محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر سے خبردار کر دیا، وجہ ماحولیاتی تبدیلی!

نیوز ڈیسک

کراچی – محکمہ موسمیات کی جانب سے 14 مارچ کو جاری کردہ ایک ایڈوائزی کے مطابق شمالی بلوچستان، بالائی سندھ، جنوبی پنجاب، کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں دن کے اوقات کا درجہ حرارت 9 سے 10 ڈگری سینٹی گریڈ معمول سے زیادہ رہنے کا امکان ہے

جبکہ دارالحکومت اسلام آباد، بالائی اور وسطی پنجاب، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، زیریں سندھ اور جنوبی بلوچستان میں دن کا درجہ حرارت 7 سے 8 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہنے کا امکان ہے

محکمہ موسمیات کے ڈاکٹر ظہیرالدین کا کہنا ہے کہ ہیٹ ویو سے بچنے کے لیے شہری غیرضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں اور شہری سورج کی روشنی سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں

اُن کے مطابق پانی کا زیادہ استعمال بھی اس دوران از حد ضروری ہے۔ ان کے مطابق اس بار مارچ کے ہی مہینے سے گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار موسم گرما کا دورانیہ طوالت اختیار کر سکتا ہے

ڈاکٹر ظہیر کے مطابق 20 مارچ کے بعد گرمی کی شدت میں کچھ ریلیف ملنے کا امکان ہے

ماحولیاتی تبدیلی کے ماہر ڈاکٹر قمرزمان کہتے ہیں کہ درجہ حرارت میں اچانک تیزی سے اضافے کی بنیادی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے

ان کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق سنہ 2015 کے پیرس ایگریمنٹ پر عمل پیرا ہے، جس کے تحت تمام ممالک گرین ہاؤسز گیسز کے اخراج کو کم کرنا ہے

ان کے مطابق پاکستان نے سنہ 2030 تک اس میں 50 فیصد کمی لانے کا ہدف رکھا ہے۔ جبکہ ‘گلوبل وارمنگ’ کو کم رکھنے کے لیے تمام ممالک نے کوپ 26 کانفرنس میں اپنے اہداف کا ازسرنو جائزہ لیا ہے

شدید گرمی کے ہمارے جسم پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟

ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جیسے جیسے جسم کا درجہ حرارت گرم ہوتا ہے، خون کی نالیاں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس سے فشارِ خون میں کمی واقع ہوتی ہے اور دل کو جسم میں خون پہنچانے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے

اس کی وجہ سے جسم پر جلن پیدا کرنے والے نشانات بھی بن سکتے ہیں اور پیروں میں سوزش بھی ہو سکتی ہے

اس کے ساتھ ساتھ پسینہ بہنے کی وجہ سے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی واقع ہونے کی وجہ سے جسم میں ان کا توازن بگڑ جاتا ہے

ان علامات کے ساتھ کم فشارِ خون کی وجہ سے لو بھی لگ سکتی ہے جس کی علامات میں سر چکرانا، بے ہوش ہونا، الجھن کا شکار ہونا، متلی آنا، پٹھوں میں کھچاؤ محسوس کرنا، سر میں درد ہونا، شدید پسینہ آنا، تھکاوٹ محسوس کرنا وغيره شامل ہیں

جبکہ فشارِ خون بہت زیادہ حد تک گر جانے کی صورت میں دل کا دورہ پڑنے کے امکانات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے

ہمارا جسم یہ ردِ عمل کیوں دیتا ہے؟

چاہے ہم برفانی طوفان میں ہوں یا گرمی کی لہر میں، ہمارا جسم 37.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ وہ درجہ حرارت ہے، جس پر ہمارے جسم نے کام کرنا سیکھ لیا ہے

لیکن جیسے جیسے پارہ بڑھتا ہے، جسم کو اپنا بنیادی درجہ حرارت کم رکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ان حالات میں ہمارا جسم جلد کے قریب واقع شریانوں کو کھول دیتا ہے تاکہ ہمیں پسینہ آئے اور جسم کا درجہ حرارت کم ہو جائے

