کراچی کی سردی اپنا رسمی سا دورانیہ گزار کر رخصت ہوئی اور اب بہار اپنا رنگ جمانے کی کوشش میں ہے۔ ہم نے بھی اس کوشش میں حصہ ڈالنے کی ٹھانی اور ایک اسکول کی اجاڑ سی کیاری میں بہار کے رنگوں کو دعوت دینے کا منصوبہ بنایا۔
چند طالب علموں کی مدد سے کیاری کی مٹی نرم کرنے کے لیے جو کدال سے زمین کھودنی شروع کی تو پتا چلا کہ پلاسٹک کی سینکڑوں تھیلیاں مٹی میں آرام کی نیند سو رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس نیند کا دورانیہ سو سے پانچ سو سال تک ہو سکتا ہے۔ یعنی اوسطاً پچیس منٹ ہمارے استعمال میں رہنے والی یہ تھیلی پانچ سو سال کے لیے اس کرہ ارض پر موجود رہے گی
ایک چھوٹی سی کیاری سے اتنی بڑی تعداد میں پلاسٹک کی تھیلیاں نکلیں تو ہم سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ پلاسٹک کی ایجاد سے لے کر اب تک ہم کتنا کچرا اس زمین پر پھینک چکے ہیں جو کہ تحلیل ہونے کے بجائے اب تک کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ پلاسٹک کا استعمال اس قدر عام ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے ہم پلاسٹک کی دنیا میں جی رہے ہیں
پلاسٹک کی ایجاد کو انسانیت کی عظیم خدمت قرار دیتے ہوئے جب اسے عام استعمال کے لیے پیش کیا گیا تھا تو شاید اس سے ہونے والے نقصانات کا صحیح ادراک نہیں کیا گیا تھا۔ ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ہم نے اپنی زندگی میں آج تک جتنی پلاسٹک کی بوتلیں، جتنے پلاسٹک کے برتن اور جتنے بھی ٹوتھ برش استعمال کیے وہ سب کے سب اس زمین پر موجود ہیں
وہ سب پلاسٹک پر مشتمل کچرا، جو ہم پھینک چکے، اسے لا کر ہمارے گھر میں واپس ڈال دیا جائے تو شاید ہمیں اپنا گھر ہی چھوڑ کر بھاگنا پڑے۔ سوچیے کہ اگر ہم اس کرہ ارض کے وسائل کا اتنی بے دردی سے بےجا استعمال کرتے رہے تو ایسا نہ ہو کہ یہ دھرتی انسان کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دے اور پھر ہمیں کہیں بھاگنے کی جگہ بھی نہ ملے
کہا جاتا ہے کہ 2050ع تک سمندر میں مچھلیوں کی تعداد سے زیادہ پلاسٹک کی تھیلیاں ہوں گی۔ کیونکہ سمندر میں پھینکے جانے والے کچرے کا 80 فیصد حصہ پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے۔ پلاسٹک ہمارے زندگیوں کا ایک ایسا لازمی جز بن کر رہ گیا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سی پلاسٹک کی چیزیں استعمال کرنے پر ہم مجبور ہوتے ہیں
لیکن اگر ہم عہد کر لیں کہ ہم نے اپنی زندگیوں سے پلاسٹک کو نکالنا ہے تو یقینا یہ کام مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔ کسی بھی خطرے کو بھانپ کر اس سے بچنے کی تدبیر نہ کی جائے تو ہم جانوروں سے بھی نچلے درجے پر چلے جائیں گے کہ یہ حس تو جانوروں میں بھی موجود ہوتی ہے۔ ایک دم سے پلاسٹک کا استعمال ترک کرنا یقینا ممکن نہیں۔ لیکن اگر ہم ایک ایک کر کے اپنے اندر اچھی عادتوں کو پنپنے کا موقع دیں تو صورتحال میں بہتری لائی جا سکتی ہے
