فیمینزم کی سب سے بڑی کامیابی پتہ ہے کیا ہے؟ اس کے نام سے بعض مردوں کو چڑ ہوتی ہے۔
یہ نفرت، یہ چڑ ہمارے یہاں نہیں، مغرب میں بھی برابر ہے لیکن ان کے وہاں ’میسوجنی‘ (یعنی خواتین سے صنف کی بنیاد پہ تحقیر آمیز رویہ) جرم ہے تو وہ اس چیز کے اظہار سے ایسے ہی ڈرتے ہیں جیسے ہمارے دفتروں کالجوں میں زیادہ پڑھے لکھے مرد خاتون سے کوئی بات کرتے ہوئے پہلے ایک مرتبہ سوچتے ضرور ہیں کہ یہ کہیں ’ہراسانی‘میں تو نہیں ڈال دی جائے گی؟
فیمینزم نے ہمیں یہ بتایا کہ بندے کی جنس اس کے لیے کیا مسئلے کھڑے کر سکتی ہے۔ یہ سب پڑھتے سنتے ہوئے جو کوفت آپ کو ہو رہی ہے وہ عدم تحفظ کی شکل میں عورتوں کو صدیوں سے ہوتی آئی ہے
کلاسیکل فیمینزم چاہتا ہے کہ عورتوں اور مردوں کو برابر حقوق حاصل ہوں چاہے وہ سیاست ہو، معاشرہ ہو، کاروبار، نوکری ہو یا گھر کے اندر کوئی معاملے ہوں لیکن کیا آپ کو عورت مارچ کے نعروں میں نفرت بھی نظر آتی ہے؟ مردوں سے نفرت؟
اسے ’میسینڈری‘ کہتے ہیں۔ انگلینڈ کے ایک علاقے ویسٹ یارک شائر میں میسوجنی کی طرح میسینڈری بھی جرم بن چکی ہے۔ یعنی مرد اگر خواتین کے بارے میں ان کی جنس کی بنا پر نفرت بھرا کوئی بیان دیں گے یا ایسی کوئی حرکت کریں گے تو وہ اگر جرم کہلائے گا تو پھر خواتین کی طرف سے بھی ایسی کوئی حرکت جرم کہلائے گی
فیمینزم کی لڑائی تاریخی طور پہ بہت پرانی ہے لیکن ایک مرد صحیح معنوں میں فیمینسٹ کبھی نہیں ہو سکتا۔ اسے آپ پرو فیمینزم تو کہہ سکتے ہیں لیکن جس طرح مقدمہ لڑنے کے لیے کسی مدعے کا ہونا ضروری ہے عین ویسے ہی فیمینسٹ ہونے کے لیے ایک خاتون وجود ضروری ہے
اب اس نفرت پہ بات کرتے ہیں۔ کلاسیکل فیمینزم جس کی تعریف اوپر بتا چکا، اپنی اصل میں ’انکلوسیو‘ تھا، یعنی اس میں دنیا کے ساڑھے تین ارب مردوں کی شمولیت کے ساتھ باقی ساڑھے تین ارب عورتوں کے حق پر بات کی گئی تھی
مردوں کے برابر حقوق مانگے گئے تھے نہ کہ مردوں کو باہر نکال کے صرف اپنی بات کی گئی تھی اور اس مہم کی تاریخ گواہ ہے کہ مرد ہمیشہ خواتین کے شانہ بشانہ رہے، آج بھی عورت مارچ میں نظر آتے ہیں
تو پھر ایسا کیوں لگتا ہے کہ فیمینسٹ خواتین مردوں سے نفرت کرتی ہیں؟
ٹھیک لگتا ہے، فیمینزم کی جدید شکل میں یہ طریقہ بھی دیکھنے کو موجود ہے لیکن جس طرح ہر فرقے میں عام آدمی زیادہ ہوتا ہے، جو صلح صفائی سے رہنا چاہتا ہے، وہی معاملہ یہاں بھی ہے۔ پرانے لوگ اب بھی انکلوسیو بات کرتے ہیں، بنیادی مسائل کو اٹھاتے ہیں، نئے بچے وہ موضوع لاتے ہیں جس سے عام آدمی کے دماغ میں اپنی جگہ رجسٹر کی جائے۔ پازیٹو یا نیگیٹیو، شرط جگہ کی ہے
تو یہ جو چڑ ہے عام مرد کی، آپ سمجھ لیں یہ ان کی کامیابی ہے کیوں کہ انہوں نے آپ کے دماغ میں ایک جگہ بنا لی کہ بھئی دنیا میں یہ نعرے بھی لگائے جا سکتے ہیں اور ایسے سوال بھی ہو سکتے ہیں
ایک مسئلہ اور ہوا ہے۔ عام عورت اس جنگی ماحول سے بدک جاتی ہے۔ وہ عورت جو درمیان میں کہیں رہنا چاہتی ہے وہ بالکل ایک پاسے لگ جاتی ہے۔ جس وقت وہ گھر کے مردوں کو باقاعدہ گالم گلوچ کرتا دیکھتی ہے ان مظاہروں کے خلاف، تو وہ کیسے شامل ہو سکتی ہے خود ایسے کسی ہجوم میں جہاں کیمرے بھی بے تحاشا ہوں؟
وہ عورت جو سمجھتی ہے کہ مرد بہرحال لازم وجود ہیں انسانی نسل کے لیے یا بطور پارٹنر، وہ بھی سوچ میں پڑ جاتی ہے کیونکہ دنیا کے سامنے وہی نعرہ چنگھاڑتا ہوا آتا ہے جو سب سے زیادہ سوالات کو جنم دے۔ ہومیو پیتھک پوسٹر دب جاتے ہیں نیچے کہیں ڈھیر ساری تصویروں میں۔ تو وہ عورت بھی اس حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار رکھتی ہے یا خود کو فیمینسٹ کہلانے سے گریز کرتی ہے
کلاسیکل تعریف دیکھیں تو ہماری ہر باشعور لڑکی فیمینسٹ ہے لیکن مارچوں میں چند ہزار خواتین ہوں گی، کیوں؟ کیوں کہ باقیوں کے ذہن میں ابھی کئی سوال ہیں جن کا طے ہونا رہتا ہے، ان کے گھروں میں اس حوالے سے کئی آرا ہیں جن پر وقت کی استری پھرنی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ جیسے ووٹ دینے بہت کم عوام نکلتے ہیں عین ویسے ہی اپنا حق یاد دلانے کے لیے کم لوگ ہوتے ہیں جو سڑک پہ نکلنے کا سودا کرتے ہیں
ان عورتوں کو ساتھ ملانے اور مارچ کو واضح سمت دینے کے لیے اس مرتبہ عورت مارچ کا نعرہ ’اجرت تحفظ اور سکون‘ ہے۔ یہ نعرہ روٹی کپڑا اور مکان کے جیسا ثابت ہو گا یا نہیں، وقت بڑا فیصلہ ساز ہے
عجیب بات یہ ہے کہ عورت مارچ پر ایک مرد رائے دے رہا ہے؟ ہے نا؟
دیکھیے، یہ ایک پبلک ایونٹ ہے، تو اس مرد کو آپ عوام سمجھ لیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مرد اس موضوع پر سوچنے کو مجبور ہوا. کامیابی مبارک ہو!
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو، عرب میڈیا.