سولہ برس میں بننے والی فلم پاکیزہ جو مینا کماری کی موت سے ’ہٹ‘ ثابت ہوئی

فاروق اعظم

سن 1950ء کی دہائی میں فلمستان سٹوڈیو اور کے آصف کے درمیان ’انار کلی‘ بنانے کے لیے کانٹے کا مقابلہ تھا۔ فلمستان سٹوڈیو نے انتہائی تیز رفتاری سے انارکلی بنا کر اسی نام سے 1953ء میں ریلیز کر دی۔

کے آصف کا خواب مغل اعظم کی صورت میں سات برس بعد سینما کی زینت بنا۔ اس دوڑ میں شریک ایک اور فلم ساز کمال امروہوی راستے سے ہی واپس ہو لیے۔ وہ میناکماری کو انارکلی کے روپ میں پیش کرنا چاہتے تھے لیکن سی رام چندر کے لاجواب میوزک سے آراستہ انارکلی (1953) نے ان کے ارمانوں پر اوس ڈال دی۔ اب وہ مغل اعظم کے مکالمہ نگاروں کی ٹیم کا حصہ بن چکے تھے۔

مغل اعظم کا عالی شان سیٹ اور کے آصف کی لگن سے کمال امروہوی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان پر یہ بات بھی واضح ہو چکی تھی کہ انارکلی کے موضوع پر کے آصف جیسی فلم کوئی دوسرا نہیں بنا سکتا۔ انہوں نے موضوع تبدیل کیا، پس منظر وہی ہندوستان کا مسلم سماج رکھا اور تازہ دم ہو کر ایک بڑی جست لگانے کی ٹھانی۔

’پاکیزہ‘ وہ پہلا خواب نہیں، جو کمال امروہوی اور میناکماری نے ایک ساتھ دیکھا ہو۔ 1952ء میں شادی کے بعد دونوں اپنی پریم کہانی دائرہ (1953) کی صورت میں پردے پر پیش کر چکے تھے۔ فلم ناکام ہوئی اور کمال امروہوی کا کیرئیر ہچکولے کھانے لگا۔ اب انہیں محض مینا سے اپنی محبت کا اظہار ہی نہیں بلکہ اپنے ڈوبتے کیرئیر کو بچانے کا چیلنج بھی درپیش تھا۔

1956ء میں سکرپٹ تیار ہوا اور عکس بندی کے لیے شملہ، دہلی، بنارس اور لکھنؤ میں بہت سے تاریخی مقامات دیکھے گئے۔ 18 جنوری 1957ء کو عکس بندی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ کسے خبر تھی کہ یہ فلم ریلیز ہونے میں 16برس لگ جائیں گے۔ لیکن بعض فلمیں اپنی اندر دو کہانیاں رکھتی ہیں، ایک کہانی، جو ہم پردے پر دیکھتے ہیں اور دوسری کہانی، جو ہماری نظروں سے اوجھل فلم بننے کی ہوتی ہے۔ آج ہم اسی پس منظر میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ آخر کس لیے طوائف کے موضوع پر بننے والی بہترین فلموں میں سے ایک شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہوتی چلی گئی۔

آج چاہے پاکیزہ کا خیال آتے ہی سب سے پہلے دل و دماغ میں غلام محمد کے مدھر گیت گونجنے لگتے ہوں لیکن کمال امروہوی اور میناکماری کے بغیر وہ کینوس وجود میں ہی نہ آتا، جس پر بعد میں اُس گمنام مگر انتہائی گُنی موسیقار نے سروں کے رنگ بکھیرے۔

فلم ساز و ہدایت کار کمال امروہوی اور مرکزی کردار میناکماری اس گاڑی کے دو پہیے تھے۔ سو پاکیزہ کے آگے بڑھنے، نہ بڑھنے، تیز یا سست رفتار حرکت، غرض ہر چیز کا دارومدار ان دونوں پر تھا۔ آغاز میں سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا لیکن بہت جلد دونوں کی گھریلو تلخی اس ڈریم پراجیکٹ کو سبوتاژ کرنے لگی۔ کمال امروہوی کو مینا کماری کی دھرمیندر اور گلزار جیسے نوجوانوں سے مبینہ قربت کَھلتی تھی تو مینا کو شکوہ تھا کہ اسے بے جا نگرانی سے خواہ مخواہ زچ کیا جا رہا ہے۔

محبت کے مدھر گیت نفرت کے شور میں گم ہونے لگے۔ اعتماد کی جگہ شک کا زہر دلوں میں اترنے لگا۔ اب بات تلخی سے جھگڑے اور جھگڑے سے گھر چھوڑنے تک پہنچ چکی تھی۔ مینا کماری ایک دن ایسی گئیں کہ کمال اور پاکیزہ پانچ برس تک ان کی راہ دیکھتے رہ گئے۔