کچھ تجاویز
• سب سے پہلے تو ایک دفعہ استعمال ہونے والی (ڈسپوزبل) پلاسٹک کی چیزوں کو فوری طور پر اپنی زندگی سے نکال دیں۔ پانی کی ڈسپوزبل بوتل خریدنے کے بجائے اپنے ساتھ اسٹیل والی بوتل لے کر چلیں یا پھر اگر پلاسٹک کا تھرموس بھی استعمال کر رہے ہیں تو کم ازکم ڈسپوزیبل بوتل سے بہتر ہی رہے گا۔ ہر روز ایک بوتل خرید کر پھینکنے کے بجائے یہ تھرماس لمبے عرصے آپ کے استعمال میں رہے گا
• پلاسٹک کے اسٹرا استعمال کرنے کے بجائے اسٹیل کے اسٹرا کو ترجیح دیں، جو کہ آج کل مارکیٹ میں باآسانی دستیاب بھی ہیں۔ باہر جاتے وقت اپنے پرس میں اپنے لئے ایک اسٹرا رکھا جا سکتا ہے
• اسی طرح پلاسٹک کے تھیلے کا استعمال بھی فوری طور پر ترک کیا جا سکتا ہے۔ سامان خریدنے کے لیے جاتے وقت اپنے ساتھ کپڑے کا تھیلا رکھیں۔ یا پھر آج کل مارکیٹ میں سلک کے کپڑے والے، کم وزن تھیلے بھی دستیاب ہیں، جو کہ سمٹ کر آپ کی جیب یا پرس میں بآسانی سما جاتے ہیں۔ اس طرح کے تھیلے آپ ہر وقت اپنے پاس رکھ سکتے ہیں
• کلنگ فوائل استعمال کرنے کے بجائے برتنوں کو ڈھکنے کے لیے دیسی طریقے سے دسترخوان کا استعمال کریں۔ یا پھر ڈھکن والے چھوٹے ڈبوں کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے
• گھر میں پہلے سے موجود پلاسٹک کے ڈبوں اور بوتلوں کو پھینکنے کے بجائے انہیں کسی اور استعمال میں لائیے۔ جیسا کہ آپ ان بوتلوں میں اِن ڈور پلانٹس لگا سکتے ہیں
• جب بھی پیزا کا آرڈر دیں تو ساتھ ہی خاص طور پر منع کریں کہ پیزا کے ڈبے میں موجود چھوٹا سا پلاسٹک اسٹینڈ، جو اس کے درمیان میں رکھا جاتا ہے، وہ ساتھ نہ دیا جائے۔ یہ ایک چھوٹا ہی سہی لیکن مثبت قدم ضرور ہے
• ہمارے گھروں میں اکثر پلاسٹک کے آئس کریم ٹب موجود ہوتے ہیں۔ ہم آئس کریم کھانے کے بعد یہ ٹب کسی اور استعمال میں رکھتے ہیں۔ اور پھر ایک دن اس کچرے کی نظر ہوجاتے ہیں، جو کبھی تحلیل نہیں ہونے والا ہے. کوشش کریں کہ کھانے پینے کی اشیاء خریدتے وقت ایسی پیکنگ کا انتخاب کریں، جو پلاسٹک میں نہ ہوں
• پلاسٹک کے ڈبوں میں فراہم کیے جانے والے جوس اور سوڈا سے اجتناب کیا جائے۔ یہ صرف ماحول کے لیے نہیں بلکہ آپ کی اپنی صحت کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے
• یہ صرف وہ چھوٹے چھوٹے اقدامات اور عادات ہیں، جو ہم اپنے روز مرہ کی زندگی میں شامل کر لیں تو ہمیں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ ہمیں اپنی زندگی گزارنے کا طریقہ کار تبدیل کرنا ہوگا۔ کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ ہمارے رہن سہن کی قیمت ان کی اولادوں کو مستقبل میں ادا کرنی پڑے. موجودہ دور میں ماحول دوست قدم چاہے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، لیکن یہی چھوٹے چھوٹے اقدامات جب ایک معاشرے کا رہن سہن بن جائیں تو پھر ایک بڑی تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے
بشکریہ :ڈی ڈبلیو اُردو