گٹر باغیچہ کراچی کا سب سے بڑا باغ: کیا یہ اربن فارسٹ بن سکے گا؟

شیما صدیقی

گٹر باغیچے اور شہر کراچی کی تاریخ ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ چلیں ہم آپ کو دو صدی پیچھے لیے چلتے ہیں، جب کراچی انگریزوں کے ہاتھوں میں چلا گیا

کراچی میں سخت موسم اب معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ تیز ہوائیں چلنے کی خبریں ہوں یا ہیٹ ویوز کی باتیں اور اب تو کراچی والے اربن فلڈنگ بھی دیکھ چکے، یعنی موسمیاتی تغیرات کے گہرے اثرات کراچی کی پہچان بنتے جارہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیاں دنیا کا ہی نہیں پاکستان کا بھی اہم موضوع ہے۔ لیکن مقامی سطح پر سنجیدگی کم اور سیاست زیادہ نظر آتی ہے۔ اجتماعی طور پر ہمارا مزاج ہے کہ ماحول کو بہتر کرنے کی باتیں بس اسی وقت کی جاتی ہیں جب موسم اپنی سختی دکھاتا ہے، اور درخت لگانے کا جوش بھی اسی وقت جاگتا ہے۔

گزشتہ چند سالوں میں سندھ حکومت نے کراچی کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اربن فارسٹ کے منصوبے بنائے ہیں۔ اربن فارسٹ سے مراد وسیع پیمانے پر لگائے جانے والا گھنا جنگل ہے۔ کہیں ان منصوبوں کی تکمیل میں حکومتِ سندھ آگے نظر آئی اور کہیں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کام کیا۔ اس پر بھی بات کریں گے لیکن آخر میں، پہلے ہم ذکر کریں گے گٹر باغیچے کا۔

پرانے گولی مار سے ملحق ٹرانس لیاری پارک عرفِ عام میں گٹر باغیچہ کہلاتا ہے۔ گٹر باغیچہ کراچی کا سب سے قدیم اور ایشیا کا سب سے بڑا ‘اربن فارسٹ یا جنگل‘ تھا۔ رقبے کے لحاظ سے یہ گرینڈ سینٹرل پارک نیو یارک سے بھی بڑا ہے، مگر آج اس کے مختلف حصوں پر سیاسی، صنعتی اور دیگر گروہوں کا قبضہ ہے۔

بلدیہ کراچی کے 1892ء کے نقشے میں بھی گٹر باغیچہ موجود ہے اور اس کا احاطہ 1016.76 ایکڑ درج ہے۔ 1892ء میں ہزار ایکڑ سے چلنے والی کہانی اب کم ہوتے ہوتے 480 ایکڑ تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی مافیا اور سیاسی گروہ آدھے سے زیادہ گٹر باغیچے پر قابض ہوچکے ہیں۔

ٹرانس لیاری پارک المعروف گٹر باغیچہ

سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ

پچھلے ماہ تک گٹر باغیچہ کراچی کی خبروں کا اہم موضوع تھا۔ اگست 1993ء میں کے ایم سی ہاؤسنگ اسکیم کے خلاف شہری نامی تنظیم نے ایک پٹیشن دائر کی جو ہائی کورٹ سے ہوتی ہوئی سپریم کورٹ تک پہنچی۔ آخرکار جنوری 2022ء میں پٹیشن کا فیصلہ دیتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے کے ایم سی ہاؤسنگ اسکیم کی الاٹمنٹ منسوخ کردی اور حکومت سندھ کو اس پر عمل درآمد کرنے کا حکم دیا۔

شہری تنظیم سے وابستہ امبر علی بھائی نے ڈان کو بتایا کہ اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’کے ایم سی 200 ایکڑ کا پلاٹ اپنے ملازمین کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی کو نہیں دے سکتی‘۔

1979ء میں کے ایم سی نے یہ پلاٹ اپنے ملازمین کی ہاؤسنگ اسکیم کے لیے دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے سندھ پیپلز لوکل کونسل لینڈ 1975ء کے سیکشن 45، سب سیکشن 1، سب سیکشن آئی، کے تحت اپنا فیصلہ سنایا۔ اس کے مطابق پارک کی زمین کسی رہائشی اسکیم کا حصہ نہیں بن سکتی اسے صرف تعلیمی، مذہبی اور رفاحی کام کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

گٹر باغیچے کی تاریخ

18ویں صدی کے آغاز میں یہ علاقہ دو بھائیوں امیر شیر علی خان اور مراد علی خان کے نام تھا۔ افغانستان میں مدد فراہم کرنے پر انگریزوں نے یہ زمین انہیں تحفے میں دی تھی۔ مقامی سماجی کارکن طاہر سواتی 1960ء سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔گٹر باغیچے کی تاریخ پر وہ کہتے ہیں کہ بلدیہ کراچی کے 1922ء اور 1946ء کے نقشوں میں شیر علی خان کی کوٹھی موجود ہے۔ جہاں اب بلدیہ اعظمی کی ڈسپنسری چل رہی ہے۔

