اسکول سے واپسی پر اپارٹمنٹ کے سامنے میدان میں کار پارک کر کے میری متلاشی نظریں بلی کی کھوج میں تھیں تاکہ لنچ باکس میں اہتمام سے رکھی ہوئی ہڈیاں اور چوتھائی بچی ہوئی سینڈوچ اس کی پیٹ پوجا کا ذریعہ بن سکے۔ مجھے دور عمارت کی سائیڈ کی پتلی گلی میں گوہرِ مقصود نظر آیا اور میں نے نور کا ہاتھ پکڑ کر ادھر کی دوڑ لگا دی۔ جیسے ہی ریمبو (سفید بلا) کی نظر ہم لوگوں پر پڑی اس نے خیر مقدمی میاؤں کی۔ یہ محلے کا آوارہ اور بَلا کا لڑاکا بِلا تھا، اس لیے اس کا نام ریمبو رکھ دیا تھا.
ریمبو اب اس طرح کی ضیافت کا عادی ہو چلا تھا۔ میں جب ٹفن باکس اس کے آگے خالی کر کے پلٹی تو کونے میں دیوار کی اوٹ میں مجھے ایک آدمی دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپے بلکتا نظر آیا.
دل تو چاہا کہ رک کر ماجرا پوچھوں، مگر کچھ اپنی جھجھک اور کچھ اس کی شرمندگی کا خیال کر کے سیدھے نکلتی چلی گئی ۔ جانے کیوں ہمارے یہاں مردوں کے رونے کو کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے، بھئی دل ایک آبگینہ ہی تو ہے.. ٹھیس لگے گی تو چھلکے گا بھی اور پھوٹے گا بھی.. اس میں مرد کیا اور عورت کیا؟
اس کو دکھی دیکھ کر دل خراب ہو گیا۔ اس کے جسم پر کنسٹرکشن والوں کی مخصوص وردی تھی اور اس سے تو یہی اندازہ ہوتا تھا کہ وہ قریبی زیرِ تعمیر عمارت کا ہی مزدور ہے اور لنچ کے وقفے میں یہاں کونے میں منہ چھپا کے اپنا غم منا رہا ہے۔ پتہ نہیں گھر سے کیسی خبر آئی ہے؟
پردیس کا دکھ اور اکلاپے کے آزار سے اللہ سب کو محفوظ رکھے… یہاں تو رونے والوں کو کندھا بھی میسر نہیں۔
شام تک وہ میرے اعصاب پر سوار رہا۔ میاں (حسیب) آئے تو ان کو بھی یہ بات بتائی۔ وہ بھی ذرا دکھی ہو گئے اور پھر بھاپ اڑاتی چائے کے ساتھ پرایا غم بھی دھواں ہو گیا.
میرا نام امبر ہے اور پچھلے چار سالوں سے ہم لوگ صحرا نشین ہیں۔ میں، میرے میاں اور بیٹی نور، شارجہ میں الخان میں رہتے ہیں۔ اس علاقے کی سب سے بڑی خوبصورتی اور افادیت یہ کہ، یہ ہے کہ سمندر سے صرف دس منٹ کی واک پر ہے۔ کراچی والوں کو بھلا اور کیا چاہئے؟
سمندر اور پکوان کراچی کے ٹریڈ مارک ہیں…
کراچی! میرے شہر دلبرا کی اور بھی بہت خوشنما دلربائیاں تھیں مگر سیاست کے مکروہ ہاتھوں نے میرے محسن و حسین شہر کی خوشنمائی اور سکون کو تاراج کر دیا ہے۔ اب
کراچی ابتری اور افرا تفری کی مثال ہے۔ کراچی کی فریاد سننے کو کوئی تیار نہیں۔ وہ فراخ دل شہر جس نے سب کو سمیٹا، پر اب اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔
میاں بینک میں ملازم ہیں اور میں امریکن اسکول میں پڑھاتی ہوں۔ بیٹی پری اسکول میں۔ دونوں عمارتیں (میرا اسکول اور بیٹی کا پری اسکول) چونکہ متصل ہیں اس لیے لنچ کا وقفہ بیٹی کے ساتھ ہی بسر ہوتا ہے۔ گھر آتے آتے ڈھائی بج جاتے ہیں۔ اسکول گھر سے بارہ منٹ کی ڈرایو پر ہے۔
