کراچی – وزیراعظم عمران خان کے بارے میں مشہور ہے کہ اپنی تقاریر یا میڈیا ٹاک کے دوران بعض اوقات ایسا جملہ کہہ دیتے ہیں جو بعد میں دیر تک سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پر زیرِ بحث رہتا ہے۔ بعد میں ان کے سیاسی مخالفین ایسے ہی جملوں کو ان پر تنقید کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں
ان کے مشہور پیغام ’گھبرانا نہیں ہے‘ سے کون واقف نہیں اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا سوال ’مجھے کیوں نکالا؟‘ بھی کسی کو نہیں بھولا۔ یہ جملے پاکستان میں زباں زدِ عام ہو چکے ہیں اور ان کے حامی اور مخالف اپنے اپنے انداز سے ان کو استعمال کرتے رہتے ہیں
کچھ روز قبل وزیرِاعظم نے ٹی وی پر عوام کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے ایک اور جملہ بولا تھا، جو تب سے اب تک زیر بحث ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’اگر مجھے نکالا تو میں آپ کے لیے مزید خطرناک ہو جاؤں گا‘
اس جملے کو کسی نے اپنے سیاسی مخالفین اور کسی نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جوڑا تو کسی نے اس کا تال میل نواز شریف کے ’مجھے کیوں نکالا؟‘ والے جملے سے ملا دیا۔
اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے عمران خان کے مشہور بیانات تو عموماً اپنے سیاسی مخالفین کو نشانے پر لینے کے لیے ہوتے تھے، لیکن وزیراعظم بننے کے بعد بھی انہوں نے کئی مواقع پر دلچسپ جملے بولے
”سب سے پہلے تو آپ نے گبھرانا نہیں ہے“ ان کا یہ جملہ اس قدر مشہور ہو چکا ہے کہ اس کے تو باضابطہ فالو اپ آتے رہتے ہیں اور جب کبھی بھی وزیر اعظم عوام سے مخاطب ہوتے ہیں تو مہنگائی کے ہاتھوں تنگ عوام وزیر اعظم سے پوچھ ہی لیتے ہیں کہ ’کیا اب تھوڑا سا گھبرانے کی اجازت ہے؟‘ جس پر وزیراعظم خود بھی مسکرائے بنا رہ نہیں سکتے۔ دوسری جانب ”مجھے کیوں نکالا“ کی طرح یہ جملہ بھی مقبول ترین میم مٹیریل بن چکا ہے
اسی طرح وزیر اعظم جب بھی تقریر کرتے ہیں تو عموماً مغرب کی مثال دیتے ہیں اور ان کا یہ مشہور و معروف جملہ کہ ”مغرب کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا“ بھی ہمہ وقت زیر بحث رہتا ہے
ان کے ایک اور جملے ”مقصد کو حاصل کرنے کے لیے یوٹرن لینا عظیم لیڈرشپ کی شناخت ہوتی ہے“ نے بھی کافی دنوں تک سوشل میڈیا پر لوگوں کو دلچسپی کا سامان مہیا کیے رکھا اور سبھی اپنے اپنے طور پر اس کی وضاحت کرتے دکھائی دیے
لیکن دلچسپ اور مشہور ہونے والی جملہ بازی کے میدان میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ پاکستان کے دیگر کئی سیاستدان بھی اس حوالے سے زیرِ تبصرہ رہتے ہیں
”جنابِ اسپیکر یہ ہیں وہ ذرائع“ یہ بیان یا جملہ سن کر ہی سمجھ آ جاتی ہے کہ یہ کس پاکستانی سیاسی شخصیت کا ہے، کیونکہ اس جملے نے پاکستان کے سابق حکمران خاندان کے لیے وہ مشکلات کھڑی کیں، جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی. یہی وہ جملہ تھا، جسے ادا کر کے نواز شریف نے اپنا سر اوکھلی میں دے دیا تھا
یہ جملہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کے فلور پر پاناما کے معاملے اور لندن فلیٹس کی ’منی ٹریل‘ پیش کرنے کے بعد بولا تھا اور کہا تھا کہ ”جنابِ اسپیکر یہ ہیں وہ ذرائع، جن سے ہم نے لندن فلیٹس خریدے“
پاناما کیس کی روشنی میں نواز شریف نے جب عوامی رابطہ مہم شروع کی تو کئی اضلاع میں اپنے ارکان اسمبلی کی میزبانی میں جلسوں سے خطاب کیا۔ اس دوران انہوں نے اپنے عوامی تشخص بہتر بنانے کے لیے ہر ضلع اور حلقے میں ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کرنا شروع کیا
وہ جب بھی تقریر کرتے تو اس حلقے یا ضلع میں مجوزہ منصوبوں کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی ایک بیان ضرور دیتے، جسے سوشل میڈیا پر ان کے حامی اور مخالفین اپنے اپنے طور پر استعمال کرتے
نواز شریف کا بادشاہی طرز پر مبنی جملہ ہوتا تھا کہ ”میرے نوجوانو، مانگو اور کیا مانگتے ہو؟“