یہ باغیچہ بھی کبھی امیر شیر علی خان کا کھیت کہلاتا تھا۔ مقامی بلوچ کمیونٹی بتاتی ہے کہ وہ اپنے باپ دادا سے سنتے آئے ہیں کہ ان کے باپ دادا نے امیر شیر علی خان کے کھیتوں میں کام کیا ہے۔ آج بھی لب سڑک پر بسم اللہ مسجد موجود ہے۔ جس کا پورا نام بسم اللہ مسجد امیر شیر علی خان ہے اور اب مسجد پر تو نہیں لیکن مسجد سے منسلک دکان پر آج بھی امیر شیر علی خان مسجد درج ہے۔

گٹر باغیچے اور شہرِ کراچی کی تاریخ ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ چلیں ہم آپ کو کم و پیش 2 صدی پیچھے لیے چلتے ہیں جب کراچی 1837ء میں انگریزوں کے ہاتھوں میں چلا گیا لیکن باقاعدہ شہری انتظام کا عمل 1850ء میں آیا جب کراچی میونسپل کمیشن کا قیام ہوا۔

بسم اللہ مسجد
مسجد کے ساتھ موجود دکان کا بورڈ س پر مسجد کا پرانا نام درج ہے

بلدیہ کراچی کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ 1854ء میں میونسپل کمیشن نے کراچی کا پہلا ماسٹر پلان تیار کیا، جو کمشنر سندھ مسٹر بارٹلے فریئر کی ہدایت پر ایچ ڈبلیو پریڈی نے تیار کیا۔ اسی ماسٹر پلان میں شہر کے لیے سیوریج کی نکاسی کے اور سیوریج فارم میں ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کی بات کی گئی۔

بشیر سدوزئی، ’بلدیہ کراچی سال با سال 1844ء تا 1979ء‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس منصوبے کے تحت 1857ء میں 2 سیوریج فارم گٹر باغیچہ اور محمود آباد سیوریج فارم کا بنیادی خاکہ تیار کیا گیا۔ محمود آباد کا سیوریج فارم نمبر 2 کہلایا اور گٹر باغیچہ فارم نمبر 1 کہلایا۔

1884ء میں بلدیہ کراچی نے شہر پر اسٹڈی رپورٹ تیار کی۔ رپورٹ میں شہر میں سیوریج کے نظام پر کام کرنے پر زور دیا گیا۔ اس رپورٹ کے تحت 1887ء میں لندن میں متعارف کرایا گیا سیوریج منصوبے کو کراچی کے لیے بھی منتخب کرلیا گیا۔ یہ منصوبہ shone sewerage system company کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس نظام کے خالق ایزک شون سول انجینئر تھے۔ کراچی میں اس منصوبے کے تحت 1889ء میں شون کی کمپنی کو کراچی طلب کیا گیا۔ کراچی میں یہ پراجیکٹ مسٹر والٹ کی نگرانی میں چلا۔ بلدیہ کراچی کے لیے شون سیوریج سسٹم کو منظور کرنا آسان ہوگیا کیونکہ یہ نظام رنگون شہر میں اچھے طریقے سے چل رہا تھا۔ رنگون میں سیوریج کا پانی ٹریٹ ہونے کے بعد سمندر میں جا رہا تھا۔ لیکن شہر کراچی میں سیوریج کے پانی کو صاف کرنے کے بعد اسے کاشتکاری میں استعمال کیا گیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے خطے میں رنگون کے بعد کراچی وہ پہلا شہر تھا جہاں باقاعدہ سیوریج سسٹم بنا۔

برطانوی دور میں شہرِ کراچی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1933ء میں بمبئی ایکٹ میں تبدیلی کی گئی اور کراچی میونسپل کارپوریشن کی منظوری دے کر اسے الگ حیثیت دے دی گئی۔ اُس وقت برِصغیر کے صرف 3 بڑے شہروں میں کارپوریشن نظام رائج تھا۔ جس میں بمبئی [ممبئی]، کلکتہ اور مدراس [چنائے] تھے اور چوتھا شہر کراچی بنا۔

