کراچی – روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے یوکرین پر حملے نے شاید بہت سے لوگوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے اور ان دنوں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں. یوکرین پر تازہ فوج کشی سنہ 2014ع میں کریمیا کے روس سے الحاق کے بعد اُن کی خطے میں دوسری بڑی مہم جوئی ہے
ولادیمیر پوتن سنہ 2000ع سے برسر اقتدار ہیں۔ اس عرصے کے دوران وہ روس کے صدر اور وزیراعظم کے عہدوں پر فائز رہے۔ یوں سنہ 1953ع میں سویت یونین کے آمر حکمران جوزف اسٹالن کی موت کے بعد سے وہ روس کے دوسرے ایسے رہنما ہیں، جنہیں سب سے طویل عرصے تک ملک پر حکمرانی کا اعزاز حاصل ہو چکا ہے
ویسے تو ولادیمیر پوتن کی صدارت کی مدت سنہ 2024ع تک ہے، لیکن سنہ 2020ع میں متنازع آئینی اصلاحات پر رائے شماری کے بعد اب وہ اپنی چوتھی مدت پوری کرنے کے بعد بھی حکمران رہ سکتے ہیں۔ ان آئینی اصلاحات کے بعد وہ سنہ 2036ع تحت صدر کے منصب پر فائز رہ سکتے ہیں
لیکن اس سارے تذکرے میں اہم پہلو ان کے اس عہدے تک پہنچنے کی کہانی ہے
سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے سے قبل پوتن روس کی بدنام زمانہ انٹیلیجنس ایجنسی ’کے جی بی‘ میں جاسوسی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے متعدد دوست خفیہ ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے ہی ہیں
صدر پوتن نے سنہ 1990ع کی دہائی کے آغاز سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا۔ آغاز میں پوتن سینٹ پیٹرز برگ کے میئر اناطولی سوبچک کے معاون رہ چکے ہیں۔ یونیورسٹی دور میں اناطولی پوتن کے قانون کے استاد بھی رہ چکے ہیں
سنہ 1997ع میں وہ کریملن میں فیڈرل سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) کے سربراہ کے طور پر داخل ہوئے۔ یہ ادارہ ’کے جے بی‘ کے بعد قیام میں آیا۔ اس عہدے پر کام کرنے کے بعد پوتن روس کے وزیراعظم بن گئے
سنہ 1999ع میں نئے سال کے آغاز میں روس کے صدر بورس یالتسن اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے تو انہوں نے پوتن کو قائم مقام صدر نامزد کر دیا
اس کے بعد سے وہ اقتدار میں ہی ہیں۔ اگرچہ سنہ 2008ع سے 2012ع کے درمیان پوتن وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے۔ روس کے آئین کے تحت وہ مسلسل تیسری مدت کے لیے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے انتخاب نہیں لڑ سکتے تھے
پوتن سنہ 2012ع کے انتخابات 66 فیصد کی بھاری اکثریت سے جیت کر اقتدار میں واپس آئے۔ ان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات بھی عائد کیے گئے
پوتن نے اقتدار میں آنے کے بعد سویت یونین کے دور کی مخصوص فوجی پریڈ کو بحال کیا اور اُن کے دور میں جوزف اسٹالن کے پورٹریٹس بھی دوبارہ منظر عام پر آ گئے، جن پر کبھی پابندی عائد تھی
روس کی کووڈ ویکسین کو بھی ’سپوتنک فائیو‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس ویکسین کا نام ’سپوتنک‘ کی مناسبت سے رکھا گیا جو سنہ 1957ع میں دنیا کی سب سے بڑی مصنوعی سیٹلائٹ تھی
پوتن نے سویت یونین کے ٹوٹنے کو بیسویں صدی کی سب سے بڑی جغرافیائی تباہی قرار دیا تھا اور وہ سنہ 1997ع تک نیٹو کے روس کی سرحدوں تک پھیلاؤ کے بھی سخت ناقد رہ چکے ہیں
اس سے قبل روس اور یوکرین میں اس وقت کشیدگی پیدا ہوئی جب ماسکو نے شام میں بشارالاسد کی مدد کے لیے اپنے فوجی اُتارے جس سے مغربی ممالک میں صدر پوتن پر شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہوا
اس دوران مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات اتنی سرد مہری کا شکار ہو گئے کہ جیسے سرد جنگ کے دوران تھے۔ تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دور اس سے مستثنیٰ ہے، جنھوں نے کھل کر اپنے روسی ہم منصب کی تعریف کی
