رُخ دکھایا ہے۔ درحقیقت، اب کئی مؤرخین کا خیال ہے کہ بغاوت کی دعوت تفریح ​​کی مقبول شکلوں جیسا کہ تماشا (مقبول لوک تھیٹر اور موسیقی کے روایتی پروگرام) اور کٹھ پتلیوں کے ساتھ ساتھ سیاہی اور کاغذ کے پیغامات مثلاً خطوط، اخبارات جیسے صادق الاخبار، پمفلٹ اور پلے کارڈز کے ذریعے دی گئی تھی جو کہ تمام تیزی سے اور مؤثر طریقے سے ہر اس جگہ پر پہنچائے گئے جہاں زیادہ آبادی کا امکان تھا

ان دستاویزات کا مقصد ہندو مسلم دوستی کو مزید فروغ دینا تھا، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ مغل بادشاہت کے تصور کو زندہ کرنا بھی۔ اس طرح کے مواصلات کے طریقوں کا فائدہ یہ تھا کہ انھیں سامراجی ذرائع سے آسانی سے روکا نہیں جا سکتا تھا

انصاری اس کے لیے ایک مضبوط کیس بناتی ہیں۔ ’اس خیال کے برعکس کہ باغی اپنے خیالات کو زبانی کلامی اور دیگر روایتی طریقوں سے پھیلاتے ہیں، جیسے کہ روٹی اور کنول کے پھول کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنا، بہت سے پرنٹ شدہ اور ہاتھ سے لکھے ہوئے مواد دستیاب ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ باغیوں نے جدید تکنیکوں کو بھی استعمال کیا۔ انڈین نیشنل آرکائیوز میں باغی رہنماؤں کی طرف سے جاری کردہ بہت سے احکامات اور اعلانات ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک آئینی مسودہ بھی تیار کیا تھا اور دہلی شہر میں خرابی سے نمٹنے کے لیے ایک عدالت بھی قائم کی تھی۔‘

دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر سید ظہیر حسین جعفری، جنہوں نے ’گریٹ اپرائزنگ آف 1857‘ پڑھی ہے، اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’1857 کی تحریک یقینی طور پر مطبوعہ لفظ کے ذریعے شروع ہوئی۔ تاریخ دانوں نے باغی لیڈروں کی طرف سے جاری کیے گئے تقریباً 74 پمفلٹ تلاش کیے ہیں۔ ان میں مقامی سرداروں، نوابوں، رانیوں، راجاؤں کی طرف سے جاری کردہ پمفلٹ اور دستاویزات شامل ہیں جیسا کہ منشور وغیرہ۔ یہ صرف 20 ویں صدی میں تھا کہ ساورکر نے چپاتی کو ایک علامت کے طور پر لکھا، لیکن کسی ایک بھی ذریعہ کا ذکر نہیں کیا۔‘

اور ابھی تک، اس واقع کی اکثر نوآبادیاتی تشریحات میں، ثبوتوں کی اس بہتات کو نظر انداز کیا گیا ہے اور صرف چپاتی اٹک کے رہ گئی ہے۔ کچھ تاریخ داں سمجھتے ہیں کہ نوآبادیاتی طاقتوں نے جان بوجھ کر لکھے ہوئے ثبوتوں کو فراموش کیا ہے تاکہ باغیوں کی تحریک کی پیچیدگیوں کو سنکی باتیں کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ باغیوں کی تشویش کو دبانے اور غیر قانونی قرار دینے کا ایک اور طریقہ بن گیا تھا

سنہ 1857 کے واقعات برِصغیر میں برطانوی راج کو مکمل طور پر دوبارہ ترتیب دینے کے لیے تھے۔ اس کے بعد کے برسوں میں انگریزوں نے تیزی سے اپنے نگرانی کے نیٹ ورک کو پورے ملک میں پھیلایا۔ انہوں نے 1878 کے ورناکولر پریس ایکٹ، جسے گیگنگ ایکٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جیسے خارجی قوانین منظور کر کے مزید بغاوتوں کو روکنے کے لیے خود کو مضبوط کیا

اس کا مقصد ہندوستانی زبانوں میں شائع ہونے والے اخبارات کو برطانوی پالیسیوں پر تنقید کرنے سے روکنا تھا، اور یہ صرف مقامی ہندوستانی میڈیا پر ہی لاگو تھا

سو یہ وہ سال تھا جو ایک بیچاری چپاتی کے پھیلاؤ سے شروع ہوا اور اس نے ایک ایسی شدت کو جنم دیا، جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے خاتمے کا سبب بنی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close