ہم دونوں کی کمائی ملا کر ٹھیک ٹھاک ہے پر شاید اب برکت اٹھ گئی ہے. پوری ہی نہیں
پڑتی۔ وہی رونا ” ہائے اللہ سر کھلا”۔ کیا امیر کیا غریب سب کی ایک ہی دھائی ہے۔ گویا
ننگا نہائے کیا اور نچوڑے کیا۔
میرے ماں باپ حیات نہیں سو میکہ بھی
نہیں۔ ایک بہن اور بھائی اور دونوں کینڈا میں سیٹل بلکہ ہم لوگ بھی امیگریشن فائل کرنے کا سوچ رہے تھے، بس چھوٹی نند کی شادی کا انتظار تھا کہ خیر سے اس کی ذمہ داری سے فارغ ہو جائیں تو پھر ہم لوگ اور ممی بھی کینڈا نکلنے کی کریں۔
میرے گھر پہچنے کے ایک گھنٹے بعد حسینہ میری بنگالی کام والی آتی ہے۔ اس کے ذمہ صفائی اور کپڑوں کی استری تھی۔ ویسے بھی ان دنوں میرے علاقے میں کنسٹرکشن ہو رہی تھی سو ہمہ وقت گرد و غبار کا بادل ہی منڈلاتا رہتا تھا۔ ابھی ڈسٹینگ کر کے فارغ ہو، دو گھنٹے بعد ہر چیز پھر گرد سے اٹی ہوئی ملتی ۔ شام کے وقت میں کھڑکی کھولے بغیر نہیں رہ سکتی۔ مستقل A.C سے مجھے گھٹن ہونے لگتی ہے سو مجھے تازہ کھلی ہوا لازمی درکار۔ حسینہ ہفتے میں تین دن آتی۔ وہ درمیانے قد اور مسکراتے چہرے کی اچھی
ملیح خاتون۔ بولنے کا خبط۔ کئی دفعہ ٹوکنا پڑتا ۔ ایکھون چپ کورو ماں ، آمی کاج کورتا سی۔( اب چپ ہو جاو، ہم کام کر رہے ہیں)۔ پر اللہ کی بندی دس منٹ کا وقفہ لیتی اور پھر شروع۔ میرے ہزاروں بکھیڑے۔ آتے ہی نماز سے فارغ ہو کر کچھ الٹا سیدھا کھانا، نور کو نہلایا، پھر اس کو سلا کر مشین میں دھونے کے لیے کپڑے ڈالنا۔ کھانے کی تیاری اور ساتھ ساتھ ذہن ڈیلی لیسن پلان کی تیاری میں
مشغول۔ کام کا ایک تسلسل ہے۔ مصروفیت کا یہ عالم کہ فون پر بھائی بہن یا ممی سے تفصیل سے بات کئے بھی مہینوں بیت جاتے ہیں۔ زندگی کیا تھی گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔ ذرا ادھر ادھر ہوئے اور ساری روٹین تتر بتر ۔
یہاں شارجہ میں اسکول کا ایڈمنسٹریشن مانو ٹرمینیشن لیٹر ہاتھ میں لئے ہر گھڑی تیار
کہ کوئی چوک ہو اور آپ کو باہر کا راستہ دکھایا جائے۔ میرا اقامہ تو میرے میاں کے ساتھ ہے ورنہ جو بیچاری ٹیچرز اسی ملازمت پر ہائر ہو کر آئی تھیں ان کو تو باقاعدہ کانپتے دیکھا ہے۔ یقین کیجیے مڈل ایسٹ میں نوکریاں مورڈن سلیوری کی اعلی مثال
ہیں۔ ہم لوگوں کی حثیت بلکل غلاموں والی ہے۔ کبھی استاد معظم اور محترم ہوا کرتے تھے اب تو ان کی اوقات ریوڑیوں اور بتاشوں سے بھی کم تر ہے۔
جب رسد طلب سے زیادہ ہو تو نا قدری اور بے توقیری نصیب ٹھہرتی ہے۔ ڈیلی لیسن پلان اور وکیلی لیسن پلان کی مشقت ایک طرف اور غیر مہزب اور اجڈ بچے، خاص کر لوکل بچوں کی بدتمیزیاں الاماں الاماں! اس پر استاد پابند سلاسل۔ یعنی ہاتھ پیر باندھ کے سمندر میں دھکا دے دو۔