جبکہ ٹرمپ کے بعد آنے والے امریکی صدر جو بائیڈن نے پوتن کو لفظ ’قاتل‘ سے تعبیر کیا
پوتن نے طاقتور ہونے کا اپنا تاثر بھی قائم رکھا، جو انہیں انتخابی معرکے میں ایک ’اسٹنٹس مین‘ کے طور پر بھی مدد کی، جیسے سنہ 2000ع میں وہ چیچنیا میں ایک جنگی طیارے میں سوار ہو کر گئے اور بحرہ اسود میں سنہ 2011ع میں ’رشین بائیکرز فیسٹیویل‘ میں ان کا نمودار ہونا بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے
تاہم پوتن نے روسی میڈیا میں اپنا ایک نرم دل پہلو بھی پیش کیا، جیسے وہ اپنے کتوں سے کھیل رہے ہیں اور زخمی ’ایمور ٹائیگرز‘ کی مدد کر رہے ہیں
فروری 2011ع میں رشین لیواڈا سینٹر کے مطابق 48 فیصد روسی شہری پوتن کو سنہ 2024ع کے بعد بھی صدر دیکھنا چاہتے ہیں
ان اعداد و شمار پر بہت سے مغربی سیاستدان بھی رشک کریں گے۔ تاہم اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بہت سے لوگ اب بھی پوتن پر شرط لگانے کو محفوظ سمجھتے ہیں
روس کو نوے کی دہائی کے بعد ہونے والی افراتفری سے قدرے استحکام کی طرف لے جانے پر پوتن نے سیاسی فوائد سمیٹے ہیں
بڑے پیمانے پر قومی وقار کو بحال کرنے کے علاوہ پوتن نے روس میں مڈل کلاس کو خوشحال ہونے اور آگے بڑھنے کے مواقع دیے ہیں۔ اگرچہ ابھی بھی معیشت پر ماسکو کو سبقت حاصل ہے اور دیہی علاقوں میں زیادہ تر غربت کا راج ہے
پوتن کو بزرگ روسی شہریوں میں نوجوانوں سے کہیں زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد پوتن کے دور میں ہی پروان چڑھی ہے اور اب وہ تبدیلی کے لیے ترس رہے ہیں
ہزاروں روسی نوجوان گذشتہ برس جنوری میں پوتن کے سیاسی حریف اور ناقد الیکسی نیوالنی کی حمایت میں باہر نکلے۔ الیکسی نیوالنی کو برلن سے واپسی پر فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا تھا
الیکسی نیوالنی نے بڑے پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی کا پردہ چاک کر کے اپنا ایک نام بنایا ہے اور انھوں نے پوتن کی سیاسی جماعت ’یونائیٹڈ رشیا‘ کو چوروں اور لٹیروں کی جماعت قرار دیا
روس میں شروع ہونے والے مظاہرے گذشتہ برسوں کے سب سے بڑے مظاہروں میں سے تھے۔ ان مظاہروں پر پولیس نے دھاوا بولا اور ہزاروں مظاہرین کو حراست میں لے لیا
الیکسی نیوالنی اس وقت جیل میں ہیں اور ان کی صحت بھی خراب ہے۔ انھمہیں ایک متنازع بدعنوانی کے مقدمے میں قصوروار قرار دے دیا گیا تھا
اگست 2021ع میں الیکسی نیوالنی کے دماغ کو متاثر کرنے والی دوائی (نوویچوک) کے ذریعے مارنے کی کوشش کا الزام بھی فیڈرل سکیورٹی سروس پر عائد ہوا تھا
واضح رہے کہ نوویچوک ایک ایسا زہریلا ہتھیار ہے، جسے روس کے سابق خفیہ ایجنسی کے سربراہ سرگئی اسکرپل اور ان کی بیٹی یولیا کو سنہ 2018ع میں برطانیہ میں مارنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا
پوتن مشہور سیاسی رہنماؤں اور دیگر کارکنوں کے خلاف اس طرح کے حملوں میں کسی بھی تعلق کی تردید کرتے رہے ہیں
ولادیمیر پوتن نے لینگارڈ، جسے اب سینٹ پیٹرز برگ کہا جاتا ہے، کے سرکاری کوارٹرز میں پلے بڑھے۔ وہ مقامی لڑکوں کے ساتھ یہاں لڑائی جھگڑے بھی کرتے تھے۔ وہ ایسے لڑکوں سے بھی لڑ لیتے جو ان سے عمر میں بڑے اور طاقتور ہوتے تھے۔ اس چیز نے انھیں جوڈو کراٹے سیکھنے کی جانب راغب کیا
کریملن کی ویب سائٹ کے مطابق تعلیم مکمل کرنے سے قبل ہی پوتن سویت یونین کی انٹیلیجنس میں کام کرنے کی خواہش رکھتے تھے
پوتن نے اکتوبر 2015 میں کہا تھا کہ پچاس برس قبل لینگارڈ کی گلیوں نے مجھے ایک سبق سکھایا: ا’گر کوئی لڑائی ضروری ہو جائے تو پھر پہلا مکا تمہارا ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے چیچنیا میں علیحدگی پسند باغیوں کے خلاف اپنے فوجی حملے کا دفاع کرتے ہوئے ایک گلی محلے والے لڑاکا جیسی ناشائستہ زبان استعمال کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ’ٹوائلٹ میں بھی‘ ان کا صفایا کر دیں گے