قیامِ پاکستان کے بعد گٹر باغیچہ کی صورتحال

یہ سلسلہ قیامِ پاکستان تک طرح چلتا رہا۔ شہری یہاں سے کاشت ہونے والی سبزیاں اور پھل حاصل کرتے رہے۔ تاہم قیامِ پاکستان کے بعد کچھ عرصے تک گٹر باغیچے کا کام رک گیا۔ اس کے ساتھ آبادیاں بنیں۔ جس میں آصف کالونی، زبیری اور حسرت موہانی کالونی شامل تھیں۔ سلسلہ یہاں تک رکا نہیں بلکہ اب یہاں مزید غیر قانونی فیکٹریاں، نیو حسرت موہانی اور ولایت آباد کالونی بن چکی ہیں۔

گٹر باغیچے کی کہانی میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب 1960ء میں بلدیہ کراچی نے فراہمی آب اور ٹاؤن پلاننگ کی ذمہ داریاں کے ڈی اے کو منتقل کردیں۔ کے ایم سی کے ریکارڈ کے مطابق 12 اکتوبر 1966ء کو بلدیہ کے ایک اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی کہ گٹر باغیچے کے سیوریج فارم سے سبزیوں کی کاشت دوبارہ شروع کی جائے تاکہ شہریوں کو تازہ سبزی ملے اور بلدیہ کراچی کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ اس منصوبے کے تحت کے ڈی اے نے TP1 میں ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے تاکہ سیوریج کے پانی کو قابلِ کاشت بنایا جاسکے۔

TP-1 منصوبہ

امبر علی بھائی سمجھتی ہیں کہ شون سیوریج سسٹم بہتر تھا۔ اس میں سیوریج کے پانی کو کھینچنے کے لیے 6 اجیکٹر لگے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کیونکہ کراچی سطح سمندر سے نیچے ہے اس لیے پانی کو گٹر باغیچے تک لانے کے لیے اجیکٹر ضروری تھے۔ اسے ٹریٹ کیا جاتا اور پانی کو زراعت کے استعمال میں لے لیا جاتا۔

60 کی دہائی تک کراچی کی آبادی کئی گنا بڑھ چکی تھی اور سیوریج میں صنعتی فضلہ بھی شامل ہو رہا تھا۔ ٹریٹمنٹ پلانٹ میں پانی سے ٹھوس اجزا الگ کرکے کھاد بنتی لیکن نقصاندہ کیمیائی اجزا الگ نہیں ہوتے۔ یہ پانی مختلف چینل سے گزر کر سیوریج فارم کی لائن میں منتقل کردیا جاتا اور اسے کاشت کے لیے استعمال کیا جاتا۔ کھاد بھی باقاعدہ بکتی تھی۔ یہ کھاد اچھی تھی اسی لیے امبر علی بھائی بھی باغبانی کے لیے وہیں سے کھاد لیتی تھیں۔

TP-1 منصوبہ
اس منصوبے میں پانی سے ٹھوس اجزا الگ کرکے کھاد بنائی جاتی تھی

‘اس دشت میں ایک شہر تھا‘ کے مصنف اقبال احمد مانڈویا لکھتے ہیں کہ ’اس ٹریٹمنٹ پلانٹ سے فیضیاب ہونے کی بنا پر باغیچے نے ایک کھیت کی صورت اختیار کرلی۔ سرسبز و شاداب پارک تفریح کی غرض سے آنے والوں کے لیے آسودگی کا باعث بنتا۔ یہاں ناریل کے درختوں کا ٹھیکہ جن صاحب کے پاس تھا انہوں نے انکم ٹیکس افسر کے ساتھ ناریل کی دکان کھول لی تھی۔ یوں 70 کی دہائی میں کچے ناریل کے پانی کو بطور مشروب متعارف کرانے کا سہرا ان صاحب کے سر ہے’۔

بشیر سدوزئی لکھتے ہیں کہ ’بلدیہ کراچی ہر سال مئی اور جون میں یہ فارم نیلام کرتی اور ٹھیکہ حاصل کرنے والا سبزیاں کاشت کرتا اور بازار میں فروخت کرتا۔ 1985ء تک یہ سلسلہ چلتا رہا، مگر پھر زمین مافیا کے زیرِ اثر آگئی‘۔

اب گٹر باغیچہ کس حال میں ہے؟

ہم اسٹوری پر کام کرنے کے دوران 2 مرتبہ گٹر باغیچہ گئے۔ پہلی دفعہ پہنچے تو اندازہ ہوا کہ اتنی بڑی جگہ پر سرکار کی سرپرستی میں کیا کچھ چل رہا ہے۔

یہ اتوار کا دن تھا، ٹرانس لیاری پارک میں داخل ہوتے ہی پہلی نظر ڈسپنسری کے ساتھ بیٹھے ہیروئنچی پر پڑی۔ آگے بڑھے تو دُھول اڑاتے ہوئے میدان نظر آئے۔ آصف کالونی کی دیوار کے ساتھ دُور تک ماربل کی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں کھل گئی ہیں جس کا سارا فضلہ کھلے حصے پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اب باغیچے کی زمین کی رنگت ہی ماربل کے باریک ذرات سے سفید پڑگئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ کچرے کے بلند پہاڑ اس باغیچے کا اٹوٹ انگ بن چکے ہیں۔