حسینہ کی بھی ایک کہانی ہے۔
حیسنہ ویسے تو بہت ہنستی ہنساتی ہے مگر ہے بہت دکھی۔ برسوں پہلے بنگلہ دیش میں آنے والے سیلاب میں، اس کا میاں سانپ کے کاٹے سے مر گیا تھا۔ حسینہ کی ماں اور حسینہ کی بیٹی روپالی بچیں۔ حسینہ نے بہت مشکل سے پائی پائی جوڑ کر اور زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا بیچ کر ایجنٹ کو پیسے دیے اور شارجہ کا ویزہ لیا۔ اب یہاں وہ دن رات مشقت کرتی ہے اور کھلنا پیسہ بھیجتی ہے تاکہ بیٹی اچھے سے پڑھ لکھ سکے۔ حسینہ کا بس ایک ہی خواب ہے کہ بیٹی ڈگری کر لے پھر اس کی شادی ہو جائے اور اس خواب کے حقیقی روپ کے دھارن کے پیچھے حسینہ نے اپنا آپ مٹی کر لیا ہے۔
یہاں جب ہم کنسٹرکشن ورکر اور ڈلیوری کرنے والوں کو دیکھتے ہیں تو دل خوں کے آنسو روتا ہے۔ محنت تو ہر شخص ہی کر کرہا ہے۔
کسی کا کام بھی آسان نہیں پر پچاس ڈگری سنٹی گریڈ سے بھی اوپر درجہ حرارت میں کام! گرمی بھی ایسی شدید کہ چیل بھی گھونسلہ چھوڑ دے۔ ایسی گرمی میں سخت محنت بہت جوکھم کا کام ہے۔
انسان بال بچوں کے لئے اپنے پیاروں کے لیے کتنا جتن کرتا ہے، نہ کافی خوراک، کوئی میڈیکل سہولت نہیں۔ ایک کمرے میں دس، دس، بارہ لوگ ٹھسے ہوئے۔ گھر سے دوری، تنہائی کا عذاب الگ اور مرے پہ سو درے کفیل کا توہین آمیز رویہ۔ انسان کا اپنے انسان ہونے پر سے اعتبار ہی اٹھ جائے۔
ہماری بلڈنگ کے نیچے ایک ملباری ہوٹل تھا۔ اس کی زعفرانی چائے غضب کی ہوتی تھی۔ صبح اور شام پراٹھے بھی ملتے تھے. مزے کے تو بہت ہوتے تھے پر اتنی چکنائی ہضم کرنا مشکل تھا۔ پھر وزن جو بڑھتا تو بندہ مانند
ہشت پا ہی ہو جاتا۔ اس لئے میں تو مہینے میں ایک آدھ دفعہ ہی کھاتی تھی۔ حسیب کا البتہ پسندیدہ ناشتہ تھا اور ہر سنچیر کی روٹین ۔ حسیب کو یہ آسانی تھی کہ انہوں نے جم جوائن کی ہوئی تھی سو وہ اس قسم کی عیاشی کے متحمل ہو سکتے تھے۔ میں تو ہر دن، رات کے کھانے کے بعد ٹہلنے کا پکا پروگرام بناتی اور ہر رات تھک کر بےہوش بستر پر گر جاتی۔ کیسا ٹہلنا اور کدھر کا ٹہلنا۔ سارے ارادے وعدے ریت کی دیوار ثابت ہوتے اور پھر یہ وعدہ گرمیوں کی چھٹی تک قفل بند ہو جاتے۔ حسیب اکثر اپنی اسمارٹنس پر اتراتے تھے پر میں دونوں کانوں کا جائز استمال کرتے ہوئے سنی ان سنی کر دیتی۔
حسیب رات کے کھانے کے بعد ملباری سے زعفرانی چائے منگوایا کرتے تھے۔ اکثر جو شخص چائے لے کر آتا تھا بڑا خستہ حال سا ہوتا تھا۔ میرے خیال میں پاکستانی تھا۔
عجیب بے زار بے زار، متفکر
سا۔ ایک دن میں نے حسیب سے اس کے متعلق پوچھا بھی مگر وہ کہنے لگے تم کو کیا سب کے متعلق تجسس ہوجا تا ہے؟