مسلم شمالی قفقاز جمہوریہ سنہ 1999ع سے سنہ 2000ع تک شدید لڑائی سے بڑی حد تک تباہ ہوا، جس میں ہزاروں عام شہری مارے گئے تھے
جارجیا پوتن کے لیے ایک اور ایسا خاص مقام ثابت ہوا۔ سنہ 2008 میں روسی افواج نے جارجیا کی فوج کو شکست دی اور اس سے علیحدہ ہونے والے دو علاقوں ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا اپنے قبضے میں لے لیے
جارجیا کے اس وقت کے نیٹو نواز صدر میخائل ساکاشویلی کے ساتھ یہ بہت ہی ذاتی نوعیت کا تنازع تھا۔ اس تنازع نے سابق سویت ریاستوں میں مغرب نواز رہنماؤں کو کمزور کرنے کے لیے پوتن کے ارادوں کو ظاہر کیا
پوتن کا اردگرد موجود ان کے دوست امیر ترین ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ (پوتن) خود بھی بہت زیادہ دولت مند ہیں۔ وہ اپنے خاندانی اور مالی معاملات کی تشہیر نہیں کرتے
سنہ 2016ع میں پاناما پیپرز لیکس نے آف شور کمپنیوں کے ایک بڑے خفیہ نیٹ ورک کو بے نقاب کیا تھا، جس کی ملکیت پوتن کے ایک دیرینہ دوست سرگئی رولڈوگن کی ہے
پوتن اور ان کی اہلیہ لیوڈمیلا نے تقریباً تیس سال قبل ہونے والی شادی کے بعد سنہ 2013ع میں علیحدگی ہو گئی۔ انہوں نے پوتن کو بہت زیادہ کام کرنے والے رہنما کے طور پر بیان کیا
خبر رساں ادارے روئٹرز کی تحقیقات کے مطابق پوتن کی ایک بیٹی، کترینا، ’ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی‘ میں ایک اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز ہیں اور ایکروبیٹک راک ’این‘ رول مقابلوں میں پرفارم کرتی ہیں
پوتن کی سب سے بڑی بیٹی ماریہ تعلیم کے شعبے سے منسلک ہیں اور وہ اینڈوکرینالوجی میں تخصیص کر رہی ہیں
سیاست کے حوالے سے دیکھا جائے تو پوتن کی حب الوطنی کا ’برانڈ‘ روسی میڈیا پر چھایا ہوا ہے، جو ان کے حق میں کوریج کا باعث بنتا ہے۔ صدر کے طور پر اپنی پہلی دو مدتوں میں پوتن کو تیل اور گیس سے حاصل ہونے والی ٹھیک ٹھاک قسم کی آمدنی سے حوصلہ ملا جو روس کی اہم برآمدات ہیں
زیادہ تر روسیوں کا معیار زندگی بہتر ہوا۔ لیکن روس نے جمہوریت میں کمی کی صورت میں اس کی قیمت بھی چکائی ہے
سنہ 2008ع کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے پوتن نے معیشت کی بہتری کے لیے سخت محنت کی، جو کساد بازاری اور حال ہی میں تیل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے گراوٹ کا شکار ہے
روس بہت سے غیر ملکی سرمایہ کاروں اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے مواقع سے بھی محروم ہو گیا ہے
پوتن کے دور کو روس کے ایک کنزرویٹو نیشنلزم سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس میں زارس کے زمانے کے روس کی مطلق العنانیت شامل ہے، جسے آرتھوڈوکس چرچ کی مدد حاصل تھی
صدر بننے کے فوراً بعد پوتن نے لبرل شخصیات کے اثر کو کم کرنے کی ٹھان لی۔ انہوں نے اکثر عہدوں پر لبرل خیالات رکھنے والوں کی جگہ زیادہ سخت گیر اتحادی یا ایسی نیوٹرل شخصیت کے حامل افراد کو تعینات کیا جو ہاں میں ہاں ملانے والے ہوں
مثال کے طور پر پوتن کے اقتدار میں روس کے سابق صدر یالتسن کے پسندیدہ امیر ترین کاروباری شخصیات بوریس بیریزوسکی اور ولادیمیر گوسنسکی کو بالآخر روس سے مفرور بن کر جلاوطنی اختیار کرنی پڑی
روس میں انسانی حقوق کے بارے میں بین الاقوامی تشویش میں گذشتہ برسوں کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر ایک زمانے میں دنیا کے امیر ترین ارب پتیوں میں سے ایک میخائل خودورکوفسکی اور پنک گروپ پسی رائیٹ جیسے پوتن مخالف کارکنوں کو جب جیل بھیجا گیا.