کیا ایلون مسک کی تیار کردہ کمپیوٹر چپ انسانی دماغ پڑھ سکتی ہے؟

ویب ڈیسک

”مستقبل عجیب ہونے والا ہے۔‘‘ یہ وہ الفاظ ہیں ، جو ایلون مسک نے سن 2020ع میں اپنی نیورو ٹیکنالوجی کمپنی نیورالنک کے تیار کردہ دماغی امپلانٹس کے ممکنہ استعمال کی وضاحت کرتے ہوئے کہے تھے۔ پچھلے سات سالوں سے یہ کمپنی ایک کمپیوٹر چپ تیار کر رہی ہے، جسے دماغ میں لگانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جہاں یہ ہزاروں نیوران کی سرگرمی پر نظر رکھتی ہے

یہ چپ، جسے باضابطہ طور پر ایک ’برین کمپیوٹر انٹرفیس‘ (بی سی آئی) سمجھا جاتا ہے، ایک چھوٹی سی پروب پر مشتمل ہے، جس میں تین ہزار سے زیادہ الیکٹروڈ ہیں، جو انسانی بالوں سے بھی پتلے اور لچکدار تاروں سے منسلک ہوتے ہیں

ایلون مسک کا مقصد دراصل دماغ کو کمپیوٹر سے جوڑنا ہے، تاکہ اس کی گہرائیوں سے معلومات اور یادوں کو ڈاؤن
لوڈ کیا جا سکے، جیسا کہ 1999 میں تیار کی گئی مشہور سائنس فکشن فلم ’دی میٹرکس‘ میں دکھایا گیا ہے

مسک نے نابینا پن اور فالج جیسے امراض کے علاج کے لیے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ انسانی ٹیلی پیتھی کے حصول کے لیے نیورالنک کو استعمال کرنے کے عزائم کا اظہار کیا ہے، جو ان کے بقول ’مصنوعی ذہانت کے خلاف جنگ‘ میں غالب آنے میں انسانیت کو مدد دے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی لوگوں کو ’سپر ویژن‘ فراہم کرے

امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی کے نیورل انجینئر جیاکومو ویلے کہتے ہیں ”ہم لوگوں کے ذہنوں کو نہیں پڑھ سکتے۔ ہم دماغ سے جو معلومات ڈی کوڈ کر سکتے ہیں وہ بہت محدود ہے۔“

امپیریل کالج لندن میں بی سی آئی کے ایک محقق خوآن الوارو گائیےگو نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ”اس زندگی میں ہمارے ذہنوں کو پڑھنے والے بی سی آئی کا تصور کرنا مشکل ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم واقعی یہ نہیں جانتے کہ دماغ میں خیالات کہاں اور کیسے محفوظ ہوتے ہیں۔ ہم خیالات کو نہیں پڑھ سکتے اگر ہم ان کے پیچھے موجود نیورو سائنس کو نہیں سمجھتے۔“

بی سی آئی کا حقیقت سے جڑا کلینیکل استعمال

مسک نے سب سے پہلے سن 2019ع میں نیورالنک ٹیکنالوجی کی نمائش کرتے ہوئے ایک سوئر کو متعارف کرایا تھا، جس کے دماغ میں نیورالنک چپ لگائی گئی تھی اور ایک بندر کی وڈیو جاری کی تھی، جو اپنے دماغ سے پونگ پیڈل کو کنٹرول کر رہا تھا

لیکن بی سی آئی کی صلاحیت کھیل کھیلنے والے جانوروں سے کہیں زیادہ ہے، گائیے گو کے مطابق ”یہ ٹیکنالوجی سب سے پہلے ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں یا لاکڈ اِن سنڈروم، جیسے حالات سے مفلوج لوگوں کی مدد کے لیے تیار کی گئی تھی۔“

واضح رہے کہ ’لاکڈ اِن سنڈروم‘ ایک ایسی کیفیت ہے، جس میں ایک مریض مکمل طور پر ہوش میں ہونے کے باوجود آنکھوں کے علاوہ جسم کے کسی بھی حصے کو حرکت نہیں دے سکتا

گائیےگوکے کا ماننا ہے ’’اگر آپ ان (مریضوں) کے اندرونی مواصلات کو کمپیوٹر پر الفاظ میں ترجمہ کر سکتے ہیں تو یہ زندگی بدل دے گا۔۔ اس قسم کے معاملات میں بی سی آئی کو موٹر کارٹیکس میں نیوران سے برقی سگنلز کو ریکارڈ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، پھر سگنلز کو کمپیوٹر پر بھیجیں، جہاں وہ متن کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ موٹر کارٹیکس دماغ کا وہ حصہ ہے، جو جسمانی حرکات کو کنٹرول کرنے کے لیے سگنل جاری کرتا ہے۔‘‘