باغیچے میں داخل ہوتے ہی پہلی نظر ڈسپنسری کے ساتھ بیٹھے ہیروئنچی پر پڑی
باغیچے کے اندر موجود ڈسپنسری

پہلی دفعہ میں تو ہمیں نہ 1938ء کا کنواں ملا، نہ کھیت میں لگی سبزی نظر آئی اور نہ ہی گٹر نالے کا کوئی سراغ ملا۔ ہاں جگہ جگہ پارکنگ ایریا میں ٹرک اور گاڑیاں کھڑی نظر آئیں۔ ان کے علاوہ گائے اور بھینسوں کے باڑے، ٹائر اور پلاسٹک کی فیکٹری کے ساتھ مختلف قسم کی فیکٹریوں نے گٹر باغیچے کا وجود ختم کردیا تھا۔ ہاں ایک چیز بہت دلچسپ تھی اور وہ یہ کہ دن کی تیز دھوپ کے باوجود وہاں 12 سے 15 کرکٹ کلبز کی ٹیمیں کھیلتی نظر آئیں۔

یہاں دُور تک ماربل فیکٹریاں تعمیر ہوچکی ہیں
پارک میں جگہ جگہ گاڑیاں کھڑی نظر آئیں
یہاں کچرے کے پہاڑ پارک کا اٹوٹ انگ بن چکے ہیں

دوسری مرتبہ ہم سواتی صاحب کے ساتھ گٹر باغیچے کے اس حصے پہنچے جہاں 1938ء کا تاریخی کنواں آج بھی موجود ہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں پانی کو محفوظ کیا جاتا تھا اور کنویں سے ملحقہ کمرے پر آج بھی سن تعمیر کندہ ہے۔ یقینی طور پر یہ کوئی بڑا پراجیکٹ کا حصہ ہوگا کیونکہ گٹر باغیچے کے آخری سرے پر کچھ کوارٹر آج بھی اپنے طرزِ تعمیر سے الگ سے پہچانے جاتے ہیں جن پر سن تعمیر 1938 درج ہے۔

1938ء کا تاریخی کنواں
کنویں کے قریب موجود کواٹر
کنویں کے قریب موجود کواٹر کی دیوار پر سنِ تعمیر درج ہے

آج قدیم کنویں کے احاطے میں کے ایم سی کے پودوں کی نرسری چل رہی ہے۔ شام کا وقت تھا اور پورے منظر میں کوؤں کی کائیں کائیں نمایاں تھی۔ نرسری میں چھوٹے بڑے درختوں اور پودوں کی وجہ سے ایک ٹھنڈک اور سبزے کا احساس تھا۔

اگر کنویں کی بات کریں تو وہ اب صرف آثارِ قدیمہ کے کام آسکتا ہے۔ سندھ محکمہ آثارِ قدیمہ کو چاہیے کہ اسے قدیم اور مخدوش آثار کا حصہ بنالیں تاکہ کراچی کی یہ تاریخ برقرار رکھی جاسکے۔

یہاں ہم نے برطانوی دور کی چاند ماری کی دیوار بھی دیکھی جس کی وجہ سے یہ علاقہ گولی مار کہلاتا ہے۔ اس دیوار کی مخالف سمت میں سیوریج کے پانی پر پکتی پالک، شلجم اور چقندر بھی دیکھے۔

سواتی صاحب نے کہا کہ ہم یہاں ٹھہر نہیں سکتے جلدی جلدی تصاویر لیں اور نکلیں۔ وہاں سے نکل کر ہم باغیچے کے دوسرے سرے پر پہنچے تو وہاں پالک کی فصل تیار تھی۔ کھیت میں مزدور پالک کاٹ کر گٹھریاں بناکر ٹھیلے پر جمع کررہے تھے۔ لیکن اس کھیت کو گٹر کا کالا پانی سیراب کر رہا تھا۔ سائٹ کی فیکٹریوں کا سارا پانی بغیر فلٹر ہوئے براہِ راست گٹر باغیچے کی لائن میں آکر مل رہا ہے، اور ایسا صرف اس لیے ہورہا ہے کیونکہ TP1 کا ٹریٹمنٹ پلانٹ ناکارہ ہوچکا ہے۔

چاند ماری کی دیوار، جس کی وجہ سے یہ علاقہ گولی مار کہلاتا ہے
گٹر کے پانی سے سیراب ہوتی فصلیں
گٹر کے پانی سے سیراب ہوتی فصلیں

