روسی افواج خارکیو میں داخل، یوکرین کا سینکڑوں روسی فوجی مارنے کا دعویٰ، خام تیل کی قیمت میں تیزی سے اضافہ

ویب ڈیسک

کئیف – یوکرینی فوج کا کہنا ہے کہ روسی فوجی ملک کے دوسرے بڑے شہر خارکیو میں اتر گئے ہیں، جس کے فوراً بعد ہی شہر کی سڑکوں پر جھڑپیں شروع ہوگئیں

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس سے قبل شہر میں شیلنگ جاری رہی اور علاقائی گورنر کے مطابق روسی میزائلوں سے گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں اکیس افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں

یوکرینی فوج نے بدھ کو ٹیلی گرام ایپ پر جاری ایک بیان میں کہا ”روسی فضائی دستے خارکیو میں اترے۔ حملہ آوروں اور یوکرینیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے“

یوکرینی وزیر داخلہ کے مشیر اینٹون گیراشچینکو کے مطابق خارکیو کا کوئی حصہ نہیں رہا، جہاں گولہ باری نہ ہوئی ہو

خارکیو زیادہ تر روسی زبان بولنے والوں کا شہر ہے، جس کی آبادی چودہ لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے

یوکرین کی فوج کا کہنا ہے کہ ابتدائی تخمینوں کے مطابق اس حملے کے آغاز سے اب تک انھوں نے 5840 روسی فوجی مار دیے ہیں۔ تاہم ان دعؤوں کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی

علاوہ ازیں یوکرین کا دعویٰ ہے کہ اب تک اس نے روس کو 30 طیاروں، 31 ہیلی کاپٹرز، 211 ٹینکوں ، 862 بکتر بند گاڑیوں، 85 آرٹلری سسٹم، 9 طیارہ شکن نظام، 60 فیول ٹینک، 355 گاڑیوں، 40 ایم ایل آر ایس راکٹ لانچرز کا نقصان پہنچایا ہے

دوسری جانب کریملن کے ترجمان دمتری پسکوو نے کہا ہے کہ وہ یوکرین پر حملے کے دوران ہلاک ہونے والے روسی فوجیوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کر سکتے

ان کا کہنا تھا کہ اس تعداد کی تصدیق صدف روسی وزارتِ دفاع کر سکتی ہے

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا صدر پوتن کو ہلاکتوں کی تعداد بتائی جاتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ‘ہاں، ظاہر ہے، وہ کمانڈر ان چیف ہیں۔‘

خام تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ

منڈیوں میں قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے متعدد نئے اقدامات کے باوجود، یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں خطے سے تیل کی فراہمی میں خلل کے خدشوں کی وجہ سے دنیا میں تیل کی قیمتوں میں رکارڈ اضافہ ہو رہا ہے

برینٹ خام تیل کی قیمت 113 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے جو کہ جون 2014 کے بعد سے بلند ترین ہے

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی جانب سے 60 ملین بیرل ریلیز کیے جانے کے اعلان کے باوجود تیل کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے

واضح رہے کہ روس دنیا میں تیل کی پیداوار کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد مغربی ممالک نے اس پر اقتصادی پابندیاں لگائی ہیں، جس کے بعد سے خدشہ ہے کہ روس سے تیل کی برآمدات رک سکتی ہیں

مشرقی یورپ میں تنازعے نے تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا ہے جو پہلے ہی رسد میں کمی اور کرونا پابندیاں ہٹنے کے بعد طلب میں اضافے کی وجہ سے بڑھ رہی تھیں

امریکی صدر کیا کہتے ہیں؟

ادہر کئی یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ امریکا نے بھی یوکرین پر حملے کے بعد روسی طیاروں کے لیے امریکی فضائی حدود بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ امریکی افواج یوکرین میں لڑائی میں شامل نہیں ہوں گی

امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کی رات امریکی ایوان میں اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں فضائی حدود بند کرنے کے اقدام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مغربی اتحاد روس پر سخت پابندیاں لگا رہا ہے جس سے اس کی معیشت پر اثر پڑ رہا ہے

انہوں نے کہا کہ امریکی فوج نہ یوکرین میں روسی فوج سے لڑ رہی ہے اور نہ ہی لڑیں گی۔ ’ہماری افواج روس سے لڑنے یورپ نہیں جا رہیں بلکہ اپنے اتحادیوں کے دفاع کے لیے جا رہی ہیں۔‘

صدر کا کہنا تھا ’ہم روس کے بڑے بینکوں کو بین الاقوامی مالیاتی نظام سے الگ کر رہے ہیں، جس سے روسی مرکزی بینک روبل کو بچا نہیں پائے گا اور پوتن کا 630 ارب ڈالر کا جنگی خزانہ بے کار ہو جائے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ روس کی ٹیکنالوجی تک رسائی کو بھی روکا جا رہا ہے جس سے اس کی معاشی اور فوجی طاقت کم ہوگی

امریکی صدر نے کہا کہ پوتن کو ’اندازہ نہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ روبل کی قدر میں 30 فیصد کمی آئی ہے۔ روسی اسٹاک مارکیٹ کی قدر میں 40 فیصد کمی آئی ہے۔ تجارت بند ہے۔ روسی معیشت مصیبت میں ہے۔ اور اس سب کے ذمہ دار پوتن ہیں۔‘

صدر بائیڈن نے کہا کہ یوکرین کو براہ راست ایک ارب ڈالر کی امداد دی جا رہی ہے اور امریکا اور اتحادی ممالک یوکرینیوں کو آزادی کی لڑائی میں فوجی، مالی اور انسانی امداد فراہم کر رہے ہیں

روس روکے گا نہیں!

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صدر پوتن یوکرین کو مغربی کیمپ میں جانے سے پہلے تباہ کر دینے کو ترجیح دیں گے

روس نے اب تک اپنے تباہ کن ترین ہتھیاروں کو استعمال کرنے سے گریز کیا ہے، تاہم حملے کے دوسرے مرحلے میں یہ معتدل رویہ ختم ہوتا نظر آ رہا ہے

تجزیہ نگاروں کے مطابق مغربی کے لیے مشکل بیلنسنگ کا عمل یہ ہے کہ وہ پوتن پر اتنا دباؤ ڈالیں کہ وہ یہ جنگ روک دے، مگر اتنا دباؤ نہ ڈالیں کہ وہ شدید ردعمل دیکھائے اور کچھ انتہائی افسوس ناک کر دے

ان کا ماننا ہے کہ اس کے علاوہ اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ پوتن کے قریبی ساتھیوں میں سے کوئی بھی انھیں محتاط رہنے کا مشورہ دے رہا ہوگا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close