موجودہ حکومت کے تین سال مکمل ہوچکے اور یہ اپنے چوتھے سال میں ہے۔ گویا اس سال میں ہے، جب وزیر اعظم کو یہ باور کرانا لازم سمجھ لیا جاتا ہے کہ پانچ سالوں کی کوئی گارنٹی نہیں
ایک زمانے میں تو پوری اسمبلی کو باور کرایا جاتا تھا کہ پانچ برس کی مدت بس آئین کی حد تک ہے، عملی طور پر اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔ مگر نئی صدی میں یہ تبدیلی آئی کہ اب اسمبلی کو بخش دیا جاتا ہے، صرف وزیر اعظم کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دیئے جاتے
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی وہ تقریر کانوں میں گونج رہی ہے، جس میں انہوں نے نام لے لے کر گنوایا تھا کہ کس کس وزیر اعظم کے ساتھ کیا کیا ہوا تھا۔ اس تقریر کا خلاصہ بس اتنا ہی تھا کہ کسی بھی وزیر اعظم کو مدت پوری نہ کرنے دی گئی
اب دلچسپ حقیقت دیکھئے کہ ان کے تیسرے دور اقتدار سے قبل والے وزیر اعظم کی مدت پوری نہ ہونے میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔ اور اب اپنے اس تیسرے دور اقتدار کے بعد والے وزیر اعظم کی مدت کو بھی وہی لاحق ہونے جا رہے ہیں
یہاں یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ موجودہ وزیر اعظم کو تو اسٹیبلیشمنٹ لائی ہے۔ مگر یہ کہنا بھی تو غلط نہیں کہ خود میاں صاحب کو بھی پہلی بار اسٹیبلیشمنٹ ہی لائی تھی۔ اگر تب اسٹیبلیشمنٹ کا ہی انہیں بے دخل کرنا جرم تھا تو اب یہ درست کیسے ہوسکتا ہے؟
اگر میاں صاحب کے پچھلے گناہ اس لئے معاف ہوسکتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ اسٹیبلیشمنٹ کے حریف ہوگئے تھے، تو یہی کارنامہ تو خان صاحب بھی انجام دے چکے۔ اور اسی کی سزا بھگتنے جا رہے ہیں
شاید میاں صاحب کو بھی اندازہ ہے کہ ایک بار پھر اسٹیبلیشمنٹ کا دست و بازو بننا آگے چل کر ان کے گلے کی ہڈی بن جائے گا۔ مؤرخ ہی نہیں بلکہ مستقبل کا تجزیہ کار بھی یہی لکھے گا کہ ”اور پھر میاں صاحب نے ایک بار پھر اسٹیبلیشمنٹ سے ساز باز کرکے ایک اور وزیر اعظم کو بھی مدت پوری نہ کرنے دی۔“
چنانچہ اسی کے تدارک کے طور پر اس بار نون لیگ خود بار بار یہ بات دہرا رہی ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ نیوٹرل ہوچکی، سیاست کا ادنٰی ترین شعور رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ اسٹیبلیشمنٹ کبھی بھی نیوٹرل نہیں ہوتی۔ وہ بس وقت اور حالات کے مطابق مہرے اور پوزیشن بدلتی ہے۔
کسی گھر کا چوکیدار اگر عین ڈکیتی کے موقع پر کچھ دیر کے لئے ادھر ادھر ہوجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ نیوٹرل ہوگیا تھا بلکہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سہولت کاری کر رہا تھا۔ اس نے اپنی سیکیورٹی والی بندوق تو مالک پر نہیں تانی مگر راستہ ڈاکوؤں کے لئے خالی چھوڑ دیا تھا
سوال یہ ہے کہ نون لیگ کا ”ووٹ کو عزت دو“ کی جگہ اختیار کردہ یہ بیانیہ کہ ”اسٹیبلیشمنٹ نیوٹرل ہو چکی“، سب سے زیادہ کس کے مفاد میں جاتا ہے؟ ظاہر ہے اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں… کیونکہ اس بیانیے کی برکت سے آنے والے زمانے کے جنرل صاحب یہ کہتے پائے جائیں گے کہ عمران خان کو نکلوانے میں ہمارا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ وہ تو سیاستدانوں کے اپنے کرتوت تھے!
