”تصادم ہوتا ہے تو ہو!“ 23 اسلام آباد کی طرف مارچ، 27 کو حکومت اور اپوزیشن کے جلسے. کیا اسلام آباد جنگ کا میدان بننے جا رہا ہے؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – ’ن لیگ، پیپلز پارٹی عمران خان کے مقابلے کا ایک جلسہ کر کے دکھا دیں‘ حکمراں جماعت

”ن لیگ جلسہ کرے گی، تصادم ہوتا ہے تو ہو“ ن لیگ

”دیکھیں گے کہ کس مائی کے لال میں کلیجہ ہے کہ دس لاکھ کے مجمع سے گزر کر وزیراعظم عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالے اور واپس چلا جائے“ حکمراں جماعت

”ہم بھی جلسہ کریں گے، کسی مائی کے لال میں دم ہے تو روک کر دکھائے“ ن لیگ

”ہم بہت کچھ کرنے جا رہے ہیں، انہوں نے ہمیں دھمکیاں دی ہیں، یہ کوئی مذاق ہے؟ انہیں چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے“ مولانا فضل الرحمٰن

”حکومت دس لاکھ افراد کو پارلیمنٹ کے باہر اکٹھا کرنا چاہتی ہے، تو ہم بھی اس سے زیادہ لوگ پارلیمنٹ کے باہر اکٹھے کریں گے“ خورشید شاہ

یہ ہیں وہ بیانات، جو ملک کی موجودہ سیاسی گرما گرمی کے چڑھتے پارے کی عکاسی کرتے ہیں. اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد ووٹنگ سے قبل حالات دن بدن سیاسی تصادم کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں

وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک پر اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ امکان ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 28 مارچ کو ہوگی تاہم اس سے ایک روز قبل حکمران جماعت نے پارلیمنٹ کے باہر ڈی چوک میں سیاسی جلسہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے

دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی 23 مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے

انہوں نے پیر کی شام میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’23 مارچ کو ملک بھر سے قافلے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوں گے اور 24 مارچ کو اسلام آباد پہنچیں گے۔ اسلام آباد پہنچ کر فیصلہ ہوگا کہ کب تک اسلام آباد میں رہنا ہے۔‘

اس سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس میں جب جائے گی، تو پارلیمنٹ کے باہر تحریک انصاف کے کارکنان کے بیچ میں سے ہو کر گزرنا پڑے گا، تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کے بعد بھی جب اس کے ارکان پارلیمنٹ سے نکلیں گے تو انہیں کارکنوں کا سامنا ہوگا۔
اس صورت حال پر اپوزیشن کی جماعتوں نے بھی سر جوڑ لیے ہیں

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اوورسیز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آج دوبارہ کہا ہے کہ کس مائی کے لال میں کلیجہ ہے کہ دس لاکھ کے مجمع سے گزر کر وزیراعظم عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالے اور واپس چلا جائے

وفاقی وزیر نے مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی عمران خان کی طرح جلسے کرنے کا چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اپنے گھر میں تو کتا بھی شیر ہوتا ہے، مائی کے لال بنو، عمران خان کی طرح جلسے کرکے دکھاؤ

انہوں نے کہا کہ ہمارا صدر اور وزیراعظم وہ نہیں، جن کی امریکی صدر کے سامنے ”کانپیں ٹانگ رہی ہوں“

انہوں نے اپوزیشن کو للکارتے ہوئے کہا کہ ہم باہر نکل کر لاکھوں کے اجتماع سے باتیں کر رہے ہیں، آپ کر کے دکھائیں

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کوئی شک نہیں ذوالفقار علی بھٹو اور بےنظیر بھٹو پاکستان کے بہت بڑے لیڈر تھے، ضیاالحق پیپلز پارٹی کو محدود نہیں کرسکا تھا، آصف زرداری صاحب نے سات سال میں ضیاالحق کا خواب پورا کردیا

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے 27 مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک بڑا جلسہ کرنے کے اعلان کے بعد حزب اختلاف کی اہم جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی اسی دن دارالحکومت میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے

اپوزیشن جماعتوں کو پیر کو دیے گئے عشائیے کے بعد ن لیگ کے سینیئر رہنما خواجہ آصف نے میڈیا کو بتایا کہ وہ بھی اسی تاریخ کو جلسہ کریں گے۔ ’جتنا ان کا حق ہے ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے۔ اسی روز جلسہ کریں گے۔‘

انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کہا کہ ’اللہ کا فضل ہے ہمارے نمبر پورے ہیں۔ ایک آئینی طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔‘

حکمران جماعت کی اتحادی جماعتوں کے فیصلے سے متعلق انہوں نے کہا کہ اتحادیوں سے متعلق کچھ بتانے کی اجازت نہیں۔ اپنی حکمت عملی میڈیا کے سامنے تو نہیں رکھ سکتے۔
اس سے قبل آج اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اتحادی جماعتوں سے رابطوں اور قانونی نکات پر بریفنگ دی گئی

اجلاس کے بعد وزیر داخلہ شیخ رشید نے میڈیا سے بات کرتے کہا کہ ’وزیراعظم نے کہا ہے کہ اتحادیوں سے معاملات کافی بہتر ہیں، وہ انشااللہ ہمارے ساتھ ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم نے ڈی چوک جلسے میں 10 لاکھ لوگ لانے کی ہدایت کی اور کہا کہ ملک کے کونے کونے سے لوگوں کو ڈی چوک لایا جائے۔‘

اس موقع پر فواد چوہدری نے بھی کہا کہ ’ملکی تاریخ کا مدر آف آل جلسہ ڈی چوک پر ہونے جا رہا ہے۔‘

فواد چوہدری نے کہا کہ اس وقت لوگوں کو کروڑوں روپے کی آفرز کی جا رہی ہیں، فضل الرحمٰن، شہباز شریف اور آصف زرداری لوگوں کو خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس جس کو آفر کی گئیں اس نے پارٹی میں آکر بتایا ہے۔‘

وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان کبھی بلیک میل نہیں ہوئے نہ آئندہ ہوں گے۔‘

اتحادیوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم عمران خان چوہدری شجاعت حسین کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ مسلم لیگ ق نے ہمیشہ ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔ تمام اتحادی ہمارے ساتھ رہیں گے۔‘

صرف مسلم لیگ (ن) لیگ ہی نہیں اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بھی 28 مارچ کے لیے نہ صرف تیاریاں شروع کر دی ہیں بلکہ اپنے کارکنوں کو کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کا حکم بھی دے دیا ہے

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ترجمان اسلم غوری کا کہنا ہے ’ہماری جماعت کسی بھی صورتحال کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور مولانا فضل الرحمن نے تمام کارکنوں کو اس حوالے سے ہدایات بھی جاری کی ہیں‘

ان کے مطابق ’اگر حکومت نے کسی بھی طریقے سے عدم اعتماد کے راستے میں رکاوٹ ڈالی تو اس سے پہلے ہی کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے کی حتمی کال دی جائے گی

انہوں نے کہا کہ حکومت نے رکاوٹ ڈالی تو تصادم کا خطرہ ہوگا اور اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی‘

پیپلز پارٹی نے بھی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کے باہر جلسے کے اعلان پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے

سابق اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی خورشید شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر حکومت دس لاکھ افراد کو پارلیمنٹ کے باہر اکٹھا کرنا چاہتی ہے تو ہم بھی اس سے زیادہ لوگ پارلیمنٹ کے باہر اکٹھے کریں گے ہم حکومت کو طاقت کے بل پر ایک آئینی اور قانونی عمل کو سبوتاژ نہیں کرنے دیں گے۔ حکومت جو بھی کرے گی اس کو اسی زبان میں جواب دیا جائے گا

اس حوالے سے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کا اجلاس پیر کو لاہور میں منعقد ہوا، جس کی صدارت حمزہ شہباز نے کی۔ اجلاس میں پارٹی کی حکمت عملی پر غور ہوا

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان عظمٰی بخاری نے بتایا کہ ’ہم نے اس حوالے سے تیاری مکمل کر لی ہے، حکومت بھلے جتنے مرضی بندے پارلیمنٹ کے باہر کھڑے کرے، اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے کہ اپوزیشن اپنے تمام 172 اراکین کے ساتھ اکٹھے پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہوگی‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے کارکن ان تمام اراکین اسمبلی کی حفاظت کر رہے ہوں گے اور تمام اراکین ایک ہی وقت میں پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہوں گے۔ اگر اس دوران حکمران جماعت نے کسی بھی قسم کی شرارت کی تو حالات کی ذمہ دار صرف حکومت ہوگی‘

