بھارتی سپریم کورٹ نے فلم ساز سنجے لیلا بھنسالی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے جلد ریلیز ہونے والی فلم ’گنگو بائی کاٹھیا واڑی‘ کا نام تبدیل کریں۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق سنجے لیلا بھنسالی کی فلم ’گنگو بائی کاٹھیا واڑی‘ کے خلاف سپریم کورٹ سمیت ملک کی دیگر عدالتوں میں متعدد درخواستیں دائر کی گئی ہیں اور اعلیٰ عدالت نے تاحال حتمی فیصلہ نہیں سنایا۔
عدالت نے فلم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعتیں کرتے ہوئے فلم کی ٹیم کے وکلا کو مشورہ دیا کہ وہ فلم کا نام تبدیل کرلیں۔
فلم کی ٹیم کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ وہ عدالتی ریمارکس سے متعلق فلم ساز کو آگاہ کرتے ہوئے فلم کا نام تبدیل کردیں گے۔
عدالت نے ’گنگو بائی کاٹھیا واڑی‘ کے خلاف دائر کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی جب کہ ممبئی ہائی کورٹ نے بھی فلم کے خلاف دائر تین درخواستوں کو خارج کردیا۔
ادھر ہندوستان ٹائمز نے بتایا کہ بھارت کے فلم سینسر بورڈ نے ’گنگو بائی کاٹھیا واڑی‘ کو (یو سرٹیفکیٹ) جاری کرتے ہوئے اسے ریلیز کرنے کی اجازت دے دی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ فلم سے متعدد نامناسب مناظر نکال دیے گئے جب کہ گالم گلوچ کے سینز کو بھی ایڈٹ کردیا گیا۔
فلم میں گنگو بائی کاٹھیاواڑی کے سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے مکالمے اور بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے خاتون کے ساتھ قریبی مناظر کو بھی نکال دیا گیا۔
’گنگو بائی کاٹھیا واڑی‘ کی کہانی اسی نام سے 1960 کی دہائی میں گزری خاتون کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔
مذکورہ فلم کی کہانی قحبہ خانے پر جسم فروشی کرنے والی خاتون کی سیاست میں شمولیت کے گرد گھومتی ہے اور اس کی کہانی ایک کتاب سے ماخوذ ہے۔
مذکورہ فلم میں ’گنگو بائی کاٹھیا واڑی‘ نامی ایک خاتون کا مرکزی کردار دکھایا گیا ہے، جو 1960 کی دہائی میں بھارتی شہر ممبئی میں جسم فروشی کا کاروبار کرنے سمیت منشیات اور پیسوں کے عوض قتل کے جرائم کی سربراہی کرتی رہی تھیں۔
’گنگو بائی کاٹھیاواڑی‘ کا ٹریلر گزشتہ برس جاری کرکے اسے جنوری 2022 میں ریلیز کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم اب اسے رواں ماہ فروری کے اختتام تک پیش کردیا جائے گا۔
فلم کے خلاف گنگو بائی کاٹھیاواڑی کے گود لیے بیٹے بابو جی راؤ شاہ نے عدالت میں فلم کی نمائش پر پابندی لگانے کی درخواست دائر کی تھی۔
ان کا موقف ہے کہ ان کی والدہ جسم فروشی نہیں بلکہ سماجی رہنما تھیں مگر فلم میں ان کی والدہ کو طوائف کے طور پر دکھایا گیا ہے۔