وہ شاید میاں صاحب کو تجویز بھی دیں کہ وہ جو آپ فرماتے تھے کہ ہر وزیر اعظم کو ہم نے ہی نکالا، اس میں اب یہ ترمیم ضرور فرما لیجئے کہ عمران خان کی مدت پوری نہ ہونے میں اسٹیبلیشمنٹ کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ وہ تو نیوٹرل ہوچکی تھی
اس مقام پر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ”ہر“ وزیر اعظم کو ہم نے نکالا۔ اور اس کا سائڈ ایفیکٹ یہ ہوگا کہ مستقبل کا دفاعی تجزیہ کار ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر سوال اٹھائے گا کہ اگر وزیر اعظم کو مدت نہ پوری کرنے دینا اسٹیبلیشمنٹ کا اتنا ہی بڑا گناہ تھا کہ میاں صاحب نے اس پر ایک معرکۃ الآراء تقریر بھی فرمالی تھی تو پھر وہی گناہ خود کیوں فرما لیا؟
تب شاید اس زمانے کا احسن اقبال یہ کہے کہ سیاستدان اگر کسی حکومت کو چلتا کردیں تو یہ عین سیاسی اور جائز عمل ہوتا ہے۔ انہیں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اسٹیبلیشمنٹ کو کوئی حق نہیں کہ وہ سیاست میں دخل دے۔ اور وزرائے اعظم کو چلتا کرے۔ تب جواب دینے والا جواب دے گا کہ اگر وہ سیاسی عمل تھا تو اس عمل کے لئے یہ مطالبہ کیوں تھا کہ اسٹیبلیشمنٹ ذرا نیوٹرل ہوجائے؟
آپ نے تو 2017ع میں تہیہ کر لیا تھا کہ اب اسٹیبلیشمنٹ ہی آپ کا ہدف ہوگی۔ اس ہدف کو فتح کرنے کے بجائے آپ 2021ع میں اس سے نیوٹرل ہونے کے مطالبے پر کیوں چلے گئے تھے؟ اب اس کا جواب بہت ہی تکلیف دہ ہے۔ کیونکہ درست جواب یہی ہے کہ سب ڈرامہ تھا، سب اسٹیبلیشمنٹ کو اپنے حق میں رام کرنے کے جتن تھے
عمران خان نے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے لئے جرنیلوں کے انٹرویوز کر ڈالے تو نون لیگ کی لاٹری نکل آئی۔ اور وہ راتوں رات ”ووٹ کو عزت دو“ کے بجائے اس بیانیے کی جانب چلی گئی کہ ”اسٹیبلیشمنٹ نیوٹرل ہوچکی۔“
سچ یہ ہے کہ وہ نیوٹرل نہیں بلکہ عمران خان کے خلاف ہوچکی۔ خان صاحب انٹرویوز والی غلطی نہ کرتے تو یہ نیوٹرل ہوتی؟ اگر وہ واقعی نیوٹرل ہوچکی تو پھر لندن میں کچھ اہم ملاقاتوں کا ذکر کیسے چل رہا ہے؟ نیوٹرل ہونے والا تو بس چپ چاپ نیوٹرل ہوجاتا ہے۔ وہ کسی کو یقین دہانیاں نہیں کراتا
یقین دہانیاں کرانے کی نوبت اسی لئے تو آئی ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ فوراً خان کا بوریا بستر گول دیکھنا چاہتی ہے۔ اگر وہ یقین دہانی کرائے بغیر حقیقی معنی میں چپ چاپ نیوٹرل ہوگئی تو اپوزیشن کو تو اس کے ادراک میں ہی ڈیڑھ سال بیت جائے گا۔ جبکہ وقت ضائع نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا گستاخ وزارت عظمیٰ کے منصب پر برداشت نہیں کیا جاسکتا جسے انٹرویوز لینے کا شوق ہو
پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کی خواہش ہر طرف پائی جاتی ہے۔ سو ادھر بھی ہے اور پوری شدت کے ساتھ ہے۔ مگر یہ خاتمہ ایک مکمل آزاد سیاسی سرگرمی نہیں۔ اگر یہ مکمل آزاد سیاسی سرگرمی ہوتی تو اس میں اسٹیبلیشمنٹ کا ذکر ہی نہ ہوتا۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ کسی اپوزیشن رہنماء سے پوچھا جائے ”تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی امید کتنی ہے؟“ تو وہ اپنے سیاسی داؤ پیج نہیں گنواتا بلکہ کہتا ہے ”اسٹیبلیشمنٹ نیوٹرل ہوچکی“
حد ہے اور بے حد ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپوزیشن اس بے اثر جنس کا نام ہے، جو تاریخ کی سب سے ناکام حکومت سے بھی عوام کی جان اسی صورت چھڑا سکتی ہے، جب اسٹیبلیشمنٹ نیوٹرل ہو
پولیٹکل سائنس کے نصاب میں اب یہ ترمیم بھی کر دینی چاہئے کہ سیاسی نظام میں اپوزیشن سیاستدانوں کے اس گروہ کو کہتے ہیں جو اسٹیبلیشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کی صورت میں حکومت سے عوام کی جان چھڑاتا ہے
بہرکیف اس حکومت کا جانا نوشتہ دیوار ہی ہے۔ اگر اپوزیشن نے اسٹیبلیشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کی قدر نہ کی، تب بھی یہ حکومت رہے گی نہیں بلکہ جائے گی۔ فرق بس اتنا آئے گا کہ نئے حالات میں اسٹیبلیشمنٹ کو فوری طور پر اپنی نیوٹریلٹی ختم کرنی پڑ جائے گی
سو لڈو کھانے کے دن تو تقریباً سر پر ہی آ پہنچے ہیں۔ حکومت اتنی بدتر ہے کہ اس کے جانے پر زندگی میں پہلی بار ہم بھی لڈو بانٹتے، مگر جو کھسری اپوزیشن اس بار دیکھنے کو ملی ہے، اس کے ہوتے لڈو بانٹنا مذاق ہی لگتا ہے
یہ تو ایسا ہی ہوگا کہ ساڑھے تین سال سے جیل میں قید سردار اپنے ہاں بچے کی پیدائش پر لڈو بانٹے۔ سو ہمارا لڈو بانٹنے کا کوئی ارداہ نہیں۔ ہاں! کوئی سردار بانٹتا بانٹتا، ہم تک بھی آ پہنچا تو اس کا لڈو کھائیں گے ضرور… مگر مبارکباد اسے بھی نہ دیں گے۔ اسے کس بات کی مبارکباد؟ مبارکباد کا مستحق تو وہ ہے جو اس کی جیل میں موجودگی کے دوران نیوٹرل ہوگیا!
بشکریہ ایم ایم نیوز