ہو گا اس کا کوئی مسئلہ۔ یہاں کون ہے جس کے مسائل نہیں؟
بات ان کی بھی باون تولے پاو رتی سچی تھی۔
یہاں ہر شخص اپنی صلیب خود اٹھاتا ہے، اپنے آنسو خود پوچھتا ہے اور ” میں خیریت سے ہوں” لکھ کر خط ارسال کر دیتا ہے ، منی آڈر یا ڈرافٹ کے ساتھ۔ گھر والوں کو بھی منی آڈر کی زیادہ خوشی ہوتی ہے باقی باتیں اضافی ہیں۔ ضرورت کی عفریت نے بہت کچھ نگل لیا ہے۔ پیار اور قرار قصہ پارینہ ہوئے۔ اب بیشتر دل کی جگہ کیلکولیٹر اور جزبات اور ضروریات کی مول تول ہی ہے، پتہ نہیں ہم لوگ بدل گئے یا وقت بدل گیا؟
پر بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ایسا نقصان ہو گیا
ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔
آج کل حسینہ بہت سنجیدہ اور کچھ رنجیدہ سی لگ رہی تھی۔ ایک دو دفعہ میں نے پوچھا بھی کہ کیا بات ہے ؟
سب خیریت تو ہے؟
آج کل روپالی کی نہ تصویر دیکھا رہی ہو، نہ اس کی کوئی بات بتا رہی ہو؟
بس یہی کہتی، ” نا آپا آمی بھالو، تمی چینتا کورونا۔” ( نہیں، آپا ہم خیریت سے ہیں آپ فکر مت کیجیے۔) بات آئی گئ ہو گئ۔ مگر اس کا کام پر دھیان نہیں تھا۔ وہ بہت جان مار کر صفائی کرتی تھی مگر اب صفائی بھی بس کام چلاؤ تھی اور اس نے میرے عبایا کی آستین بھی استری کرتے ہوئے جلا دی تھی۔ پھر تین دن حسینہ غائب ہو گئ۔
نہ کوئی اطلاع نہ میسج۔
یا خدا! ایسی غیرذمہ دار تو وہ نہ تھی۔ فون
کا بھی کوئی جواب نہیں۔ بلڈنگ کے چوکیدار سے بھی پوچھا کہ اس کے ساتھ اگر کوئی دوسری ماسی آتی ہو تو اس سے حیسنہ کی خیر خبر لے۔ خدا جانے اس کا ایڈرس اور شناختی کارڈ کی کاپی کہاں رکھا گئ تھی۔ رات کھانے کے بعد دل جمعی سے ڈھونڈا تو شکر ہے کہ فلیٹ کے ایگریمنٹ کی فائل میں اس کے گھر کا پتہ بھی مل گیا۔ کل ویسے بھی جمعرات ہے سو میں نے پکا ارادہ کیا کہ اسکول سے واپسی پر اس کی خیریت لینے کا۔ اس کی کھولی آسانی سے مل گئ۔ وہ اور دو اور ماسیاں مل کر شئیر کرتی تھیں ایک کمرے کو۔ اسی کی ساتھی نے دروازہ کھولا اور ہمیں کو اندر لے آئی۔ عجیب تاریک سا کمرہ اور اس میں ٹمٹماتا ایک مدقوق سا بلب۔ حسینہ زمین پر بچھے گدے پر لیٹی تھی۔
کہنے لگی آپا تم کیوں بےبی کو لیکر آ گئ۔
میں آ جائے گی کام پر کل پرسو سے۔
میں نے کہا پر ہوا کیا ہے اللہ کی بندی؟
نہ کوئی میسج، نہ اطلاع، نہ فون اٹھاتی ہو۔ میں نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو وہ ٹھنڈی برف تھی چہرہ بھی پیلا پھٹک۔ عجب مردہ سی حالت۔
میرا تو دیکھ کے جی ہی الٹ گیا۔ کیا بیمار ہو؟
گھر میں تو خیریت ہے؟
بس ایک چپ۔
آپا آپ جاو ،ہم کل کام پہ آ جائے گی۔