عظمیٰ بخاری کے مطابق ’پنجاب میں پارٹی کے صدر رانا ثنا اللہ نے پنجاب کے تمام کارکنوں کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے اور اگر پارٹی اسلام آباد جانے کا فیصلہ کرتی ہے تو کارکنوں کو فوری اطلاع دی جائے گی، تاہم فی الوقت ہمارا فیصلہ یہی ہے کہ تمام اراکین اسمبلی ایک ہی وقت میں پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہوں اور ان کے ارد گرد حفاظت کے لیے کارکن موجود رہیں گے‘

پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کا 23 مارچ کو اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 23 مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ مارچ کتنے دن تک اسلام آباد میں رہے گا، اس کا فیصلہ بعد میں ہوگا‘

اسلام آباد میں پیر کی رات صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے لانگ مارچ کے اعلان پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ’ ہم بہت کچھ کرنے جا رہے ہیں، انہوں نے ہمیں دھمکیاں دی ہیں، یہ کوئی مذاق ہے، چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے۔’

جے یو آئی ف کے سربراہ نے بتایا کہ شہباز شریف کی رہائش گاہ پر اپوزیشن قائدین کا اجلاس ہوا۔ انہوں نے کہا کہ 23 مارچ کو پی ڈی ایم نے جس مارچ کا اعلان کیا تھا، وہ ہو کر رہے گا، جس میں پورے ملک سے لوگ شریک ہوں گے

انھوں نے الیکشن کمیشن سے فارن فنڈنگ کیس کا فوری فیصلہ کرنے کا بھی مطالبہ کیا

پی ڈی ایم سربراہ کے لانگ مارچ کے اعلان کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ‘پہلے ہی کہا تھا کہ فضل الرحمٰن کا اصل ایجنڈا اسلامی وزرائے خارجہ کی کانفرنس کے خلاف ہے۔ 15 سال بعد اسلامی وزراء خارجہ کانفرنس کا اجلاس ان کو ہضم نہیں ہو رہا، اس لیے 23 مارچ کو اسلام آباد بلاک کرنا چاہتے ہیں جب پورا ملک یوم تشکر منا رہا ہو گا، ہم فسادیوں سے نبٹنا جانتے ہیں’

چوہدری شجاعت کی حکومت اور اپوزیشن سے جلسے منسوخ کرنے کی اپیل

مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے حکومت اور اپوزیشن سے اپیل کی ہے کہ جن جلسوں کا اعلان کیا گیا ہے، ملکی مفاد میں ان کی فوراً منسوخی کا اعلان کریں

جاری کیے گئے بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی اور سیاسی حالات اس خطرناک محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے

سربراہ ق لیگ چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ عوام حکومت اور اپوزیشن کے جلسوں اور نمبرز کی سیاست سے سخت پریشان ہیں

چوہدری شجاعت نے کہا کہ یہ سیاسی مقابلہ ملک میں سیاسی افراتفری اور بحران پیدا کر سکتا ہے، دونوں فریقین اپنے اپنے کارکنوں کو اشتعال انگیز سیاست کا راستہ مت دکھائیں

تحریک عدم اعتماد اور ملاقاتیں

پاکستان کے دارالحکومت میں اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں افواہوں اور اندازوں کے درمیان سیاسی جماعتوں کے رابطوں، ملاقاتوں اور مشاورت میں تیزی دیکھنے کو ملی

ایک جانب وزیر اعظم عمران خان خود چل کر اتحادی جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی اور جی ڈی اے سے ملنے پارلیمنٹ لاجز پہنچے تو دوسری جانب شہباز شریف نے اپوزیشن رہنماؤں کو عشایے پر اکھٹا کیا

واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے بیشتر رہنما گزشتہ چند دنوں سے یہ بات دہرا رہے ہیں کہ ان کو اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا یقین ہے

ایسے میں وزیر اعظم عمران خان کا اچانک سینیئر رہنماؤں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے ساتھ پارلیمنٹ لاجز جانا بھی قیاس آرائیوں کا باعث بنا لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ بی اے پی اور جی ڈی اے دونوں اتحادی حکومت کے ساتھ ہی کھڑے ہیں