سواتی صاحب کا کہنا ہے کہ ’گٹر باغیچہ کی اہمیت بہت واضح ہے۔ سیوریج فارم کراچی کے 1922ء اور 1946ء کے نقشوں میں بھی نمایاں ہے۔ کے ایم سی کے 1950ء کے نقشے میں بھی اسے سیوریج فارم نمبر 1 دکھایا گیا ہے۔

1990ء کے بعد سے اس پر قبضہ اور غیر قانونی الاٹمنٹ شروع کی گئی۔ سائٹ ایسوسی ایشن نے یہاں 10 کارخانے الاٹ کیے۔ کے ایم سی نےہاؤسنگ اسکیم کے لیے 200 ایکڑ زمین دے دی۔ 14 ایکڑ زمین اسماعیلی گارڈن سوسائٹی اور بیگم صوفیہ کو دے دی گئی۔

سواتی صاحب نے ڈان کو اس حوالے سے بتایا کہ ’ایک طرف انتظامیہ نے ملی بھگت سے یہاں کے باغات ختم کیے تاکہ قبضہ کرکے ہاؤسنگ اسکیمیں بنائی جاسکیں۔ مقامی سیاسی تنظیمیں اس کام میں ملوث رہیں۔ ایک طرف پی پی پی کی حمایت یافتہ قبضہ مافیا بیٹھی ہے اور دوسری طرف ایم کیو ایم نے اپنے اثر و رسوخ سے زمین ہتھیالی۔ آخری سرے پر ہزارہ اور پٹھان کمیونٹی والے زمین گھیر کر فیکٹری بنا رہے ہیں۔ اس کے چاروں طرف سے محاصرہ کیا گیا ہے۔ راستے خراب کردیے گئے تاکہ لوگ یہاں نہ آئیں، اور یوں یہ نو گو ایریا بنا دیا گیا ہے‘۔

پرانے مقامی لوگوں کی گٹر باغیچے سے جڑی یادیں

ارشد نقوی آصف کالونی سے اب منتقل ہوچکے ہیں۔ انہوں نے گٹر باغیچے کے بارے میں بتایا کہ ’اس علاقے سے میری یادیں 1960ء سے پہلے شروع ہوتی ہیں۔ ہمارا گھر آصف کالونی میں تھا۔ ہم جب بسمہ اللہ مسجد کے راستے سے گٹر باغیچے میں داخل ہوتے تو وہاں امرود کے گھنے درخت تھے، جو دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ گٹر باغیچہ کی دیوار کے آخر میں آصف کالونی تھی۔ جب تک ہمارے محلے میں سیوریج لائن نہیں تھی تب تک ان آبادیوں کا سارا فضلہ اٹھا کر گٹر باغیچہ کے آخر میں ایک گڑھے میں ڈال دیا جاتا تھا جو سوکھ کر کھاد بن جاتا تھا۔ سوکھنے کے دوران اس کھاد میں کیڑے پڑجاتے تھے جنہیں کھانے کے لیے چھوٹے بڑے پرندے میسر رہتے‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’انگریز میوہ شاہ قبرستان کی طرف اپنے گھوڑے باندھتے اور باغیچے میں ان کے لیے گھانس اگائی جاتی تھی اور وہ وہاں چاند ماری یعنی اپنے نشانے کی مشق کرتے تھے۔ آگے گول ٹنکی تھی، جہاں سے ان کے گھوڑے پانی پیتے تھے۔ جبکہ بارود خانے میں ان کا بارود اور اسلحہ رکھا جاتا تھا‘۔

سواتی صاحب بھی اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’60ء اور 70ء کی دہائی تک اس پارک میں فلموں کی شوٹنگ بھی ہوتی تھی، کیونکہ قریب ہی SITE ایریا میں 2 ماڈرن اور ایسٹرن اسٹوڈیو تھے۔ یہاں پھولوں اور پھلوں کے باغات بھی تھے جنہیں انتظامیہ، پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے مل کرتباہ کردیا۔ یہاں قبضے کرنے کے بعد جرائم کے اڈے بنا دیے گئے اور TP1 یعنی ٹریٹمنٹ پلانٹ بند کردیا گیا۔ اب سائٹ ایسوسی ایشن نے نالوں پر بلڈنگ بنا لی ہیں، ظاہر ہے جب نالوں پر عمارت بنے گی تو دھماکے تو ہوں گے‘۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’امرود، بیر، جنگل جلیبی، ناریل اور کھجور یہاں کے خاص پھل تھے۔ یہاں طرح طرح کے پرندے تھے۔ رنگ برنگ کے طوطے تھے۔ مینا، کوئل اور چیل کوے تو آج تک ہیں۔ ہم نے اسی باغیچے میں مشرقی پاکستان کے بڑے رہنما مولانا بھاشانی کا جلسہ سنا ہے۔ یہاں نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو بھی آئیں۔ ایوب خان کے دور میں بنگالی بی ڈی ممبر عبدالحی بھی یہیں رہتے تھے‘۔