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ موٹر کارٹیکس کا سوچنے کے عمل سے تعلق نہیں۔ اس کے بجائے یہ جسم کو حرکت کرنے کی ہدایت دیتا ہے، جیسا کہ بولنے کے لیے زبان اور جبڑے کے پٹھوں کی حرکت۔ گائیےگو کے مطابق، ”سائنسدانوں نے یہ بھی دکھایا کہ وہ موٹر کارٹیکس کی طرف سے ایک لفظ لکھنے کے ارادے کو پڑھ سکتے ہیں۔ پیچیدہ ماڈلنگ کا استعمال کرتے ہوئے (مربوط کمپیوٹر کے ساتھ)، اس کے ذریعے مفلوج شرکاء نے دس الفاظ فی منٹ ٹائپ کیے، جو کہ ایک پیش رفت تھی۔‘‘

محسوس کرنے کی صلاحیت کی بحالی

اس ضمن میں اہم پیش رفت سن 2016ع اس وقت دیکھنے میں آئی، جب اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے ناتھن کوپ لینڈ کے روبوٹک ہاتھ سے مصافحہ کیا۔ کوپ لینڈ ایک کار حادثے میں زخمی ہونے کے بعد مفلوج ہو چکے تھے۔ تاہم انہوں نے اوباما کے مصافحہ کو ایسا محسوس کیا، جیسے وہ جلد سے جلد کو چھو رہے ہوں

یہ برین کمپیوٹر انٹرفیس کی ایک مختلف صلاحیت کا مظاہرہ تھا۔ گائیےگوکے نے کہا کہ اس کیس میں دماغ سے ریکارڈ کرنے اور مطلوبہ حرکات کی تشریح کرنے کے لیے الیکٹروڈز کا استعمال کرنے کے بجائے، دماغ کو چھوٹے چھوٹے دھاروں سے متحرک کیا گیا تھا تاکہ احساس پیدا ہو

بی سی آئی کی یہ نئی صلاحیتیں دماغ کے گہرے محرک کی اگلی نسل کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسا علاج ہے، جس میں دماغ کے علاقوں میں الیکٹروڈ لگانا شامل ہے تاکہ جسمانی حرکت کی خرابی میں مبتلا لوگوں کی مدد کی جا سکے

گائیےگوکے نے کہا ”یہ ٹیکنالوجیز کچھ عرصے سے موجود ہیں۔ نوے کی دہائی سے پارکنسنز کے مرض میں مبتلا لاکھوں لوگوں کی مدد کے لیے گہری دماغی تحریک کا استعمال کیا گیا ہے‘‘

سب کے لیے دماغ کی جراحی؟

بی سی آئی کا استعمال ابھی تک صرف کوپ لینڈ جیسے خصوصی کیسز میں کیا جا رہا ہے اور نیورا لنک کی ٹیکنالوجی کا تجربہ صرف جانوروں پر کیا گیا ہے۔ بی سی آئی کی تمام کلینیکل ایپلیکیشنز ابھی تک تحقیق کے مرحلے میں ہیں اور ابھی تک کلینیکل پریکٹس میں لاگو نہیں ہوئی ہیں

نیورا لنک نے گزشتہ سال امریکی وفاقی ڈرگ ریگولیٹرز سے اپنی ٹیکنالوجی کی انسانوں پر آزمائشوں کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اسے اس وقت دھچکہ لگا، جب حکام نے بڑے حفاظتی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی درخواست مسترد کر دی۔ مسک کی کمپنی مبینہ طور پر اس سال کے آخر میں انسانی کلینیکل ٹرائلز کرنے کی اجازت طلب کر رہی ہے

اعصابی اخلاقیات کا جنم

ماہرین کے مطابق بی سی آئی ’متعدد اخلاقی خدشات‘ کو جنم دیتے ہیں، جن پر محققین، کمپنیوں، فنڈنگ ​​ایجنسیوں، ریگولیٹرز اور خود صارفین کو احتیاط سے غور کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ٹیکنالوجی اخلاقی تحقیقات کے ایک نئے شعبے کو جنم دے رہی ہے: نیوروایتھکس، یہ وہ جگہ ہے، جہاں بحثیں سائنس فکشن کا زیادہ رخ کرتی ہیں

مثال کے طور پر، جب زیرِ بحث ڈیٹا لوگوں کے خیالات سے متعلق ہو تو رازداری کی خلاف ورزیوں کے کیا نتائج ہوتے ہیں؟ ہم یہ کیسے یقینی بنا سکتے ہیں کہ رسائی کی کمی معاشرتی عدم مساوات کو بڑھا نہیں دے گی؟ کیا ہوگا، جب یہ معلومات براہِ راست دماغ میں داخل کی جائے گی؟“

اس سب کے بعد یہ سائنس فکشن کا کردار ہے، جو ہمیں مستقبل میں آنے والی چیزوں کے لیے تیار کرتا ہے

بیسویں صدی کے اوائل میں’بہادر نئی دنیا‘ اور ’1984‘ جیسے ناولوں میں نگرانی اور تکنیکی کنٹرول کے بارے میں انتباہ موجود تھے۔ کیا ہم نے ان کی بات سنی ہے؟

نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں ڈی ڈبلیو میں شائع فریڈ شوالر کی تحریر سے مدد لی گئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close