گزشتہ دنوں 1919ع میں ہوئے سانحہ جلیانوالہ والا باغ امرتسر پر بنی ایک تاریخی فلم ”سردار اودھم“ نیٹ فلیکس پر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ انگلش ڈبنگ کے ساتھ اس تاریخی فلم کے مکالمے، اداکاری، ڈائریکشن، فلمائے گئے مناظر و مقامات دیکھنے والے کو بور نہیں ہونے دیتے
سردار اودھم سنگھ وہی ہے جس نے اس واقعہ کے بعد برطانیہ جا کر 1940ع میں سانحہ جلیانوالہ باغ کے ذمہ دار لیفٹیننٹ گورنر مائیکل اڈوایئر کو قتل کر دیا تھا۔ قتل کے الزام میں اسے سزائے موت سنائی گئی اور بعد ازاں اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا
پھانسی کا حکم نامہ پڑھ کر سنانے والے انگریز جج کو دستخط کرنے کے بعد اپنے پین کی نب توڑتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔ صحافت، سیاست اور تاریخ کے طالب علموں کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیے
عام مشاہدے میں آیا ہے کہ اس کے علاوہ ہمارے ہاں اکثر فلموں اور ڈراموں میں سزائے موت سنانے والے ججوں کو اپنے پین کی نب توڑتے ہوئے دکھایا گیا ہوتا ہے۔ ایسا کرنے کی آخر وجہ کیا ہے؟ انگریز کو تو برصغیر پاک و ہند سے گئے ہوئے پون صدی گزر چکی ہے۔ اس خطے کے بہت سے لوگ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حیران ہیں کہ سزا یافتہ شخص کو سزائے موت سنانے کے بعد جج آخر اپنا قلم کیوں توڑتے ہیں
کسی ملزم کو سزا سنانے کے بعد ججوں کے اپنے قلم کی نب توڑنے کا عمل برطانوی تاریخ سے ملتا ہے۔ نب کو توڑنے کے پیچھے وجہ زیادہ تر رواج کے ذریعہ کی گئی تھی، نہ کہ کسی مقرر کردہ اصول کی وجہ سے جس نے اس عمل کو لازمی بنا دیا
برطانیہ سمیت کسی بھی ملک میں ایسا کوئی مروجہ قانون کہیں نہیں جو ججوں کو سزائے موت سنانے کے بعد اپنے قلم کی نب توڑنے کا اختیار دیتا ہو۔ تاہم ججوں کے ذریعے کی جانے والی اس روایتی مشق کے پیچھے کارفرما کئی نظریات یا وجوہات پڑھنے کو ملتی ہیں
ایک نظریہ قلم کی نب کے ٹوٹنے کو ایک علامتی عمل کے طور پر دیکھتا ہے۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ جو قلم کسی شخص کی زندگی لینے اور اس کی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے اسے دوبارہ ایسا کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے
ایک دوسرے نظریہ کے مطابق، نب اس لیے توڑی جاتی ہے کہ سزائے موت کا فیصلہ لکھنے اور اس پر دستخط کرنے کے بعد ، ججوں کے پاس اپنے فیصلے پر نظرثانی یا اسے منسوخ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا
ایک خیال یہ بھی ہے کہ نب کو توڑنے کی وجہ جج کی طرف سے دیے گئے فیصلہ کے بعد اس سے اپنے آپ کو الگ کر لینا ہے۔ تاکہ اسے کسی قسم کا پچھتاوا نہ ہو
کئی ممالک کے ججوں کے درمیان یہ ایک دیرینہ رواج یا روایت چلی آ رہی ہے کہ کسی ملزم کو سزائے موت سنانے کے بعد قلم توڑ دینا افسوس کی علامت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اور یاد دہانی کے طور پر بھی کہ دی گئی سزا کو واپس لینے یا اسے ختم کرنے کے لیے کچھ بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ روایت زیادہ تر عام قانون کے نظام والے ممالک میں استعمال ہوتی ہے۔ اور خصوصاً بہت سے ایسے ممالک جو برطانوی راج کے زیر تسلط رہے
دینا کے بہت سے ممالک میں ججوں کی طرف سے پن کی نب توڑنے کے اس عمل کے متعلق ہم نے اس مضمون کی تیاری کے دوران پاکستان کے ایک سابق (ریٹائرڈ) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد یوسف اوجلہ سے ٹیلی فون پر کئی دہائیوں سے جاری اس روایت کے متعلق معلوم کیا
