ایک امریکی قانون ساز نے پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست قرار دینے کا مطالبہ جبکہ دیگر دو نے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر مسعود خان کے کشمیری اور پاکستانی گروپوں سے منسلک ہونے کا الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات کرنے کی درخواست کی ہے
ایک امریکی قانون ساز نے پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست قرار دینے کا مطالبہ جبکہ دیگر دو نے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر مسعود خان کے کشمیری اور پاکستانی گروپوں سے منسلک ہونے کا الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات کرنے کی درخواست کی ہے۔
مذکورہ تحریک پینسلوانیا سے ریپبلکن رکن کانگریس اسکاٹ پیری نے پیش کی۔
اسکاٹ پیری کی جانب سے پیش کیے گئے بل میں مطالبہ کیاگیا کہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دہشت گردوں کی سرپرستی اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی ریاست قرار دیا جائے‘۔
مذکورہ بل امریکی ایوان کی امورِ خارجہ کمیٹی کو ارسال کردیا گیا ہے۔
بل میں پاکستان کی مالی مدد، دفاعی الات کی برآمدات اور فروخت پر پابندی، دوہری استعمال اشیا کی برآمد پر پابندی سمیت متفرق مالی اور دیگر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
دیگر قانون سازوں نے دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست کے ساتھ تجارت کرنے والے افراد اور ممالک کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
اب تک 4 ممالک کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاستوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جس میں کیوبا، شمالی کوریا، ایران اور شام شامل ہیں۔
9 مارچ کو 3 قانون سازوں اسکاٹ پیری، گریگری اسٹوبی اور میری ای ملر نے امریکی اٹارنی جنرل میرک گالینڈ کو خط ارسال کیا۔
خط میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سفیر مسعود خان کے ’پاکستانی حکومت کے مقامی عناصر سےان کے قریبی تعلق باعث تشویش رہے ہیں‘۔
مسعود خان امریکا کے لیے پاکستان کے نئے سفیر ہیں، جو پہلے بھی نیو یارک میں اسلام آباد کے مستقل نمائندے کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور یہ گزشتہ سال اگست تک آزاد کشمیر کے صدر بھی رہے ہیں۔
تینوں قانون سازوں نے مسعود خان کے خلاف ان الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا کہ ان کے امریکا کے مسلمان گروپ اور تنظیموں سے تعلقات ہیں۔
گزشتہ ماہ ایک اور امریکی قانون ساز نے مسعود خان کی تعیناتی روکنے کی کوشش کی تھی لیکن جوبائیڈن انتظامیہ نے ان کا احتجاج مسترد کرتے ہوئے ان کے تقرر کی تصدیق کردی تھی۔