روس کے دفاعی حکام کا کہنا ہے اس نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے انتہائی جدید ہتھیاروں سے یوکرین کے مغرب میں واقع دو مزید فوجی ہوائی اڈوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی روس نے نئے علاقوں میں حملوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔
ماسکو نے ابھی تک دارالحکومت کییف اور یوکرین کے مشرق اور جنوب کے شہروں پر ہی توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔ اس دوران سیٹیلائٹ تصاویر سے پتہ چلا ہے کہ کییف کے آس پاس موجود روسی قافلے اب منتشر ہونے شروع ہو گئے ہیں۔
روسی خبر رساں ایجنسیوں نے وزارت دفاع کے ترجمان ایگور کونشینکوف کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایوانو فرانکیوسک اور لسک میں واقع دو فوجی ٹھکانوں کا نشانہ بنا کر انہیں مکمل طور پر ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے آر آئی اے نے روسی وزارت دفاع کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں نے بندرگاہی شہر ماریوپول کے شمال میں محاصرے میں لیے گئے علاقے ازوف کے شہر وولونواخا پر قبضہ کر لیا ہے۔ دفاعی نکتہ نظر سے یہ شہر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
مرکزی یوکرین کے شہر دنیپرو میں تین فضائی حملوں میں کم از کم ایک شخص کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ روسی حملے شروع ہونے کے بعد پہلی بار لسک، ایوانو فرانکیوسک اور دنیپرو کو نشانہ بنایا گيا ہے۔
جمعرات کو کیا ہوا؟
یوکرین کے دارالحکومت کییف کے میئر ویتالی کلِچکو کا کہنا ہے کہ شہر سے اب تک تقریباً نصف باشندے باہر نکل چکے اور جمعرات کو اسے ایک فصیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ روسی فوج شہر کے شمال اور شمال مغرب کے مضافات پر پہلے ہی قبضہ کر چکی ہے تاہم سابق باکسنگ چیمپیئن کلچکو کا کہنا ہے کہ شہر اپنے دفاع کے لیے پوری طرح سے پرعزم ہے۔
انہوں نے ٹیلی وژن پر اپنے ایک خطاب میں کہا، ’’ہر گلی، ہر عمارت اور ہر چوکی کو مضبوط کر دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی اپنے کپڑے تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں کیا تھا، اب وہ بھی وردی میں ہیں اور ان کے ہاتھوں میں مشین گنیں ہیں۔‘‘
دریں اثنا یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے روسی افواج پر الزام لگایا ہے کہ اس نے اپنے ایک آپریشن میں ماریوپول شہر میں انخلا کی انسانی راہداری کو بھی نشانہ بنایا جو ایک طرح سے ’’دہشت گردانہ کارروائی ہے۔‘‘
زیلنسکی کا کہنا تھا کہ دو دنوں میں تقریباً ایک لاکھ افراد کو ہی نکالا جا سکا ہے جبکہ بہت سے رہائشیوں کے پاس باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ صدر نے کہا کہ انہوں نے خوراک، پانی اور ادویات پر مشتمل ٹرکوں کا ایک قافلہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تاہم،’’قابض فوج نے عین اسی جگہ ٹینکوں سے حملہ کیا، جہاں یہ راہداری ہونا تھی۔‘‘
یہ خبر بھی پڑھیں:روس کی اپنا سب سے بڑا ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی، کیا یہ دنیا اسے جھیل پائے گی؟
اقوام متحدہ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک تقریبا 23 لاکھ زیادہ افراد یوکرین سے باہر نکل چکے ہیں، جن میں سے نصف بچے ہیں۔
روس نے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا
روس نے یوکرین میں امریکہ کی مبینہ ’’فوجی حیاتیاتی سرگرمیوں‘‘ کے بارے میں جو دعوی کیا تھا اس پر بات کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس جمعے کو ہونے والا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے اس ہفتے کے اوائل میں بغیر کسی ثبوت کے یہ الزامات عائد کیے تھے۔
واشنگٹن نے جواباً کہا کہ یہ دعویٰ بالکل اسی قسم کا ہے، جس کے بارے میں اس نے پہلے ہی متنبہ کیا تھا کہ روس حیاتیاتی یا کیمیائی ہتھیاروں کے اپنے حملوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے اس طرح کی باتیں شروع کر سکتا ہے۔
امریکی بیان میں اس جانب اشارہ کیا کہ روس دو ہفتے پرانے اس تنازعے کو مزید بڑھانے کا بہانہ تلاش کر رہا ہے اور دیکھا گيا ہے کہ یوکرین کے فوجیوں کی طرف سے ہونے والی مزاحمت نے روسی جارحیت کو سست کر دیا تاہم یہ روکی نہیں جا سکی ہے۔
یورپ کو گیس کی سپلائی جاری
پائپ لائن آپریٹر کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ نارڈ اسٹریم 1 سے جرمنی اور یوکرین کے راستے سے پولینڈ اور سلواکیہ کو پہنچنے والی روسی گیس کی فراہم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے اور پائپ لائن سے گیس کی ترسیل کا سلسلہ جاری ہے۔
واضح رہے کہ روس نے کہا تھا کہ اگر اس کے تیل کی برآمدت پر پابندی عائد کی گئی تو ممکن ہے کہ جوابی کارروائی کے طور پر وہ گیس کی سپلائی بھی منقطع کر دے۔ تاہم یورپی ممالک نے روسی تیل اور گیس پر کوئی پابندی عائد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