ایک بنجر جزیرے کی کہانی، جسے کچھ ہی سالوں میں آباد کر کے ماحولیاتی بحالی کی مثال بنایا گیا!

ویب ڈیسک

یہ سچ ہے کہ انسان کچھ کرنے کی ٹھان لے تو اپنی ہمت سے وہ کچھ کر جاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔۔ انسان نے اپنی ہمت کی ایک ایسی ہی داستان ایک غیر آباد چھوٹے کیریبئن جزیرے پر بھی رقم کی ہے

اس جزیرے کی ناقابل یقین ماحولیاتی بحالی نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ دنیا بھر کے ماحولیاتی ماہرین صرف چند سالوں میں ایک ویران چٹان کو جنگلی حیات کے لیے سرسبز پناہ گاہ میں تبدیل کرنے کے عمل کو ایک اعلیٰ مثال قرار دے رہے ہیں

یہ کارنامہ اینٹیگوا اور باربوڈا کے سخت باشندوں نے سرانجام دیا ہے، جنہوں نے ملک میں تیسرے نمبر پر واقع غیر معروف جزیرے ’ریدوندا‘ کے میٹامورفوسس کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اب وہ ایک اور اہم کارنامے کا جشن منا رہے ہیں

ایک کلومیٹر سے بھی چھوٹے علاقے کو ملک کی حکومت نے باضابطہ طور پر ایک پروٹیکٹڈ یعنی ’محفوظ علاقہ‘ قرار دیا ہے، جہاں پر کسی قسم کی تعمیرات اور کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ اس کا مقصد یہاں ہجرت کر کے آنے والے پرندوں اور نایاب انواع کے لیے اس جزیرے کو محفوظ مسکن اور پناہ گاہ بنانا ہے، جو اور کہیں نہیں

ریدوندا ایکو سسٹم ریزرو، جو سمندری گھاس کے میدانوں اور ایک مرجان کی چٹان کو بھی گھیرے ہوئے ہے، اس وقت تیس ہزار ہیکٹر پر محیط ہے

اس بڑے حجم کا مطلب ہے کہ ملک نے پہلے ہی اپنا 30×30 کا ہدف پورا کر لیا ہے، جو کہ سنہ 2030ع تک کرہ ارض کے 30 فی صد حصے کو محفوظ بنانے کا عالمی ہدف ہے

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ریدوندا حیاتیاتی تنوع سے بھرپور ہے۔ معدومیت کے خطرے سے دوچار درجنوں انواع، نایاب سمندری پرندے اور مقامی چھپکلیاں یہاں لوٹ آئی ہیں

لیکن ریدوندا ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ رینگنے والے جانوروں اور پرندوں کے انڈے کھانے والے کالے چوہوں اور ابتدائی آباد کاروں کے بکروں نے اس جزیرے کے پودوں کو تباہ کر دیا تھا۔ یہ جزیرہ چاند کی بنجر سطح جیسا نظر آنے لگا تھا

بکروں کو کہیں اور منتقل کرنے اور چوہوں کے خاتمے کے لیے سنہ 2016 میں شروع کیے گئے ایک خاص منصوبے نے پھر سے اس جزیرے کو سرسبز کر دیا، جس کی وجہ سے مقامی انواع میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا

اس منصوبے کو غیر سرکاری تنظیم انوائرمنٹل اویئرنس گروپ (ای اے جی) نے حکومت اور غیرملکی پارٹنرز جیسے فاؤنا اور فلورا انٹرنیشنل کے تعاون سے پروان چڑھایا

اس این جی او کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر آریکا ہل نے زون کی نئی حیثیت کو ’اینٹیگوا اور باربوڈا کے باشندوں کے لیے ایک عظیم فتح‘ قرار دیا

آریکا ہل کہتی ہیں ”یہ مشرقی کیریبئن کا سب سے بڑا سمندری تحفظ والا علاقہ ہے اور یہ وہ ناقابل یقین کام اس بات کی وضاحت کرتا ہے تحفظ پسند اور ماہرین ماحولیات کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے قانونی طور پر اس کام کے لیے ہم پر اعتماد کیا“

