ایس بی سی اے نے بحریہ ٹاؤن میں جائیداد کی خرید و فروخت این او سی کینسل کر دیا، ملک ریاض پر ایف آئی آر

ویب ڈیسک

کراچی میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کی جانب سے شہر کے سب سے بڑے رہائشی پروجیکٹ بحریہ ٹاؤن میں جائیداد کی خرید و فروخت اور اشتہاری مہم روکنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں

ایس بی سی اے نے بحریہ ٹاؤن کے چیک باؤنس ہونے پر ملک ریاض اور علی ریاض ملک کے خلاف مقدمہ بھی درج کروا دیا ہے

ایس بی سی اے میں پبلک، سیلز اور ایڈورٹائزنگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے فیس کی عدم ادائیگی کو فیصلے کی بنیادی وجہ بتاتے ہوئے بحریہ ٹاؤن میں جائیداد کی خرید و فروخت اور اشتہاری مہم کا این او سی کینسل کرنے کا ایک خط جاری کیا۔ یہ اس وقت ہوا جب میسرز بحریہ ٹاؤن کو ان کے واجب الادا واجبات کے حوالے سے متعدد شوکاز نوٹس جاری کیے گئے لیکن کمپنی ان نوٹسز کا جواب دینے میں ناکام رہی

ادارے کی جانب سے جاری خط میں بتایا گیا ہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک سیل اینڈ ایڈورٹائیزمینٹ نے بحریہ ٹاؤن پروجیکٹ کے این او سی کی منسوخی کا لیٹر جاری کر دیا ہے

ایس بی سی اے کے خط میں بتایا گیا ہے ”میسرز بحریہ ٹاؤن نے اسکروٹنی کی مد میں واجبات ادا نہیں کیے ہیں، بحریہ ٹاؤن کو متعدد شوکاز نوٹس جاری کرنے کے باوجود ایس بی سی اے کو ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔ شو کاز نوٹس کا جواب نہ آنے اور اسکروٹنی فیس کی مد میں واجبات ادا نہ کرنے کی وجہ سے بحریہ ٹاؤن کا این او سی منسوخ کر دیا گیا ہے“

ایس بی سی اے کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے چیک باؤنس ہونے پر ملک ریاض اور علی ریاض ملک کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے حوالے سے کراچی ضلع شرقی کے گلشن اقبال پولیس تھانے کے اے ایس آئی محمد رفیع نے بتایا ”گلشن اقبال پولیس اسٹیشن میں بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض اور علی ملک ریاض کے خلاف چیک باؤنس ہونے کا مقدمہ درج کروایا گیا ہے“

سنگت میگ کو موصول ہونے والی ایف آئی آر نمبر 681/ 23 میں ایس بی سی اے کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور علی ملک ریاض کو مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن میں بتایا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ایس بی سی اے کو اپنے نمائندوں کے ذریعے سے پانچ پوسٹ ڈیٹڈ چیک دیے گئے تھے، جن میں سے تین چیک باؤنس ہوئے ہیں

ایس بی سی اے نے تمام ضروری دستاویزات کے ہمراہ پولیس سے مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی تھی۔
این او سی کی منسوخی اور مقدمے کے اندراج پر بحریہ ٹاؤن کی جانب کوئی موقف سامنے نہیں آیا

ایس بی سی اے SBCA نے غیر ادا شدہ واجبات کی مخصوص رقم کا انکشاف نہیں کیا ہے، اور یہ واضح نہیں ہے کہ آیا بحریہ ٹاؤن اس مسئلے کو حل کرنے اور NOC کو بحال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ابھی تک، این او سی کی منسوخی بحریہ ٹاؤن کے منصوبوں اور مستقبل کی کوششوں پر سایہ ڈال رہی ہے

این او سی کی منسوخی بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے ایک سنگین دھچکا ہے۔ این او سیز اہم دستاویزات ہیں، جو ڈویلپرز کو قانونی طور پر جائیداد کی تشہیر اور فروخت کرنے کی اجازت دیتی ہیں، اور اس طرح کے سرٹیفکیٹ کی منسوخی سے بحریہ ٹاؤن کراچی پر لگے دھبوں میں ایک اور اضافہ ہوا ہے، جس سے اس کی کارروائیوں پر نمایاں اثر پڑ سکتا ہے

دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سندھ حکومت سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاون کراچی کے خلاف کارروائی کی رپورٹ جمع کروائے گی۔ واضح رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں بحریہ ٹائون کے خلاف عمل درآمد کیس کی سماعت بھی ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے 18 اکتوبر کی سماعت میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے بحریہ ٹاؤن کو دی گئی تمام منظوریوں کی تفصیلات مانگی تھیں، اس کے ساتھ ساتھ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے بھی بحریہ ٹاؤن کو دی گئی منظوریوں کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں

18 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے 190 ملین پاؤنڈ کی رقم بحریہ ٹاؤن کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں ایڈجسٹ کرنے پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بحریہ ٹاؤن کراچی کے پاس لے آؤٹ پلان نہیں تھا تو پھر سارا منصوبہ ہی غیر قانونی ہے

خیال رہے کہ برطانیہ میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی مبینہ طور پر کرپشن کی رقم کو برطانوی حکام نے پاکستان کے حوالے کیا تھا۔ 190 ملین پاؤنڈ کی یہ رقم سرکاری خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی تھی۔

الزام ہے کہ حکومت اور بحریہ ٹاؤن سے ملی بھگت کے ذریعے یہ رقم سرکاری خزانے کے بجائے سپریم کورٹ میں منتقل کی گئی، یہ معاملہ بھی احتساب عدالت میں چل رہا ہے

بحریہ ٹاؤن کراچی پر ہزاروں ایکڑ زمین سندھ حکومت کے بعض افسران کی ملی بھگت سے بحریہ ٹاؤن کے حوالے کرنے کا الزام تھا

سن 2018 میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب حکام کو بحریہ ٹاؤن اور متعلقہ سرکاری ملازمین کے خلاف تحقیقات کرنے اور ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس معاملے پر بحریہ ٹاؤن نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ 2019 میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کرتے ہوئے اسے کراچی میں کام کرنے کی اجازت دے دی تھی

عدالت نے قومی احتساب بیورو کو بحریہ ٹاؤن کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے روکتے ہوئے فیصلہ دیا کہ بحریہ ٹاؤن اپنے پلاٹس فروخت کر سکتا ہے۔

عدالت نے حکم دیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن 460 ارب روپے کی رقم سات سال میں ادا کرے گا۔ اقساط میں تاخیر پر بحریہ ٹاؤن چار فی صد سود ادا کرنے کا پابند ہوگا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے 18 اکتوبر کی سماعت میں بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان اسلم بٹ سے سوال کیا کہ آپ بتائیں ٹوٹل اقساط میں سے کتنی ادا کی گئیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ میں اقساط کی ادائیگیوں کا چارٹ پیش کر دوں گا۔

اقساط کے بارے میں سوال جواب کا سلسلہ جاری تھا کہ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے آخری قسط کب ادا کی گئی تھی؟ جس پر بتایا گیا کہ آخری قسط 2022 میں ادا کی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کو کسی ریونیو افسر نے خط لکھا کہ ان کے پاس زمین نہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ اس خط کو ٹوکری میں پھینک دیں، آپ سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد کی درخواست لے آئیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سلمان اسلم بٹ سے کہا کہ آپ فیصلہ پورا نہیں پڑھ رہے ہیں، فیصلے میں لکھا تھا کہ اگر عمل نہ ہوا تو نیب ریفرنسز دائر کرے گا۔ آپ کے پاس راستہ یہی ہے کہ نیب ریفرنس دائر کرے، ہم اب سپریم کورٹ کے فیصلے میں ترمیم کیسے کریں؟

وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ عمل در آمد بینچ کا اراضی کی قیمت کا تعین غیر آئینی ہے جس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ عمل درآمد بینچ نے آپ کی رضا مندی سے آرڈر پاس کیا تھا۔

سماعت میں وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ ہمیں پوری زمین نہیں دی گئی، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ادائیگی کرنے کا عدالتی حکم ہے۔ عدالتی فیصلے میں لکھا ہے کہ دو اقساط نہ دینے پر تیسری قسط پر ڈیفالٹ ہوگا

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ بحریہ ٹاؤن منصوبہ مکمل ہو چکا ہے، کیا لوگ وہاں پر رہ رہے ہیں؟

اس پر سلمان بٹ نے بتایا کہ منصوبے پر 50 فی صد کام ہو چکا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ بحریہ ٹاؤن کا منظور شدہ لے آؤٹ سائٹ پلان کہاں ہے؟ زمین نہیں تھی، لے آؤٹ پلان نہیں تھا تو منصوبے پر کام شروع کیسے کیا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ منصوبے پر 50 فی صد کام بغیر منظوری کے کر لیا؟ بغیر منظوری کے منصوبے پر کام شروع ہونا غیر قانونی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر لے آؤٹ پلان نہیں ہے تو پھر بحریہ ٹاؤن کا سارا منصوبہ غیر قانونی ہے۔

اس پر سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ لے آؤٹ پلان سے متعلق دستاویزات عدالت میں جمع کرا دوں گا۔

سپریم کورٹ میں اس کیس کی اگلی سماعت آٹھ نومبر کو ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close