میانوالی – صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی نے پولیس نے اپنی نومولود بیٹی کو گولیاں مار کر قتل کرنے والے باپ کو گرفتار کر لیا ہے
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پنجاب پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ملزم کی گرفتاری کے بعد آئی جی پنجاب نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر میانوالی کو تفتیش کی نگرانی خود کرنے اور ملزم کو عدالت سے سزا دلوانے کی ہدایت کی ہے
یاد رہے کہ میانوالی سے تعلق رکھنے والے بائیس سالہ ملزم نے چار روز قبل اپنی سات دن کی بیٹی کو فائرنگ کر کے اس وقت ہلاک کر دیا تھا، جب اس کے رشتہ دار اسے بیٹی کی پیدائش پر مبارکباد دینے آئے۔ اس واقعے کے عینی شاہد اور ملزم کے رشتہ دار کے مطابق ملزم بیٹی کی پیدائش پر خوش نہیں تھا
میانوالی کے قصبے داؤد خیل میں پیش آئے اس واقعے کے بعد ملزم فرار ہو گیا تھا، تاہم چار روز کی تلاش کے بعد اسے گرفتار کر لیا گیا ہے
اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) میانوالی اسمٰعیل الرحمٰن کھڑک نے اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کر کے ملزم کی گرفتاری بارے تفصیل سے میڈیا نمائندگان کو آگاہ کیا
انہوں نے کہا کہ واقعے کا مقدمہ درج کرنے کے بعد سفاک ملزم کی فوری گرفتاری کے لیے تین ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں، جنہوں نے مختلف مقامات پر چھاپے اور ملزم شاہزیب کو ڈسٹرکٹ بھکر سے گرفتار کر لیا
انہوں نے بتایا کہ آئی جی پنجاب کی ہدایت پر واقعے کی تفتیش کی نگرانی خود کروں گا، تفتیش کے مراحل جلد مکمل کرتے ہوئے سفاک ملزم کو عبرت ناک سزا دلوائی جائے گی
ڈی پی او کا مزید کہنا تھا کہ بچوں اور خواتین پر ظلم و زیادتی کے واقعات پر آئی جی پنجاب نے زیرو ٹالرینس پالیسی اپنا رکھی ہے
پولیس کے مطابق انٹرمیڈیٹ (سیکنڈ ایئر) کا طالبعلم ہے، جس کی شادی دو سال قبل مشعل فاطمہ نامی خاتون سے ہوئی تھی اور پہلی اولاد بیٹا چاہتا تھا
جوڑے کے ہاں چند روز قبل بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی جس کا نام جنت رکھا گیا تھا، بیٹی کی پیدائش کی خبر سننے پر ملزم گھر سے باہر چلا گیا اور اسے قبول نہیں کرنا چاہتا تھا
اس واقعے کے عینی شاہد ہدایت اللہ نے بتایا تھا کہ بائیس سالہ ملزم نے اُن کے سامنے اپنی بیوی سے نومولود بیٹی کو چھین کر زمین پر پٹخا اور پستول سے بچی پر فائر کر دیے
ہدایت اللہ خان بچی کی والدہ کے چچا ہیں اور اُن کے مطابق وہ اس وقت وہیں موجود تھے اور اپنے بھتیجے کے ہمراہ اپنی بھتیجی سے ملنے آئے ہوئے تھے
پولیس نے ہدایت اللہ کی مدعیت میں قتل ہونے والی بچی کے قتل کا مقدمہ درج کیا تھا جس کے بعد اس کی گرفتاری کے لیے متعدد مقامات پر چھاپے مارے گئے
ہدایت اللہ کا کہنا تھا کہ اُن کی بھتیجی (بچی کی ماں) اس واقعے کے بعد سے ہوش و حواس میں نہیں ہے۔ ’اسے نیند کی گولی دے دیتے ہیں اور پھر جب ہوش آتا ہے تو پھر پریشان ہوتی ہے۔‘