جولائی 2017 میں جب پاناما لیکس کے نتیجے میں نواز شریف اقتدار سے باہر ہوئے تو اسلام آباد سے لاہور کی جانب براستہ جی ٹی روڈ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران کامونکی میں خطاب کے دوران نواز شریف نے غصے میں سوال کیا، جو اب تک ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ نواز شریف کا جملہ تھا ”مجھے کیوں نکالا؟“
اسی طرح ایک اور موقع پر نواز شریف نے نعرہ لگوایا کہ ”ووٹ کو عزت دو“ اس جملے کو ن لیگ میں اتنی پذایرائی ملی کہ یہ ن لیگ کا ترانہ اور مستقل انتخابی نعرہ بن گیا، لیکن مخالفین اور میمرز اس نعرے کی بھی درگت بناتے رہے
بلاول بھٹو زرداری اپنے جاندار بیانات اور طنزیہ جملوں کی وجہ سے اکثر مشہور و معروف ہیڈلائنز بنا جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی سیاست کا آغاز کیا تو انہیں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور متحدہ قومی مومنٹ کے بانی الطاف حسین کی طرف سے کم عمری کا طعنہ سننے کو ملا۔ بلاول بھٹو نے ”چچا عمران“ اور ”چچا الطاف“ کی اصطلاحات متعارف کرائیں، جو عرصے تک روایتی اور سوشل میڈیا پر سنائی دیتی رہیں
اسی طرح کشمیر کے انتخابات کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے پنجابی میں ’لواں گے لواں گے پورا کشمیر لواں گے‘ کا نعرہ لگایا، جسے کافی مقبولیت ملی۔ اسی دوران انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو ’مودی کا یار‘ قرار دیا
قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو الیکٹڈ وزیر اعظم کے بجائے سلیکٹڈ وزیرِ اعظم کہہ کر مبارک باد دی تو خود نومنتخب وزیر اعظم عمران نے ڈیسک بجا دیے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ بلاول ’الیکٹ‘ نہیں بلکہ ’سلیکٹ‘ کہہ رہے تھے۔ سلیکٹڈ وزیر اعظم کی ان کی اصطلاح پاکستانی سیاست میں مستقل حیثیت اختیار کر چکی ہے
بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں بارشوں کے باعث پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال پر وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی تو ان کا جملہ تھا کہ ”جب زیادہ بارش ہوتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے“ ان کے اس بیان پر ان کے مخالفین اور میمرز نے ایک طویل عرصے تک ان کو ہنسی کا نشانہ بنایا، اور سلسلہ ابھی تک تھم نہیں سکا
مریم نواز اپنے والد کی موجودگی میں سیاسی میدان کے بجائے پسِ پردہ رہ کر سیاسی امور چلاتی تھیں، لیکن پاناما لیکس کی تحقیقات کے دوران وہ پہلی مرتبہ میڈیا سے مخطب ہوئیں۔ اس وقت انہوں نے ایک انٹرویو میں ایک بیان دیا کیا کہ ”لندن کیا، میری تو پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں“ ان کے اس جملے نے بھی مخالفین اور میمرز کو ہنسنے اور ہنسانے کا موقع فراہم کر دیا
پاناما جےآئی ٹی میں مریم نواز پیشی کے لیے آئیں تو اپنے سیاسی کیریئر کی پہلی پریس کانفرنس کی تو اس وقت بھی ان کا بولا ہوا ایک جملہ زبان زد عام ہوا۔ ان کا کہنا تھاکہ ’روک سکو تو روک لو‘۔ تحریک انصاف نے اسی جملے کی بنیاد پر ’روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی ہے‘ کا ترانہ بھی بنایا تھا
حال ہی میں سامنے آنے والی ایک لیک آڈیو میں مریم نواز کچھ صحافیوں کو تحفہ بھجوانے کی بات کر رہی ہیں لیکن ان کا انداز اور الفاظ ایسے ہیں کہ وہ لفظ تحفہ کے بجائے ٹوکری استعمال کر رہی ہیں، جس وجہ سے سوشل میڈیا پر صحافیوں کو دی جانےوالی ’رشوت’ کے لیے لفافے کی جگہ ٹوکری نے لے لی ہے
مریم نواز کے حامیوں کی طرف سے ان کے لیے استعمال ہونے والے جملے کے الفاظ ”ایک نہتی لڑکی“ نے بھی بڑی شہرت پائی، کیونکہ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں، جہاں وہ نانی بن چکی ہیں
جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنے لطیف جملوں اور برجستہ بیانات کی وجہ سے مشہور ہیں
موجودہ وزیر اطلاعات فواد چودھری کے وزیر اعظم کی ہیلی کاپٹر پر بنی گالہ سے وزیر اعظم آفس آمد پر تنقید کے جواب میں دیے گیے بیان کہ ’ہیلی کاپٹر عام گاڑی سے سستا پڑتا ہے اور پچپن روپے فی کلومیٹر میں سفر ہوتا ہے‘ بھی ابھی تک مشہور ہے.