چیونٹیوں سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟

پارتھ ساہنے (ترجمہ: امر گل)

مطمئن ہو کر بیٹھ جانا، کامیابی اور حاصلات کے کبھی نہ ختم ہونے والے راستے پر ہمارے سب سے بڑے دشمنوں میں سے ایک ہے۔

اگر ہم اپنی کوشش میں ٹھنڈے پڑنا شروع کردیں اور زیادہ دیر تک ایک ہی جگہ پر رہیں اور آرام پسندی کے عادی بن جائیں تو زندگی ایک دن بیوہ کا ماتمی لباس پہن لیتی ہے۔

اگر ہم ترقی نہیں کر رہے ہیں اور اگر ہم بہتری کی جانب  نہیں بڑھ رہے تو دراصل ہم تنزلی کی جانب بڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

جیسا کہ جیم روہین کا کہنا ہے کہ ، "زندگی خاموش نہیں رہتی، نہ ہی ٹھہرتی ہے ، اور اگر آپ بس چیزوں کو  ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں تو منفی بے ترتیبی زندگی کے مثبت انتظامات پر حاوی ہونا شروع کر دے گی۔ لہٰذا ہم سب کو سرگرمی کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔
ہمیں خود سے دیانت دار بننا ہوگا اور خود سے کچھ گہرے سوالات پوچھنا ہوں گے:
میں اس سیارے پر اپنا محدود وقت کیسے گزار رہا ہوں؟
کیا میں اپنی اہلیت کے مطابق پوری زندگی گزار رہا ہوں؟
کیا میں ہر دن اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں؟
کیا میں ابھی اپنی پوری صلاحیت کے مطابق کام کر رہا ہوں؟

سرگرمی کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے ، جیم روہن ہمیں چیونٹیوں اور ان کے فلسفے کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ، جو آسان اور سادہ لیکن طاقت ور ہے۔ یہ بنیادی طور پر چار حصوں پر مشتمل ہے. آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

اول، چیونٹیاں کبھی چپ ہو کر نہیں بیٹھتیں:
جب وہ کہیں جا رہی ہوں اور آپ ان کے سامنے کوئی بڑی رکاوٹ ڈال کر انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ وہ اوپر چڑھتی ہیں ، نیچے سے نکلنے کی کوشش کرتی ہیں یا پھر دوسری جانب نکل پڑتی ہیں لیکن کبھی ہمت نہیں ہارتیں۔

دوئم، چیونٹیاں موسم گرما میں موسم سرما کے بارے میں سوچتی ہیں:
یہ ایک اہم تناظر ہے۔ ہم اس قدر بھی احمق نہیں کہ یہ سوچیں کہ گرمیاں ہمیشہ رہیں گی۔ لیکن چیونٹیاں اس بات کو ہم سے بہتر جانتی ہیں ، یا ہوسکتا ہے کہ وہ تخت کے کھیل Game Of Throne کی مداح ہوں اور جانتی ہوں کہ "موسم سرما آ رہا ہے”۔ لہٰذا ، وہ موسم گرما کے وسط میں ہی سردیوں کے لیے کھانا جمع کرتی ہیں۔ عملی بات کرنا اچھا ہے۔ مستقبل کے بارے میں سوچنا اور منصوبہ بندی کرنا اچھی بات ہے۔ جیسا کہ مشہور کہاوت ہے ، تیاری کرنے میں ناکام ہونا، ناکام ہونے کی تیاری کرنے جیسا ہوتا ہے۔

سوئم، چیونٹیاں موسم سرما میں موسم گرما کے لیے سوچتی ہیں:
ایک مرتبہ پھر یہ بہت ہی اہم ہے. چیونٹیاں کبھی سکون پذیر نہیں ہوتیں، خود کو بدلتے حالات کے مطابق ڈھالنے کی حد درجہ صلاحیت رکھتی ہیں۔ سردیوں کے موسم میں ، وہ خود کو مسلسل یاد دلاتی ہیں ، "یہ موسم زیادہ دیر تک نہیں چل پائے گا اور جلد ہی ہم یہاں سے چلی جائیں گی۔” جیسے ہی پہلا گرم دن آتا ہے ، چیونٹیاں کھل کر باہر آ جاتی ہیں۔ اگر دوبارہ سردی پڑ جائے تو وہ دوبارہ اندر چلی جاتی ہیں ، لیکن ایک بار گرم ہوجانے کے بعد ، وہ ایک مرتبہ پھر باہر آ جاتی ہیں۔ بس، آپ انہیں متحرک ہونے سے کبھی نہیں روک سکتے۔

چہارم، چیونٹیوں کا خیال ہے کہ "آپ ممکنہ طور پر سب کچھ کر سکتے ہیں۔”:
چیونٹیاں سخت جان مخلوق ہیں۔ اگر آپ پوچھتے ہیں کہ موسم سرما کی تیاری کے لیے گرمی کے دوران چیونٹیاں کتنا جمع کر سکتی ہیں تو ، اس کا جواب ہوگا: اتنا، جتنا ممکنہ طور پر وہ کر سکتی ہیں۔ چیونٹیاں "بس، بہت ہو گیا” کے فلسفے کو  نہیں مانتیں۔ ان کے پاس محدود کوٹہ کا تصور نہیں ہے، جسے جمع کر کے وہ مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں. وہ ہمیشہ کثرت کی جستجو میں کوشاں رہتی ہیں۔ چیونٹیاں خود کو  روکتی نہیں ہیں ۔ اگر یہ زیادہ کام کرسکتی ہیں تو  ہمیشہ کرتی ہیں.

آخری بات:
یہ مضمون پڑھتے اور اس کا ترجمہ کرتے وقت میرے ذہن میں امیر تیمور لنگ کا مشہور واقعہ ذہن میں آ گیا، جس کا ذکر یہاں بے مہل نہیں ہوگا. کہتے ہیں کہ تیمور لنگ پہ در پہ شکستیں کھا کر پریشان اور متفکر بیٹھا اپنے حالات کے بارے میں غور کر رہا تھا. پریشان حال تیمور لنگ نے دیکھا کہ ایک چیونٹی دیوار پر چڑھ رہی ہے اور چڑھنے کی کوشش میں بار بار گر ری ہے، لیکن بار بار گرنے کے باوجود اپنی کوشش کو ترک نہیں کرتی. بالآخر وہ چیونٹی دیوار پر چڑھنے کی اپنی کوشش میں  کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس ایک لمحے کے ایک چھوٹے سے واقعے کے مشاہدے کے نتیجے میں تیمور لنگ نے جو بڑا سبق اور نیا حوصلہ حاصل کیا، اس نے بعد کی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی. (امر گل)

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close