سواتی صاحب سمجھتے ہیں کہ ’اگر یہاں جنگل یا اربن فارسٹ بنتا ہے تو یقین ہے کہ یہ ایک مثالی پارک ہوگا اور ملحقہ علاقے جیسے اورنگی، بلدیہ ٹاؤن، ناظم آباد، لیاری اور سائٹ ایریا کے درمیان یہ جنگل بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مرتضی وہاب بھی اس مسئلے پر یرغمال نظر آتے ہیں‘۔

سواتی صاحب

آصف کالونی کی پرانی رہائشی مدیحہ نے اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’انہیں یاد ہے کے دُور سے سبزیاں لگی نظر آتی تھیں۔ 90 کی دہائی تھی اور انہیں گٹر باغیچے میں اپنے بڑوں کے ساتھ پارک جانا اور خاص کر عید کی نماز پڑھنے جانا یاد ہے۔ اپنے کزن کے گروپ کے ساتھ سبزیوں کے کھیت سے لوکی توڑ کر لانے کا کارنامہ انجام دینے پر ڈانٹ پڑنا بھی یاد ہے‘۔

50 سالہ لال محمد بلوچ پرانی گولی مار کے رہائشی ہیں۔ ان کی یادوں میں ناریل، پپیتا، شریفہ، لیموں اور سبزیوں کے درخت ہیں۔ ’یہاں اتنے درخت تھے کہ تھوڑے فاصلے کے بعد آگے نظر نہیں آتا تھا، سمجھ لیں 10 فٹ پر کھڑا بندا نظر نہیں آتا تھا۔ اتنا گھنا جنگل تھا کہ یہاں جو خلفائے راشدین مسجد ہے وہاں امرود کے ڈھیر لگائے جاتے تھے اور پھر بازار میں بکتے تھے۔ ان امردوں کا ٹھیکا آغا خانیوں کے پاس تھا‘۔

لال محمد بلوچ

جب باغیچے کا انتظام ریکسر لائن کے حاجی بلوچ کے ہاتھوں میں آیا تو اس کی حالت خراب ہونے لگی۔ 1938ء میں بننے والا کنواں لال محمد صاحب نے دیکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’وہاں ہروقت ٹیوب ویل چلتا تھا اور وہاں سے نالے میں پانی آتا تھا۔ کے ایم سی وہاں سے کھاد نکال کر فروخت کرتی تھی۔ انہیں یاد ہے کہ 70ء اور 80ء تک یہ سارا نظام چل رہا تھا۔ پیچھے کی طرف جائیں تو TP-1-2 میں جرمن ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا تھا۔ جہاں کھاد تیار کی جاتی تھی۔ نکاسی کا نظام تھا، کنویں تھے اور پانی نکل کر باغ کے مختلف حصوں میں جاتا تھا۔ پھر ایک ایک کرکے درخت کٹنے لگے اور باغات ختم ہوتے چلے گئے۔ پہلے پہل نکاسی کا نظام ختم ہوا۔ پھر بغیر ٹریٹ کیا ہوا پانی براہِ راست سمندر میں گرنے لگا، اور اب بس باغیچے میں مٹی ہی اڑتی ہے۔

اربن فارسٹ کے ماہرین کیا کہتے ہیں؟

توفیق پاشا سمجھتے ہیں کہ اربن فارسٹ ایک نئی ترکیب ہے۔ یہ ایک طریقہ ہے جس میں جنگل اگائے جاتے ہیں۔ چھوٹے بڑے جھاڑی دار درخت ہوتے ہیں۔ کراچی کی زمینی ساخت الگ ہے اور اسلام آباد کی ساخت الگ، اس لیے ہمیں کراچی کی مٹی کے مطابق درخت لگانے چاہئیں۔ جنگل تو بنیادی طور پر اتنے گھنے ہوتے ہیں جہاں انسان گھس نہیں سکیں جبکہ کراچی میں لگائے گئے اربن فاسٹ میں درخت پتلی پتلی پٹیوں میں لگائے جارہے ہیں۔ ان کے ہاں سب سے بڑا حصہ 300 مربع گز کی پٹی ہے۔

