اتر پردیش – بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی شمالی ریاست اتر پردیش کے انتخابات میں حصہ لینے والے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک سیاست دان کا کہنا ہے ”انہیں ووٹ نہ دینے والے ہندوؤں کی رگوں میں مسلمانوں کا خون ہوگا۔“
واضح رہے حکمراں جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے راگھویندر پرتاب سنگھ اتر پردیش کی قانون ساز اسمبلی کے رکن ہیں، وہ برازیل سے بھی زیادہ آبادی والی بھارتی ریاست میں ریاستی انتخابات کے لیے مہم چلا رہے تھے
پرتاب سنگھ نے اتوار کو بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی اس وڈیو میں دیے گئے اپنے بیان کی تردید نہیں کی، جس میں وہ ان ہندو ووٹرز کے خلاف دھمکیاں دیتے نظر آئے جو ان کی بجائے کسی اور جماعت کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہتے ہیں
وڈیو میں پرتاب سنگھ نے اپنی منطق جھاڑتے ہوئے کہا ”مجھے بتائیں، کیا کوئی مسلمان مجھے ووٹ دے گا؟ اس لیے جان لیں کہ اگر اس گاؤں کے ہندو کسی دوسری جماعت کا ساتھ دیتے ہیں، تو ان کی رگوں میں مسلمانوں کا خون ہو گا۔“
انہوں نے مزید کہا ”وہ غدار ہیں۔ اتنے مظالم کے بعد بھی اگر کوئی ہندو دوسری جانب جاتا ہے تو اسے عوام میں اپنا چہرہ دکھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔“
بی جے پی کے رہنما نے ووٹرز کو دھمکاتے ہوئے کہا ”اگر اس انتباہ پر دھیان نہیں دیا گیا تو میں سب کو بتا دوں گا کہ راگھویندر سنگھ کون ہے۔ میں اپنی توہین اور دھوکہ دہی برداشت کر سکتا ہوں لیکن میں ان لوگوں کو تباہ کر دوں گا جو ہندو برادری کی توہین کرنے کی کوشش کرتے ہیں“
واضح رہے کہ پرتاب سنگھ 3 مارچ کو ریاست میں سات مرحلوں پر مشتمل انتخابات کے آخری مرحلے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اس ریاست میں فرقہ وارانہ خطوط پر انتخابی مہم کی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں
پرتاب سنگھ ہندو انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والی نوجوانوں کی ’ہندو یووا واہنی‘ تنظیم کے بھی انچارج ہیں، جسے یوپی کے موجودہ ہندو قوم پرست وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 2002ع میں قائم کیا تھا
نوجوانوں کی اس تنظیم نے 2004، 2009 اور 2014 میں آدتیہ ناتھ کی انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا، جب موجودہ ریاستی وزیر اعلیٰ بھارت کے ایوان زیریں لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے مشرقی اتر پردیش کے دیہی علاقوں میں ہندوتوا کے انتہا پسندانہ پیغام اور بھارت میں ہندو بالادستی کے نظریے کو پھیلایا
2017ع کے انتخابات کے بعد ریاست میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس تنظیم کے یونٹس کو بی جے پی کی قیادت کے ان اندیشوں کے باعث منقطع کر دیا گیا کہ کہیں یہ بی جے پی کے مقابلے میں متوازی سیاسی تنظیم نہ بن جائے
اس وقت کے ایک اور وڈیو کلپ میں، جو آن لائن گردش کر رہا ہے، پرتاب سنگھ کی مسلم مخالف بیان بازی کو اپنے عروج پر دیکھا جا سکتا ہے
وہ کہتے ہیں ’مسلمانوں سن لو، اگر کسی ہندو کی توہین کی گئی اور اگر تم نے کسی ہندو لڑکی کی جانب نظر بھی اٹھائی تو میں تمہیں اتنا ماروں گا اور اتنی جگہوں سے کاٹوں گا کہ…‘ ان کی دھمکی کے باقی الفاظ ’جے شری رام‘ کے مذہبی نعروں کے درمیان گم ہو جاتے ہیں
معرف بھارتی صحافی دیپک شرما نے پیر کو ایک ٹویٹ میں اس وڈیو کو شیئر کرتے ہوئے پولیس کے ساتھ ساتھ بھارت کے الیکشن کمیشن سے بھی پرتاب سنگھ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ مقامی پولیس حکام نے اس ٹویٹ کے جواب میں صرف اتنا کہا، کہ ”ہم اس معاملے سے واقف ہیں“
بعد ازاں پیر ہی کو ان کے خلاف ڈومریا گنج پولیس تھانے میں مختلف برادریوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور مجرمانہ دھمکی دینے کے لیے مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی
اس معاملے پر مقامی انگریزی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کو دیے گئے ایک بیان میں پرتاب سنگھ نے تصدیق کی کہ وڈیو حقیقی ہے
لیکن ان کا کہنا تھا ”میرے الفاظ سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان گئے ہیں“
انہوں نے کہا ”میرا کسی کو دھمکی دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ کیا کوئی بھی سیاست دان ڈومریا گنج میں دھمکی دے کر الیکشن جیت سکتا ہے، جہاں تقریباً ایک لاکھ 73 ہزار مسلم ووٹرز ہیں جو رائے دہندگان کا تقریباً 39.8 فیصد ہیں“
یہ تاویل دیتے ہوئے پرتاب سنگھ کو شاید یہ یاد نہیں رہا کہ وہ اپنی تقریر میں انتہا پسندانہ مذہبی نظریات کی آڑ لے کر خود ہندوؤں سے مخاطب ہو کر انہیں دھمکا رہے تھے.