یوسف اوجلہ صاحب نے بتایا کہ ”انہوں نے بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، بعد ازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور پھر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج کے طور پر بھی بہت سے سزائے موت کے قیدیوں کے فیصلے لکھے ہیں۔ اور پھانسی کی سزا پانے والے کئی مجرموں کے ’ڈیتھ وارنٹ‘ جسے عرف عام میں ’بلیک وارنٹ‘ بھی کہا جاتا ہے پر دستخط کیے ہیں مگر انہوں نے ایسا کرتے ہوئے کبھی بھی اپنے قلم کی نب نہیں توڑی۔ پاکستان میں ججوں کی جانب سے قبل ازیں یا آج کل ایسی کوئی روایت کبھی نہیں رہی
انہوں مزید بتایا کہ ”وہ یہ بات سو فیصد دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان بھر کی عدالتوں میں کسی ملزم کو سزائے موت کی سزا سنائی جانے کے بعد قلم کی نب توڑنے کا کوئی رواج، روایت یا پریکٹس سرے سے نہیں ہے۔ پاکستانی فلموں یا ڈراموں میں فلمائے جانے والے ایسے مناظر بھی خلاف حقیقت ہیں
یوسف اوجلہ کا کہنا تھا کہ ”کئی ممالک میں یہ روایت اب تک موجود ہے۔ تاہم اس کا آغاز سب سے پہلے کہاں ہوا تھا، اس کے متعلق کوئی نہیں جانتا۔ اور نہ ہی انہیں اس کے پس منظر سے آگاہی ہے۔ ٹائپ رائٹر کے آنے سے پہلے پرانے وقتوں میں ججز فیصلے اپنے ہاتھ سے لکھا کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے ہولڈر کے ساتھ نب استعمال کی جاتی تھی۔ زیادہ لکھے جانے کے باعث اکثر نبیں بمشکل ایک ہفتہ ہی نکالتی تھیں
اور اب تو ویسے بھی سارے فیصلے کمپیوٹر پر کمپوز کیے جاتے ہیں اور پن بھی اب قصہ پارینہ بنتے جا رہے ہیں۔ دستخطوں کے لیے بھی اب زیادہ تر پن کی بجائے بال پوائنٹ استعمال کی جاتی ہے
شاید ایسا ہوا ہو کہ سزائے موت کے کسی ملزم کے فیصلہ کے آخر میں دستخط کرتے ہوئے کسی جج کے ہولڈر کی نب جو پہلے ہی لکھ لکھ کر گھس چکی ہو اور آخر میں دستخط کرتے ہوئے اتفاقاً ٹوٹ گئی ہو۔ اور وہاں سے یہ روایت چل نکلی ہو۔ اس کے متعلق یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا
(ریٹائرڈ) سیشن جج یوسف اوجلہ کے بقول ”ماضی بعید میں قتلوں کے ٹرائل عموماً مسلسل چلتے تھے۔ اور اکثر ایک ہفتہ اور ایک ہی ٹرائل میں ایسے کیسوں کا فیصلہ ہو جاتا تھا۔ آج کل کی طرح سماعت در سماعت وہ بھی مہینوں یا سالوں تک نہیں چلتی تھی انہوں نے نور مقدم کے قتل کے حالیہ فیصلہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ بھی مسلسل سماعت کے بعد چار ماہ کے بعد آیا ہے۔ ایسے تمام کیسوں کا فیصلہ اتنے عرصے میں آنا چاہیے“
بعض لوگوں کے نزدیک یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے کہ وہ قلم جو کسی کی زندگی کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے اسے دوبارہ کبھی استعمال نہیں کیا جائے گا۔ سزائے موت گھناؤنے جرائم سے نمٹنے کے لیے ایک آخری کوشش ہے جسے کسی اور طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا
یورپ سمیت دینا کے ستر فیصد ممالک میں سزائے موت کی سزا عملاً ختم ہو چکی ہے۔ تاہم آج بھی قلم کی نب توڑنے کا یہ طریقہ دینا کی بہت سی عدالتوں میں کئی وجوہات کی بنا پر استعمال ہوتا ہے۔ اس تصور کی ایک بڑی علامت یہ کہ ایک قلم جس کا استعمال کسی کی زندگی چھین لینا ہے، اسے کبھی کسی اور چیز کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ جن قلموں کو ججوں کے ہاتھوں سزا کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے، انہیں ضائع کر دینا چاہیے کیونکہ انھوں ( قلموں ) نے کسی کے ”خون کا ذائقہ چکھ لیا ہے“
کسی جج کی طرف سے سزائے موت کا فیصلہ سنانے کے بعد اپنے فیصلے پر نظرثانی یا اسے منسوخ کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیں رہتا۔ ٹوٹی ہوئی نب دراصل اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ سزا سنائے جانے اور جج کے دستخط ہونے کے بعد بھی اگر کوئی جج اپنا ذہن بدل لے، حتیٰ کہ فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے تو بھی اب کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ جج کا دستخط شدہ فیصلہ ناقابل واپسی ہے