اس گروہ نے کئی سال قبل ریدوندا میں پائی جانے والی متعدد انواع کو دوبارہ متعارف کرانے پر تحقیق کرائی تھی۔ ان انواع میں الوؤں کی ایک نسل اور زیرِ زمین گھونسلا بنانے والے پرندے شامل ہیں

اب یہاں ایسا مضبوط نظام بھی متعارف کرایا جائے گا، جس سے جزیرے پر معدومیت کے خطرے سے دوچار انواع کو تحفظ فراہم کیا جا سکے، جیسے کیمروں کی مدد سے چوہوں پر نظر رکھی جائے گی اور مچھلیاں پکڑنے کے خلاف سخت پابندی ہوگی

فلورا اینڈ فاؤنا انٹرنیشنل کی جینی ڈیلٹری نے کہا کہ کیریبئن جزیرے پر جدید تاریخ کی سب سے زیادہ معدومیت کی شرح ہے، یعنی ریدوندا پر بحالی اور تحفظ کے اقدامات نہایت ضروری ہیں

خوش آئند بات یہ ہے کہ بحالی کے اقدامات کی شروعات سے اب تک پندرہ اقسام کے پرندے جزیرے پر واپس آچکے ہیں جبکہ ریدوندا کی ’لینڈ ڈریگن‘ چھپکلی کی تعداد بھی کافی بڑھ چکی ہے

ای اے جی کی شانا چیلنجر نے کہا ”مقامی باشندے ان اقدامات کے حق میں اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ ہمارا چھوٹا جزیرہ، جسے کئی لوگوں نے اب تک نہیں دیکھا، قومی فخر بن گیا ہے۔۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے اس کام کے لیے کلیدی کردار ادا کیا“

چھوٹے جزیروں کے اعتبار سے، جو ماحولیاتی تبدیلی کا شکار رہے ہیں، ریدوندا کی کامیابی ماحولیاتی تحفظ کی امید کو اجاگر کرتی ہے

شانا چیلنجر کہتی ہیں ”ہم اہداف پورے کر کے دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ یہ ممکن ہے۔ ہم کاربن خارج نہیں کرتے مگر اس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور اس کے باوجود ہم نے جلد اپنے اہداف حاصل کیے۔۔ مجھے امید ہے کہ اس سے دیگر ممالک کو سبق ملے گا۔ اگر اینٹیگوا اور باربوڈا کر سکتے ہیں تو باقی بھی کر سکتے ہیں“

ماحولیاتی ماہر جونیلا بریڈشا کے لیے یہ کامیابی ذاتی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ کہتی ہیں ”اسکول کے دنوں میں بچپن میں ماحولیات کے شعبے میں کیریئر بنانے کا کوئی نہیں سوچتا۔ ہمیں ڈاکٹر، ڈینٹسٹ یا وکیل بننے کا کہا جاتا ہے۔ جب آپ ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپ کو اکثر امریکہ یا یورپ کا خیال آتا ہے، کیریبئن کے کسی چھوٹے جزیرے کا نہیں۔ اب ہم تحفظ کی بین الاقوامی کوششوں میں سرِفہرست ہیں۔ اب ہم اپنی نوجوان نسل کو یہ بتانے کے قابل ہیں کہ ہم بھی یہ کر سکتے ہیں“

جونیلا کو یقین ہے کہ یہ کام صرف کاغذات پر ہی نہیں بلکہ حقیقت میں بھی جاری رہے گا۔ انہیں معلوم ہے کہ ملک مستقبل میں بھی شدید موسمی حالات کا شکار ہوگا۔ چھ سال قبل باربوڈا میں سمندری طوفان سے تباہی ہوئی تھی۔ سمندروں میں درجہ حرارت بڑھنا خطے کے کئی جزیروں کے لیے خطرے کا باعث ہے۔

وہ کہتی ہیں ”آپ ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتے درجہ حرارت اور طوفانوں کے بارے میں سنتے ہیں مگر ہم اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ گرمیاں بہت بُری رہی ہیں۔ اس بار شدید گرمی پڑی۔ اگر ہم اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے تو تبدیلی لا سکتے ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close