چلو ٹھیک ہے میں چلتی ہوں۔ اپنا خیال رکھنا۔ میرا خود جی گھبرانے لگا تھا کہ وہ ماحول نور کے لیے باکل مناسب نہیں تھا۔ گھر آ کر میں نے حسیب کو کچھ نہیں بتایا کہ میرے غیر ذمہ دارانہ رویہ پر ان کا لیکچر شروع ہو جاتا، کیوں نور کو لیکر گئ، کچھ ہو جاتا تو؟
فلاں دھماں۔ میرا سر ویسے ہی درد سے پھٹ رہا تھا۔ ایک تو یہ حسیب بھی کسی کسی وقت زندگی سے بے زار کر دیتے تھے۔ ان کی
زبان کے آگے خندق اور بلا کے چٹورے۔
مجھے یاد ہے نور چھ ماہ کی تھی. اس کی طبیعت بھی زرا خراب تھی۔ اس کو ڈے کیر میں چھوڑتے ہوئے میں نے اس کی نینی کو بتا دیا تھا۔ اس نے نور کو غور سے دیکھا اور کہا کہ آج تو ٹھیک ہے لیکن اگر کل بھی طبیعت ٹھیک نہ ہوئی تو اس کو ڈے کیر مت لانا۔
میں نے کہا ٹھیک ہے۔ وہ دن ہی کچھ اوکھا
تھا۔ ایک ٹیچر نہیں آئیں تھیں ان کے دو پریڈ بھی میرے سر پڑ گئے۔ کوآرڈینیٹر نے بلا کر لیسن پلان میں میری ایک غلطی کی بھی نشان دہی کر دی تھی اور اس بھاگ ڈوڑ میں لنچ بھی نصیب نہیں ہوا تھا۔
سب مل ملا کر نتیجہ شدید سر درد اور طبیعت میں بے زاری اور چڑچڑاپن۔ گھر پہنچی تو نور بےچین، روئے جائے، روئے جائے۔ پیٹ کی مالش بھی کر دی، اسپنج باتھ بھی
دے دیا۔ الٹا لیٹا کر ہلکے ہاتھوں سے پیٹھ تھپتھپاتی رہی۔ سارے ٹوٹکے آزما لیے۔ بڑی مشکل سے شام چھ بجے اس کی طبیعت کچھ بحال ہوئی اور دودھ پی کے سو گئ۔ میں بھی وہیں آڑی ترچھی کب بےسدھ ہوئی خبر ہی
نہیں۔ آنکھ حسیب کے جھنجھوڑنے پر کھلی۔
کیا نشہ وشہ کرنے لگی ہو؟
کب سے اٹھا رہا ہوں۔
پہلے تو کچھ سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے؟
دن ہے کہ رات ہے؟
پھر ابھی انہیں تفصیل بتانے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ کہنے لگے، جلدی سے کھانا لگاو سخت بھوک لگی ہے۔ آج دن میں باس سے منہ ماری ہو گئ تھی، اس چکر میں لنچ بھی گیا۔ میں نے کہا کھانا تو پکایا ہی نہیں ہے۔ نور کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسی کے ساتھ لگی رہی اور وہ سوئی تو میری بھی آنکھ لگ گئ۔
یہ سنتے ہی حسیب تو آپے سے باہر ہو گئے۔ کیا بدسلیقہ عورت ہے۔ انسان آرام کے لئے کماتا ہے اور یہاں آرام تو دور کی بات وقت پر کھانا بھی نصیب نہیں ہے ۔ گدھے کی طرح کام کرو اور مہارانی صاحبہ پلنگ توڑ رہیں ہیں۔ میں تو بے یقینی سے انہیں دیکھتی رہ گئی۔ جب ان کی بک بک میں وقفہ آیا تو میں نے کہا کہ کھانا آڈر کر دیجیے، یہ کوئی ایسی بڑی بات تو نہیں ہے۔
ہاں میں تو درخت سے درہم توڑ رہا ہوں نا؟
تم بیٹھی اڑاتی رہو۔ اس قدر فضول اور واہیات بولے اس دن حسیب کہ میں تو دنگ رہ گئ۔ یہ کوئی اور شخص تھا حسیب تو نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ کھانا آڈر نہیں ہو گا ،تم کو ہی پکانا ہے اور ایک گھنٹے کے اندر اندر پکانا ہے۔