ہدایت اللہ نے خود داؤد خیل کے رہنے والے ہیں جو میانوالی سے پینتیس کلومیٹر دور ہے
انہوں نے کہا کہ ان کی بھتیجی کی شادی صرف پونے دو سال پہلے ہی ملزم سے ہوئی تھی اور ملزم اور ان کا خاندان میانوالی شہر میں رہتے ہیں
مقتول بچی کے ماموں کلیم اللہ نے بتایا تھا کہ ملزم نے انٹر پاس کیا تھا اور ڈسپنسر کا کورس کر رکھا تھا لیکن وہ کچھ عرصے سے بے روزگار تھا اور نوکری کی تلاش میں تھا
انہوں نے بتایا کہ ملزم ان کی خالہ کا بیٹا تھا. شادی کے بعد سے میاں بیوی کے درمیان تعلقات خوشگوار رہے اور کبھی کوئی جھگڑے کی بات نہیں سنی تھی
ہدایت اللہ نے اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وقوعہ کے روز وہ اپنی بھتیجی کو مبارک باد دینے میانوالی اس کے گھر گئے تھے
انہوں نے بتایا تھا ”یہ میری بھتیجی کی پہلی بیٹی تھی اور اس سے پہلے ان کی کوئی اولاد نہیں تھی“
ہدایت اللہ کے مطابق ان کی دو بھتیجیوں کی شادی کوئی پونے دو سال پہلے ایک ساتھ ہوئی تھی۔ ایک بہن کی شادی داؤد خیل اور ایک کی شادی میانوالی میں ہوئی تھی۔ دونوں کے ہاں بیٹیاں ہوئی تھیں
ان کے مطابق بچی کی پیدائش کو سات دن ہو گئے تھے اور لوگ مبارکباد کے لیے ان کے گھر آ رہے تھے
ہدایت اللہ نے بتایا ”میرے ساتھ بھتیجے اور بھانجے بھی تھے۔ جس وقت ہم اپنی بھتیجی کے گھر پہنچے اس وقت ملزم گھر پر موجود نہیں تھا۔ ہم بھتیجی کے گھر میں ایک کمرے میں بیٹھے تھے. تھوڑی دیر بعد وہ گھر آیا تو غصے میں تھا اور شور و واویلا کر رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو زندہ نہیں چھوڑوں گا“
ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ملزم اپنے کمرے میں داخل ہوا جہاں اس نے اپنی بیوی سے بیٹی کو چھینا اور بچی کو زمین پر پھینک دیا۔ اس کے بعد ملزم نے بچی پر پانچ فائر کیے جو بچی کو دائیں جانب لگے
پولیس رپورٹ کے مطابق ہدایت اللہ نے اس موقع پر جب ملزم کو پکڑنے کی کوشش کی تو ملزم نے ان پر اسلحہ تان لیا اور موقع سے فرار ہو گیا
میانوالی پولیس کی درج ایف آئی آر کے مطابق ہدایت اللہ بچی کو لے کر ہسپتال پہنچے لیکن تب تک وہ ہلاک ہو چکی تھی
پولیس کو واقعے کی ساری تفصیل بتاتے ہوئے ہدایت اللہ نے کہا کہ ملزم کو بیٹے کی خواہش تھی اور بیٹی کی پیدائش پر وہ خوش نہیں تھا
ان کا کہنا تھا ”مجھے ایسا کچھ نہیں لگا کہ ملزم اس طرح کی کوئی کوشش کرے گا، ہاں یہ ضرور تھا کہ ملزم کو بیٹے کی خواہش تھی، اس لیے وہ خاموش تھا“
ہدایت اللہ نے بتایا ”جب سے یہ واقعہ پیش آیا ہے بچی کی ماں پر غشی طاری ہے۔ اسے سکون کی دوائی دی جا رہی ہے، پھر جب ہوش آتا ہے تو وہ پھر بیٹی کو یاد کرتی ہے اور بے ہوش ہو جاتی ہے“
یاد رہے کہ میانوالی کے علاقے داؤد خیل میں گذشتہ سال مئی میں بھی باپ نے اپنی تین معصوم بیٹیوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ ملزم کو بیٹے کی خواہش تھی اور اس کی تین بیٹیاں پیدا ہو گئی تھیں، جن کی عمریں ڈیڑھ سال سے چار سال کے درمیان بتائی گئی تھیں.