اس غیر یقینی کی فضا کی ایک بڑی وجہ شاید وہ دو بڑی حکومتی اتحادی جماعتیں ہیں جن کا فیصلہ اپویشن کی تحریک عدم اعتماد کا بھی فیصلہ کرے گا۔ یہ جماعتیں ق لیگ اور ایم کیو ایم ہیں جن کے درمیان پیر کی رات ایک اہم ملاقات کی اطلاع تو سب نے سنی لیکن وہ ساتھ کس کا دیں گے، یہ راز اب تک سینے سے ہی لگائے بیٹھے ہیں

حمزہ شہباز، ترین گروپ میں ’عثمان بزدار کو ہٹانے پر اتفاق‘
پیر کے دن کی ایک اور اہم پیش رفت میں لاہور میں ن لیگی رہنما حمزہ شہباز سابق تحریک انصاف رہنما جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر ان کے حامی گروپ سے ملنے گئے۔ واضح رہے کہ جہانگیر ترین خود لندن میں موجود ہیں

حمزہ شہباز شریف اور جہانگیر خان ترین گروپ کی ملاقات کے بعد ن لیگ کے سوشل میڈیا ہینڈل سے جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کو ہٹانے پر اتفاق ہوا

اعلامیے میں کہا گیا کہ ترین گروپ کے اراکین نے صوبے کے معاملات پر مایوسی کا اظہار اور مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی کرپشن پر تشویش کا اظہار کیا

ایم کیو ایم کے وفد نے ق لیگ کے رہنما چوہدری شجاعت کے گھر پر جانے سے پہلے اسلام آباد میں ہی پیپلز پارٹی کے وفد سے اہم ملاقات کی جس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد میں حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقات میں پی پی پی کا ایم کیو ایم کے تمام تر نکات سے اتفاق ہوا

پاکستان پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعے بتایا گیا کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ایم کیوایم وفد کی ملاقات ہوئی جس میں ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا

اعلامیے کے مطابق ملاقات میں پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے ملک کے وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا

تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ایم کیو ایم کا موقف بھی سامنے آیا جس میں واضح کیا گیا کہ خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں پیپلزپارٹی سے ملاقات گزشتہ دنوں دونوں جماعتوں کے درمیان رابطوں کا تسلسل تھی اور سیاسی صورت حال بشمول تحریک عدم اعتماد پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے

ایم کیو ایم کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ملاقات کے دوران کراچی اور حیدر آباد سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل پر ایم کیو ایم نے اپنا موقف پیش کیا جس پر پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم سے مستقل اور بہتر روابط پر اتفاق کیا

تحریکِ انصاف کا 27 مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر جلسہ

اس سے پہلے پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے 27 مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر جلسہ عام کرنے کا اعلان کیا گیا ہے

پیر کو پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کی جانب سے کی گئی ٹویٹس میں کہا گیا کہ ’کپتان نے ڈی چوک اسلام آباد جلسے کا حتمی فیصلہ کر لیا، انشااللہ 27 مارچ کو تاریخ ساز اجتماع ہونے جا رہا ہے‘

اس حوالے اسد عمر نے مزید لکھا کہ ’دنیا دیکھے گی پاکستان کی عوام کیسے اپنی آزادی اور خود مختاری کے لیے اپنے کپتان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں‘

اس سے قبل تحریک انصاف کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے ایک روز قبل ڈی چوک میں جلسے کے انعقاد کیا جائے گا تاہم تاحال تحریک عدم اعتماد کے لیے اجلاس بلانے اور اس پر ووٹنگ کی تاریخوں کا اعلان نہیں کیا گیا ہے

سینیٹیر فیصل جاوید خان نے کہا کہ ’عدم اعتماد پر ووٹنگ کی تاریخ اسپیکر قومی اسمبلی دیں گے اور یہ 27 مارچ کے بعد کوئی بھی تاریخ ہو سکتی ہے۔‘

اسلام آباد میں جلسہ کرنے کا اعلان پیر کے روز پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میٹنگ کے اجلاس کے بعد کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق پارٹی کی کور کمیٹی نے ’عمران خان پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔‘

اس حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ ’اجلاس حکومت نے نہیں اسپیکر نے بلانا ہے اور اس بارے میں وہ وزارتِ خارجہ کے ساتھ رابطے میں ہیں کیونکہ او آئی سی کا اجلاس پارلیمان میں ہونا ہے۔ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ جلد از جلد ہو۔‘