اس تمام جھک جھک بک بک میں نور نے اٹھ کر پھر رونا شروع کر دیا۔ میں نے نور کو وہیں
بستر پر روتا چھوڑا اور کچن میں آ گئی۔ جلدی جلدی پلاو اور چکن پکایا . کمرے سے وقفے وقفے سے نور کے رونے کی آوازیں آتیں رہیں اور ٹی وی کا والیوم فل بلاسٹ پر تھا۔ اس شخص کی بےحسی اور اپنی بےبسی نے بلبلا کر رکھ دیا۔ کھانا ٹیبل پر لگا کر نور کو اٹھایا، معصوم بچی سسکیاں لے رہی تھی۔ حسیب کے لئے نفرت کی ایک شدید لہر میرے دل نے محسوس۔
نور کو فیڈ کرا کر کوٹ میں لیٹا یا اور میں نے باتھ روم کی راہ لی اور کپڑے سمیت شاور کے نیچے کھڑی ہو گئ اور باتھ روم کا ہر نل کھول دیا۔ دل بھر کر رو لیا، مگر نہ دل ہلکا ہوا نہ غبار نکلا ہاں البتہ سر کے درد میں ضرور افاقہ ہوا۔
توہین کے احساس نے جھلسا کے رکھ دیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد حسیب کا موڈ بلکل نارمل
تھا۔ اس شخص کے مزاج کی افتادی نے حیران
کرنے کے ساتھ ساتھ ڈرا بھی دیا تھا۔ کھانا سمیٹ کر فرج میں رکھا۔ خود میں اتنا غم و غصہ کھا چکی تھی کہ نہ کھانا کھانے کی گنجائش تھی اور نہ خواہش۔
رات کروٹیں بدلتے گزر ہی گئ۔ فجر کی نماز کے بعد شدید بھوک کا احساس ہوا۔ تقریبا بائیس گھنٹے گزر گئے تھے بغیر کچھ کھائے پئے۔ اپنے لئے دو پراٹھے اور دو انڈوں کا آملیٹ بنایا اور دو کپ گرما گرم چائے پی۔ اس اثنا میں نور بھی اٹھ گئ اس کو فیڈ کیا چینج کیا اور ہم دونوں ماں بیٹی سمندر کی طرف نکل گئے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے بیچ پر بیٹھ کر سمندر کو تکتی رہی اور بخارات کی پھوار سے روح کی ٹکور کی، پاوں تلے ٹھنڈی ریت نے روح کی تپش کو ایسے سرد کیا گویا
روح تک آ گئ تاثیر مسحائی کی۔
اس سے کافی آسودگی محسوس ہوئی۔ گھر
پر حسیب ابھی ابھی اٹھے تھے اور نہایت چونچال موڈ میں تھے۔ مجھ سے کہا کہ ذرا ملباری کو چائے پراٹھے کا آڈر تو دے دو پلیز ۔ میں نے حسب فرمان آڈر دے دیا اور آملیٹ بھی بنا دیا ۔ ناشتے کے بعد کل کے رویے کی معذرت کرنے لگے۔
میں نے کہا ہم دونوں کا کل کا دن خراب تھا. ہم دونوں نے دن کا کھانا نہیں کھایا تھا مگر اس طرح آپے سے باہر ہونا تو بہت ہی نامناسب
رویہ تھا۔ ہم لوگ اکثر باہر سے کھانا آڈر کرتے ہیں، کل ایسی کون سی قیامت تھی کہ گھر میں کھانا پکنا ضروری تھا۔ خیر حسیب کی طرف سے معافی تلافی ہوتی رہی مگر دل پر خراش پڑ گئ تھی. دو سالہ ازدواجی زندگی کی پہلی گرہ..۔ ہماری پھوپھی کہتی تھیں کہ میاں کا بھات کھانا لوہے کا چنا چبانا ہے۔ اس وقت ہم لوگ الہڑ پنے سے ہنستے تھے کہ پھوپھی جان بھی کیسی بات کرتیں ہیں۔
اب احساس ہوا تھا کہ کتنا صحیح کہتی