پاشا سمجھتے ہیں کہ کسی بھی درخت کو اگانے کے لیے ضروری ہے کہ 6 فٹ مٹی کھود کر اس میں شیرہ، گوبر کی کھاد، بھوسہ ملا کر زمین تیار کی جائے۔ ایک گز میں 9 پودے لگائے جاتے ہیں۔ اس میں بیچ والا درخت تناور ہوجاتا ہے اور کئی پودے مرجاتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ جنگل بنتا چلا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ گٹر باغیچہ میں درخت ایک فاصلے سے لگانے چاہیے۔ جس خطے پر چاہیں جنگل بن جاتا ہے۔ جیسے چھانگا مانگا اور میانی کا جنگل انسان کے ہاتھوں لگایا گیا ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ گٹر باغیچے کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے جنگل لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی بڑے پارک بنائے جائیں تاکہ لوگ آئیں اور کھلے حصوں میں گھومیں۔ پھلوں کے درخت لگائیں۔ موسمیاتی تغیر کے حوالے سے ضروری ہے کہ شہر میں شجر کاری کی جائے۔ ہر گلی اور ہر موڑ پر درخت ہونے چاہئیں۔

ماحولیاتی ایمرجنسی صرف کراچی کا مسئلہ نہیں بلکہ ساری دنیا کا مسئلہ ہے۔ لیکن ہمارا خطہ شاید موسمیاتی تغیر کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ لیکن ایک اہم بات یہ ہے کہ آج آپ درخت نہیں لگا رہے ایک چھوٹا پودا لگا رہے ہیں جسے پنپنے میں 10 سے 15 سال کا وقت چاہیے۔ یعنی آج کی محنت کا نتیجہ 10 سے 15 سال بعد نکلے گا اور موسم پر اس کے اثرات کے لیے 30 سے 40 سال کا عرصہ درکار ہے۔

توفیق پاشا سوال کرتے ہیں کہ درخت آپ کو کیا دے رہے ہیں؟ درخت آپ کو وہ آکسیجن دے رہے ہیں جس سے ماحولیاتی آلودگی کم ہوتی ہے۔ پھر ہم نے فضا میں جتنا کاربن ڈالا ہوا ہے یہی وہ درخت ہیں جو ساری کاربن جذب کرتے ہیں۔ درخت خراب کاربن کو جذب کرکے اچھی کاربن لکڑی کی صورت ہمیں واپس کرتے ہیں اور خراب کاربن کو زمین میں منتقل کردیتے ہیں۔ درخت ہمیں خوشبو، پھول اور پھل دیتے ہیں۔ درخت کے پتے گرم ہوا سے زمین کو بچاتے ہیں، یعنی وہ ایک ڈھال یا چھتری کا کام کرتے ہیں اور گرم ہوا جب پتوں کے درمیان سے گرزے گی تویہ ہوا نسبتاً ٹھنڈی ہوجائے گی یعنی درجہ حرارت میں کسی نہ کسی سطح پر کمی آئے گی۔ یعنی درخت زمین کو محفوظ بنا رہے ہیں۔ جس سے آکسیجن بہتر ہوتی جائے گی اور کئی سالوں بعد ہمارے ماحول میں بہتری آتی چلی جائے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ اسموگ بھی فضائی آلودگی ہی کی شکل ہے لیکن کراچی میں 2 طرح کی آلودگی ہے۔ ایک دُھول، ریت اور دوسرا دھواں ہے۔ کراچی فضا میں مٹی اڑتی ہے۔ شجرکاری سے دھول مٹی پر بھی اثر پڑے گا۔ اہلِ کراچی کو سب سے زیادہ دھویں سے خطرہ ہے۔ جسے فوری طور پر قابو کرنے کی ضرورت ہے۔

سمجھیں! اگر آپ کسی چھتری کے نیچے کھڑے ہوتے ہی سائے میں آجاتے ہیں لیکن اگر زمین پر گرم دھواں ہے تو آپ اس گرمی کو محسوس کریں گے۔ کچھ عرصے پہلے بہت اچھی مہم چلی تھی جس میں پیٹرول پر چلنے والے رکشہ اور بسوں کو سی این جی گیس سے تبدیل کیا گیا تھا۔ جس سے شور اور دھویں دونوں میں کمی آئی، لیکن یہ تبدیلی بھی شہر کی فضا کی آلودگی کم نہیں کرسکی۔ گرین بسیں جو الیکٹرک سے چل رہی ہیں اسے بھی اچھا اقدام کہا جاسکتا ہے۔

پھر مختلف علاقوں میں موجود چھوٹے کارخانوں میں پلاسٹک، ٹائر اور بجلی کے تاروں کو پگھلایا جاتا ہے۔ جس سے فضا مزید خراب ہوتی گئی۔ پھر کچرے سے اور اسے جلانے سے مختلف گیسیں نکلتی ہیں جو ماحول دوست نہیں۔ اس لیے صرف یہ سوچنا کے درخت لگنے سے ماحول بہتر ہوجائے گا تو یہ درست نہیں ہے۔