 ’جو ووٹ دینے جائے گا اسے جلسے کے شرکا کے درمیان سے گزر کر جانا ہو گا‘

کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے ڈی چوک کے جلسے کو ’تمام جلسوں کی ماں قرار‘ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس جلسے میں ملک بھر سے ’دس لاکھ افراد کی شرکت متوقع ہے۔‘

پی ٹی آئی کے رہنما عامر محمود کیانی نے ڈی چوک میں ہونے والے جلسے سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس جلسے میں 10 لاکھ افراد کی شرکت متوقع ہے اور یہ جلسہ پاکستان کی آئندہ آنے والی سیاست کے رُخ کا تعین کرے گا۔‘

انیوں نے کہا کہ ’جس نے ووٹ ڈالنا ہوگا، وہ اس دس لاکھ کے ہجوم میں سے گزر کر جائے گا اور جب ووٹ ڈال کر آئے گا تب بھی یہیں سے گزر کر جائے گا۔ اس لیے اپنی پیٹیاں کس لیں کیونکہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہو گا۔‘

جب عامر کیانی سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ بات ’منحرف اراکین‘ کے لیے دھمکی ہے اور کیا یہی حکومت کی حکمتِ عملی ہوگی تو اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک سیاسی جماعت ہیں اور ہماری حکمتِ عملی یہی ہو گی، اور باتیں ازراہِ گفتگو ہوتی ہیں۔‘

حکومتی رہنماؤں کی اس پریس کانفرنس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیئر رہنما شیری رحمان نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اسے اپوزیشن کو ڈرانے اور دھمکانے کی حکمت عملی قرار دیا

اپوزیشن رہنماؤں کی سکیورٹی سے متعلق سوال پر فواد چوہدری نے صحافی کو جواب دیا کہ ’نہ آپ کو کوئی خطرہ ہے، نہ ہی اُن کو کوئی خطرہ ہے۔‘

فواد چوہدری کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ’سیاست، حکومت اور مستقبل ہمارے پاس ہے۔‘

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’آپ نے دیکھا کہ جس طرح کے جلسے ہو رہے ہیں، کل حافظ آباد میں ہوا، اس سے پہلے میلسی، منڈی بہاؤالدین، لوئر دیر اور اب سوات میں ہونے جا رہا ہے اور پھر تمام جلسوں کی ماں ڈی چوک پر ہونے جا رہا ہے۔‘

انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’نواز شریف اور آصف زرداری کا شکریہ کہ وہ عدم اعتماد لے کر آئے کیونکہ ہماری جماعت خود بھی سستیوں میں پڑ گئی تھی۔‘

’انھوں نے ایک سوئے ہوئے شیر کو جگا دیا ہے اور آج تحریک انصاف کا کارکن جو گھروں میں بیٹھا ہوا تھا وہ اس طرح سے باہر نکلا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘

’ن لیگ، پیپلز پارٹی عمران خان کے مقابلے کا ایک جلسہ کر کے دکھا دیں‘

اس حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’میں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ عمران خان کے مقابلے کا ایک جلسہ ہی کر کے دکھا دیں، ایک عوامی ریفرنڈم کا پتا چل جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عمران خان اور پی ٹی آئی کبھی بلیک میل نہیں ہوئے اور ہم پوری قوت سے عمران خان کے پیچھے کھڑے ہیں اور اس وقت عمران خان کے پاس جو فارمولا ہے اس کے بعد اپوزیشن کو ہاتھ ملتے ہوئے بھی دیکھیں گے، انھیں سمجھ نہیں آئی گی کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کی قانونی حکمتِ عملی بھی ہمارے پاس ہے اور تاش کے سارے پتے ہمارے پاس ہیں، ہم فیصلہ کریں گے کے اگلی چال کیا ہو گی۔ اگلی چال جو بھی ہو گی، آپ سے وعدہ ہے کہ ان تین جوکرز کا یہ آخری کھیل اس کے بعد یہ نظر نہیں آئیں گے۔‘

وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا کہ ’تحریک انصاف کے یوتھ ونگ کے اراکین تیار رہیں۔ فضل الرحمٰن کا نیا فتنہ ہے کہ لانگ مارچ کر کے ڈی چوک پر قبضہ کر کے 27 مارچ کے جلسے کو ناکام کیا جائے۔ یوتھ ونگ وہاں پر پہلے ہی اپنا پروگرام شروع کرے گی اور ڈی چوک کے جلسے کی تیاری 24 مارچ سے ہی ڈی چوک میں خیمے لگا کر شروع کر دیں گے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close