تھیں۔ جب آپ کی عزت نفس کی دھجی اڑائی جاتی ہے تو اس تکلیف کو انسان بیان کرنے سے قاصر ہے۔ خیر یہ سب شاید شادی شدہ زندگی کے پیکج میں شامل ہے۔ sanity برقرار رکھنے کے لئے تھوڑی بےحسی لازم ہے اور لڑکیوں کو چاہئے رخصتی سے پہلے لاڈ، نخرے اور عزت نفس کو ایک لفافے میں ڈال کر سربمہر کر دیں اور اپنے بک شلف میں موجود سب سے موٹی کتاب کے نیچے دبا دیں۔ پھر شادی شدہ زندگی یقینا قدرے آسان ہو جائے گی۔ چلیں اب ماضی کی کتھا بند کرتے ہیں۔
تین بجے کے قریب حسینہ آ گئ۔ تم آج کیسے؟
میں حیران تھی۔ آج تو جمعہ ہے چھٹی کا دن ۔
آپا تین چھٹی کر لیا تھا نا ،اس لئے آج آ گئ۔
مگر تم کو ہوا کیا ہے حسینہ؟
ٹھہرو تم نے کھانا کھایا ہے؟ جواب اس کے چہرے پر ہی لکھا تھا۔ میرا سوال ہی احمقانہ تھا۔ جلدی سے اس کو کھانا دیا ۔ اس نے بہت بےدلی سے کھایا۔ وہ اس قدر ٹوٹی اور بکھری ہوئی تھی کہ سچ مانو تو کچھ پوچھتے ہو ئے ڈر لگ رہا تھا۔ کھانا کھا کے پلیٹ کچن میں رکھنے گئ تو وہیں سے آواز دے کہ پوچھا آپا بھیا چائے پئے گے؟
میں نے کہا بھیا ہر وقت چائے پی سکتے ہیں بنا دو۔ حسینہ نے حسیب کو چائے دی اور ٹرے میں اپنی اور میری کپ لیکر لیونگ روم میں آ گئ۔ چائے پی کر کہنے لگی آپا آپ دوسرا ماسی ڈھونڈ لو ہم اگلے مہینے واپس بنگلہ دیش جا رہا ہے۔ میں خاموش رہی۔ پھر خود ہی ایک ٹرانس کی کفیت میں بولنے لگی
اب کس کے لئے محنت کروں۔ روپالی تو بھاگ گئ۔ اس کے پیچھے ہم نے اپنا جندگی مٹی کر دیا اور وہ ایک چھوکرا کی محبت میں ماں کو
لات مار کے چلی گئ۔ ہم اس کو پڑھا لکھا کر ایک عجت کا جندگی دینے مانگتی تھی۔ کیا کیا رے روپی، تو نے کیا کیا رے؟
سوب کھلاس کر دیا۔ اب کیا ہو گا؟
دو سال کے بعد ایک بچہ لے کے پھر ماں کے درواجے پر ہوگا اور کیا ہو گا۔ آج کل کے چھوکرا لوک کا بس یہی چار دن کا عاشقی ماشکی ہوتا ہے۔ ہم روپی کو کتنا بولی کہ پڑھ لے ماں مونی پڑھ لے ۔ جندگی بن جاتی۔ ماں کی طرح گھر گھر جھاڑو برتن تو نئی کرتی۔ پر نئی، اپنے آپ کو اجاڑ لیئے نا، ناس پیٹی نے۔ میرا جندگی بھر کا کمائی کھاک میں ملا دئیے۔
ہم اب کیا کرے آپا، بولو اب ہم کیا کرے؟
حسینہ کا بلکنا نہیں دیکھا جاتا ہے۔ اس کا خواب بکھر گیا تھا۔ وہ ایک خواب جو اس کو مہمیز رکھتا تھا، جو اس کی زندگی کی وجہ تھا وہی خواب چکنا چور ہو گیا۔ اس کو تسلی دیتی بھی تو کیا دیتی؟
میں خود نہیں جانتی تھی کہ روپالی جس کے ساتھ گئی ہے وہ واقعی مخلص ہے بھی کہ
نہیں۔ یہ محبت ہے یا صرف جوانی کا ابال ہے؟
زندگی بھی کیسی کیسی مار دیتی ہے۔
پھر حسینہ چلی گئ۔ دوسری کام والی آ گئی ، دنیا کا کاروبار کب رکا ہے۔ زندگی کھٹی میٹھی ٹافی کی طرح گھلتی جا رہی تھی شاید یہی اس کا حسن ہے۔ ایک دن وہی ملباری والا رات میں چائے دینے آیا تو میں نے اسے تازہ کھانا پیک کر کے دے دیا اور ساتھ ہی دس درہم بھی۔ اس کی آنکھوں کی حیرانی نے مجھے حیران اور شرمندہ کر دیا۔ کیا وہ انسانیت سے اتنا مجروح و مایوس تھا؟