کچھ لوگ اس ضمن میں یہ دلچسپ تاویل بھی دیتے آئے ہیں کہ سزائے موت کا فیصلہ لکھنے کے بعد وہ قلم ایک بدنام اور داغدار قلم ہو جاتا ہے۔ اس لیے اسے استعمال کرنے والے شخص کو فیصلے اور جرم سے خود کو دور کرنے کے لیے پر توڑ دینا چاہیے
ماضی میں اس ضمن میں ایک اور منطق بھی دی جاتی رہی ہے کہ جج نے جرم کی وجہ سے اپنا قلم توڑ دیا۔ جج ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ صرف اپنے کام کا کردار نبھا رہا ہے۔ اگر اس کے پاس کوئی اور چوائس ہوتی تو وہ جان نہیں لیتا۔ ایسا کرنے سے وہ تسلیم کرتا ہے کہ زندگی صرف خدا کو لینی چاہیے، کیونکہ وہی زندگی دینے والا ہے
برطانوی عدالتوں میں ایک وقت میں سیاہ ٹوپی ایک مجرم آدمی کے لیے عذاب کی حتمی علامت بھی رہی ہے۔ عدالت کے کمرے میں سزائے موت کا فیصلہ سنانے والا جج اگر وہ سیاہ ٹوپی پہنے ہوئے ہوتا تو اسے دیکھ کر کمرہ عدالت میں موجود سبھی کو پتہ چل جاتا کہ کسی معجزاتی اپیل یا کسی اور واقعے کو چھوڑ کر، کٹہرے میں موجود قیدی کی قسمت میں سزائے موت لکھی جا چکی ہے اور اسے جلد موت کی سزائے سنا دی جائے گی۔ برطانوی جج اب بھی عدالتوں میں ایک سفید ٹوپی پہنتے ہیں تاہم اب برطانیہ میں سزائے موت کو ختم کر دیا گیا ہے
ججوں کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنا فیصلہ سنانے کے بعد اس کو مسترد کرنے یا اس میں تبدیلی تحریر کی درخواست کریں۔ روایت کے مطابق شاید اس طرح سے نب کو بھی اس مقصد کے ساتھ توڑا جاتا ہے کہ جج کوئی دوسرا خیال آ جانے کے بعد اپنے کیے گئے فیصلے کو دیکھ یا اس پر غور نہ کر سکے۔ اس کے فیصلے کو کوئی اور شخص ہی ریویو کرے۔ جیسا کہ ایک مشہور کہاوت ہے کہ سزائے موت ایک المناک عمل ہے، تاہم کبھی کبھار بنیادی چیز اور قلم کو توڑنا اس تکلیف کو بیان کرنے سے بھی منسوب کیا جاتا ہے
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2020ع کے آخر تک ایک سو آٹھ ممالک میں تمام جرائم کے لیے سزائے موت کا قانون نہیں ہے۔ اور ایک سو چوالیس ممالک نے اس سزائے موت کے قانون یا عمل میں سزائے موت کو ختم کر دیا ہے۔ اٹھائیس ممالک نے گزشتہ دس سالوں میں کسی کو پھانسی نہ دے کر موت کی سزا کو موثر طریقے سے ختم کر دیا ہے
گزشتہ دس سال کے دوران دنیا کے چون ممالک کی عدالتوں نے 1,477 افراد کو موت کی سزا سنائی۔ جبکہ 18 ممالک میں 483 افراد کو پھانسی دی گئی۔ ان میں سے زیادہ تر پھانسیاں چین، ایران، سعودی عرب، عراق اور مصر میں دی گئیں
دینا میں پچپن ممالک اب بھی عام جرائم کے لیے سزائے موت کے قانون کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان بڑے ممالک میں امریکا، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، چین، سعودی عرب، ایران، عراق، ایتھوپیا، انڈونیشیا، جاپان، ساؤتھ کوریا، سری لنکا، نائجیریا، تائیوان سمیت دیگر ممالک شامل ہیں
ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے علاوہ سن 1600ع میں اور بعد ازاں مختلف ادوار میں یہ روایت کسی نہ کسی شکل میں یورپ کے ممالک ہنگری اور جرمنی میں بھی ملتی ہے۔ تاہم موجودہ دور میں بھارت واحد ایسا ملک ہے، جہاں پر یہ روایت زیادہ پختہ ہے
1998ع میں ’فرنٹ لائن‘ کے والیم پندرہ، ایشو ایک تا آٹھ کے مطابق بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قتل میں ملوث چھبیس افراد کی سزائے موت پر دستخط کرتے ہوئے بھارتی جج نوانتھم نے اس عدالتی روایت کا پاس رکھتے ہوئے آخر میں اپنے پن کی نب توڑ دی تھی.
بشکریہ : ہم سب