ابتدا میں کمال امروہوی نے اپنی منجو (وہ اپنی بیوی کو پیار سے منجو کہتے تھے) کو گھر واپس لانے کی کوشش کی لیکن اپنی بہن کے گھر ایک کمرے میں بند مینا کماری نے دروازہ نہیں کھولا۔ بہت دیر دستک اور التجا کے بعد کمال نے کہا،’’میں جا رہا ہوں اور اب کبھی نہیں آؤں گا۔‘‘ کمال امروہوی مایوس ہو کر گھر بیٹھ گئے جبکہ مینا کماری اپنی فلموں میں مصروف رہیں۔

کمال کی مشکل یہ تھی کہ مینا کماری کے علاؤہ کوئی دوسری اداکارہ ‘صاحب جان‘ بن ہی نہیں سکتی تھی۔ فارسٹ آفیسر سلیم کے کردار کے لیے کمال امروہوی نے ابتدا میں اپنے آپ کو، پھر اشوک کمار اور بالآخر راج کمار کو منتخب کیا لیکن صاحب جان پہلے دن سے ہی مینا کماری تھیں۔

جرمن سینماٹوگرافر جوزف ورشنگ 1967ء اور موسیقار غلام محمد 1968ء کو یہ شاہکار ادھورا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ تب نرگس اور سنیل دت سمیت کئی لوگ صلح کی کوشش کر رہے تھے۔ دو انتہائی اہم لوگوں کی بے وقت موت اور بہت سے نیک خواہشات رکھنے والے دوستوں کا اصرار دیکھتے ہوئے کمال امروہوی نے اپنی ضد چھوڑ دی۔

انہوں نے اپنی منجو کو ایک خط لکھا، ”آپ نے شرط رکھی کہ جب تک میں تمہیں طلاق نہ دے دوں تم پاکیزہ مکمل نہیں کرو گی، میں تمہیں رشتہ ازدواج سے آزاد کر دوں گا۔ اس کے بعد اگر آپ اپنی پاکیزہ مکمل کرنے کے لیے رضامند ہوں تو مجھے بے حد خوشی ہو گی۔۔۔۔۔۔ پاکیزہ ایک ڈوبتی ہوئی کشتی ہے، جو تمہاری نگہبانی میں پار لگ جائے گی۔‘‘

اس وقت محض پاکیزہ کو مینا کماری کی نہیں بلکہ مینا کماری کو بھی پاکیزہ کی ضرورت تھی۔ میناکماری کا حسن ماند پڑنے لگا تھا اور مرکزی کے بجائے ثانوی کردار آفر ہو رہے تھے۔ دونوں کو اپنی اپنی مجبوریاں قریب لے آئیں اور اس طرح 16 مارچ 1969ء کو تقریباً پانچ برس بعد فلم کی شوٹنگ دوبارہ شروع ہوئی۔ نومبر 1971ء تک فلم کی عکس بندی مکمل ہو چکی تھی۔

مسلم سماجی پس منظر سے، جس قدر کمال امروہوی نے انصاف کیا، وہ کے آصف کو چھوڑ کر شاید ہی کسی دوسرے فلم ساز نے کیا ہو۔ محض ‘انہی لوگوں نے‘ کی عکس بندی میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے کمال امروہوی نے فلمستان سٹوڈیو میں چار منزلہ بازار حسن تعمیر کرنے کے لیے تقریباً دس لاکھ خرچ کر ڈالے۔ فلم کا مجموعی بجٹ کم و بیش ڈیڑھ کروڑ تک جا پہنچا۔ کمال امروہوی کی حد کمال کو چھو لینے کی ہنرمندی اپنی جگہ لیکن باکس آفس کے پیمانے ہمیشہ کچھ اور رہے۔ اب سب سے بڑا چیلنج فلم کی کمرشل کامیابی تھی۔ کمال امروہوی کا سب کچھ داؤ پر لگا تھا۔

ابتدائی طور پر فلم 1971ء میں سینما گھروں کی زینت بننا تھی لیکن پاک بھارت جنگ کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گئی۔ چار فروری 1972ء کو فلم ریلیز ہوئی اور ابتدائی ردعمل مایوس کن تھا۔ بمبئی کی فلم انڈسٹری اس وقت راجیش کھنہ کی کرشماتی لہر کے دوش پہ تھی۔ فلم سازی کا رجحان اور شائقین کا ذوق دونوں بدل چکے تھے۔

کثرت مے نوشی مینا کماری کے چراغ کی لو روز بروز مدھم کر رہی تھی۔ 31 مارچ کو مینا کماری کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا۔ ہمدردی کی لہر لوگوں کو سینما گھروں میں کھینچ لائی۔ ٹریجڈی کوئین کو آخری خراج تحسین پیش کرنے کے لیے سیمنا گھروں میں لوگوں کا سمندر اُمڈ آیا۔ ابتدائی طور پر، جو فلم خسارے میں جا رہی تھی، وہ تقریباً چھ کروڑ کماتے ہوئے سال کی کامیاب ترین فلم ٹھہری۔

اس فلم کو ریلیز ہوئے نصف صدی ہو چکی لیکن آج بھی یہ فلم مینا کماری کی جاندار اداکاری، کمال امروہوی کی باکمال ہدایت کاری اور غلام محمد کے لاجواب میوزک کی بدولت فلم بینوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close