شکاگو – طب کی دنیا سے ایک بڑی خوشخبری یہ ہے کہ تھیلسیمیا کے علاج میں بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے
ایک بین الاقوامی طویل تحقیق کے بعد جین تھراپی کی بدولت تھیلیسیمیا کے شکار بچوں میں معمول کے مطابق خون بننے لگا ہے
اچھی بات یہ ہے کہ اس طرح انہیں بار بار خون کی منتقلی کی ضرورت ختم ہوگئی ہے اور اب وہ معمول کی زندگی گزار رہے ہیں
یہ اہم اور بین الاقوامی تحقیق کئی برس تک جارہی رہی جس کے نتائج نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوئی ہے
ان نتائج کے مطابق فیز تھری کلینکل ٹرائل کے بعد 90 فیصد مریضوں میں جین تھراپی کے کئی برس بعد اب بھی تازہ خون کی ضرورت نہیں رہی اور وہ مکمل طور پر تندرست ہیں
تمام مریضوں کی عمر چار سے چونتیس برس تھی اور ان سب کو جین تھراپی سے گزارا گیا تھا، ان میں سے بارہ برس سے کم عمر کے نوے فیصد مریضوں کو تاحال ماہانہ بنیاد پر انتقالِ خون کی ضرورت نہیں پڑی ہے
شکاگو میں واقع این اینڈ رابرٹ ایچ لوری چلڈرن ہسپتال کی ماہر ڈاکٹر جینیفر شنائڈرمان بھی بین الاقوامی تحقیقی ٹیم کا حصہ ہیں
ان کے مطابق یہ تحقیق دس برس تک محیط رہی ہے، جس میں انتقالِ خون والے تھیلیسیمیا مریضوں کا جین تھراپی سے علاج کیا گیا ہے
واضح رہے کہ تھیلیسیمیا کے مریضوں کے خون میں ہیموگلوبن بننے کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔ مرض کی شدت میں مریض کو ہر ماہ خون کے سرخ خلیات کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن بار بار خون لگانے کے باعث تھیلیسمیا کے مریضوں کو فولاد کی زیادتی، انفیکشن اور دیگر تکلیف دہ کیفیات سے گزرنا پڑتا ہے
اس جین تھراپی میں خود مریض کے اسٹیم سیل لئے گئے اور انہیں تجربہ گاہ لے جایا گیا۔ اس کے بعد ایک تبدیل شدہ وائرس کی بدولت تھیلیسیمیا کی وجہ بننے والے خراب جین کی بجائے اس کی درست کاپیاں شامل کی گئیں
اس کے بعد تمام مریضوں کو ایک طرح کی کیموتھراپی سے گزارا گیا اور انہیں چار سے پانچ ہفتے اس مرحلے سے گزرنا پڑا
اس دوران کسی بھی گڑبڑ سے نمٹنے کے لیے ڈاکٹروں کی ٹیم چوکنا موجود رہی۔ اس کے بعد اسٹیم سیل بدن میں داخل کئے گئے
اگرچہ اس کے ایک ماہ بعد ہی مریضوں کی اکثریت کو بار بار خون کی منتقلی کی ضرورت نہ رہی، لیکن اس کے باوجود ڈاکٹروں نے تیرہ ماہ سے لے کر چار سال تک کئی مریضوں کا بار بار معائنہ کیا اور خون کے اندر تھیلیسیمیا کے ممکنہ خطرات کا مشاہدہ کرتے رہے
ان میں سے چار مریضوں پر تھراپی کے سب سے شدید اثرات دیکھے گئے ۔ جبکہ کچھ افراد نے خون کے سرخ اور سفید خلیات میں کمی سمیت، منہ میں چھالوں، بخار اور دیگر کیفیات کی شکایت کی
لیکن مجموعی طور پر نوے فیصد مریضوں میں تھیلیسیمیا غائب ہوگیا اور وہ خون کی منتقلی سے آزاد ہوگئے، جن میں اکثریت بچوں کی تھی.