شہزاد قریشی 2016ء سے اربن فارسٹ پر کام کر رہے ہیں۔ وہ حکومتِ سندھ کو مشورہ دیتے ہیں کہ جاپانی طریقہ کار کو اپنائیں، جو میاواکی ٹیکنک کہلاتی ہے۔

شہزاد نے مزید بتایا کہ اب تک ہم نے 20 ہزار چھوٹے بڑے پودے شہر کے مختلف حصوں میں لگائے ہیں۔ شہزاد درختوں کو نالے سے سیراب کر رہے ہیں۔ وہ پانی کو صاف کرنے کے لیے ریتھ بیڈ سے گزارتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک جھیل بنائی ہوئی ہے جہاں پانی کو ذخیرہ کرلیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اب ہمارے پاس اتنا پانی ہے کہ 3 سال تک ہم آرام سے اس جنگل کو فیڈ کریں گے، جھیل کی جھیل رہے گی اور اس کے اندر اپنا آبی ماحول بھی رہے گا‘۔

لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ کراچی میں بڑے اور چھوٹے کئی حصوں پر مشتمل شہری جنگل ہونے چاہیئں تاکہ شہر میں اربن فلڈنگ، ہیٹ ویوز، بارشوں اور فضا پر قابو پایا جاسکے۔ اس میں گلیوں، گھروں، اسکولوں، مسجدوں اور پارکوں کے گھنے اور تناور درخت بھی شامل ہوں گے۔ چھتوں پر لگائے جانے والے چھوٹے پودے، دیواروں پر لگلی بیلیں بھی اس کا حصہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت شہرِ کراچی ایک فیصد سے بھی کم حصے پر ہرا بھرا ہے۔ جسے کم از کم 25 فیصد تک ہونا چاہیے۔

مسعود لوہانہ، حکومتِ سندھ کے ساتھ مل کر اربن فارسٹنگ کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شہرِ کراچی میں درخت کم اور کنکریٹک کا جنگل زیادہ ہے۔ اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ سیوریج کی لائنیں بغیر ٹریٹ کیے سمندر میں جارہی ہیں۔ کام ہر سمت میں کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے زیادہ اس بات پر زور ہونا چاہیے کہ گھنے جنگل کو زیادہ سے زیادہ وسعت دی جائے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’گٹر باغیچے میں سال بھر کے اندر اچھا جنگل بن سکتا ہے۔ ہم نے کرکے دکھایا ہے۔ کراچی کی ماحولیاتی نمو یعنی بائیو ڈائیورسٹی اس وقت ہی بہتر ہوگی جب درخت ہوں گے۔ ان پر چرند پرند اور دیگر کیڑے مکوڑے آتے چلے جائیں گے۔ جس کا مجموعی اثر کراچی کے ماحولیاتی تغیر پر پڑے گا۔

انہوں نے آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیں آسمان پر چیل اور کوے نظر آتے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کراچی شہر کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کراچی میں سبزہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر سیوریج کی لائینیں ٹریٹ نہیں ہورہیں اور یوں گٹر کا پانی براہ راست سمندر میں گرجاتا ہے۔ گٹر باغیچے میں سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ گھنا جنگل ہو اور پانی کو ٹریٹ کیا جائے۔ اس کے لیے ساری دنیا میں ہی مختلف طریقے اپنا لیے گئے ہیں۔ پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ قبضہ مافیا کو نکالا جائے اور ایک سال کے اندر ہی جنگل کھڑا ہونا مشکل کام نہیں۔

ان کا خیال ہے کہ ہمیں ہنگامی سطح پر کام کرنے کی ضرورت کی ہے۔ ہمارا ایکو سسٹم اور بائی ڈاورسٹی ختم ہونے کے قریب ہے۔ چھوٹے چھوٹے حصوں پر ہی سہی لیکن ہمیں کئی جنگل کی ضرورت ہے۔ کراچی کا ایکو سسٹم برباد ہوچکا ہے۔

شہرِ کراچی پاکستان کی آبادی کا 10 فیصد ہے اور ملک کی 70 فیصد معیشت اس پر ہی تکیہ کرتی ہے۔ اس لیے شہر سے محبت کا تقاضہ ہے کہ اب غیر سیاسی اقدامات کیے جائیں۔ گٹر باغیچے پر بھی پچھلے کئی دہائیوں میں بہت سیاست ہوچکی ہے۔ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہی شہرِ کراچی کے لیے ماحول دوست اقدام ہوگا۔

شیما صدیقی پندرہ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں. انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

بشکریہ ڈان میڈیا گروپ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close