پھر میں اکثر اس کو کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ دینے لگی۔ اب بھی اس کی آزردیگی اور بے زاری ویسے ہی تھی مگر سر جھکائے جھکائے سلام ضرور کر دیتا تھا۔ پھر ایسا ہوا
کہ رات میں اس جگہ دوسرا ڈیلوری مین آنے لگا۔ اس بات سے مجھے ذرا بےچینی ہوئی کہ وہ کہاں گیا؟
کیا ہوا اس کے ساتھ؟
اس کی اداسی نے میرے اعصاب میں اپنے پنجے گڑا دیے تھے اور میں واقعی اس کے بارے میں متجسس تھی۔ میری اس عادت سے حسیب کو سخت چڑ تھی، سو میں نے ان سے اس کا کھوج لگانے نہیں کہا۔
کل اسکول سے وآپسی پر اتفاق سے گل خان بلڈنگ کا چوکیدار مل گیا. اس سے ملباری کے ڈیلوری مین کے بارے میں پوچھا؟
وہ کہنے لگا باجی وہ تو ایک ہفتہ ہوا مر گیا۔ اس نے خودکشی کر لی۔ اس کا باپ بار بار پیسے کا تقاضہ کرتا تھا۔ اپنے باپ کی بات پورا کرنے کے لیے بیچارا دو دو نوکری کرتا تھا۔ صبح کنسٹرکشن سائیٹ پر اور رات میں ملباری ہوٹل میں۔ ہوٹل والا اس کے گاوں کا ہے
اس لیے اس کو رات میں ہوٹل میں سونے کی جگہ دے دیا تھا، مگر اس کے باپ کا پیسے کا ڈیمانڈ ہی ختم نہیں ہوتا تھا۔ اس کا باپ اس کو ہر وقت برا بھلا بولتا تھا. کہتا تھا کہ تم ہم سے پیسہ چھپاتا ہے. پورا پیسہ نہیں دیتا۔
تم باپ کا حق مارتا ہے، تم جہنم میں جائے گا۔ وہ بہت پریشان تھا۔ بیچارہ تو پیٹ بھر کر روٹی بھی نہں کھاتا تھا باجی۔ وہ بولتا تھا کہ وہ بس اب خوکشی ہی کر لے گا، زندہ تو باپ کے کام نہیں آ رہا۔ جب ہم حادثے میں مرے گا تو حکومت پیسہ دیےگی. چلو تب ہی باپ کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی۔ زندہ نہ سہی، مردہ بیٹا تو کام آوے۔
اس کا ایک چھوٹا بیٹا بھی ہے۔ اس کو یاد کر کے بہت روتا تھا۔ بس ہفتہ پہلے کام پر اس کو فورمین نے غصہ کیا اور گالی مالی بھی دیا بس وہ چھٹی منزل سے نیچے کود گیا۔ اب تو اس کا لاش بھی ڈیرہ غازی خان چلا گیا۔
مجھے تو چکر آ گیا۔ کس قدر سفاک دنیا ہے۔
کیسے ہیں ہم لوگ؟
انسان کو بےدست وپا کر کے اس سے جینے کا حق بھی چھین لیتے ہیں۔ اس کو اتنے کچوکے دیتے ہیں، اتنا زخم لگاتے ہیں کہ اس کو موت ہی راحت اور نجات دہندہ لگنے لگتی ہے۔
کیا ہم لوگ واقعی اشرف المخلوقات ہیں؟
یا اب گدھ سے بھی بدتر ہو گئے ہیں؟
گدھ بھی صبر سے اپنے شکار کی موت کا انتظار کرتا ہے۔ ہم لوگ تو زندہ انسان کو نوچ لیتے ہیں، گھائل کر دیتے ہیں۔ ان کو جیتے جی مار دیتے ہیں۔
میرے چارہ گر کو نوید ہو، صف دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکا دیا۔