پسینہ خشک ہو کر جلد سے خارج ہونے والی گرمی کو ڈرامائی حد تک بڑھا دیتا ہے۔ سننے میں یہ عمل سادہ لگ رہا ہے لیکن یہ جسم پر کافی دباؤ ڈالتا ہے یعنی جتنا زیادہ درجہ حرارت بڑھتا ہے، اتنا ہی جسم پر دباؤ بڑھتا ہے

یہ کھلی شریانیں بلڈ پریشر گھٹا دیتی ہیں اور ہمارے دل کو جسم میں خون پہنچانے کے لیے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ کھلی شریانوں کے رسنے کی وجہ سے پاؤں میں سوجن اور گرمی دانوں پر خارش جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں

لیکن اگر بلڈ پریشر کافی کم ہو جائے تو جسم کے ان اعضا کو کم خون پہنچے گا، جنہیں اس کی بہت ضرورت ہے اور دل کے دورے کا خدشہ بڑھ جائے گا

لُو لگ جانے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

اگر جسم کا درجہ حرارت آدھے گھنٹے میں کم ہو جائے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے

برطانوی ادارہ نیشنل ہیلتھ سروسز تجویز کرتا ہے کہ:

• لُو سے متاثرہ شخص کو ٹھنڈی جگہ منتقل کریں

• اُسے لٹائیں اور اُس کے پاؤں کو ہلکا سا اوپر کریں

• اسے زیادہ مقدار میں پانی پلائیں، یا ری ہائڈریشن ڈرنکس یا مشروبات بھی دیے جا سکتے ہیں

• متاثرہ شخص کی جلد کو ٹھنڈا کریں، ٹھنڈے پانی کی مدد سے اس پر سپرے کریں اور پنکھے کی ہوا لگنے دیں۔ بغل اور گردن کے پاس آئس پیک یا برف بھی رکھی جا سکتی ہے

تاہم اگر متاثرہ شخص تیس منٹ کے اندر اندر بہتر محسوس نہ کرے تو اس کا مطلب ہے ان کو ہیٹ اسٹروک ہو گیا ہے۔ یہ ایک ہنگامی صورتحال ہے، جس میں فوراً طبّی امداد کی ضرورت ہوتی ہے

ہیٹ اسٹروک کا شکار ہونے والے افراد کو گرمی لگنے کے باوجود پسینہ آنا بند ہو سکتا ہے

متاثرہ شخص کے جسم کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہونے کے بعد وہ بے ہوش ہو سکتا ہے یا دورے پڑ سکتے ہیں

کس کو زیادہ خطرہ ہے؟

اگرچہ صحت مند افراد عام سمجھ بوجھ استعمال کر کے گرمی کی لہر میں خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں، لیکن کچھ لوگوں کو لُو لگنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ زیادہ عمر کے لوگ یا دل کے امراض کا شکار افراد کے لیے گرمی کی وجہ سے جسم پر پڑنے والے دباؤ سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے

شوگر 1 اور 2 کی وجہ سے جسم تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہوتا ہے اور بیماری کی وجہ سے شریانیں اور پسینہ پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے

یہ بات بھی اہم کردار ادا کرتی ہے کہ آپ کو سمجھ ہو کہ آپ کے جسم کا درجہ حرارت بہت بڑھ چکا ہے اور یہ کہ اس بارے میں آپ کو کچھ کرنا چاہیے۔ ہم اس بات کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن بچوں اور ذہنی امراض کے شکار افراد گرمی کی لہر کا زیادہ آسان شکار ہو سکتے ہیں

بے گھر افراد کو سورج کی تپش زیادہ محسوس ہوگی اور فلیٹ میں سب سے اوپر رہنے والے لوگوں کو بھی زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑے گا

کیا کچھ ادویات کا استعمال اس دوران نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے؟

جی ہاں! تاہم لوگوں کو معمول کے مطابق اپنی ادویات لینے کی ضرورت ہے اور اپنے جسم کے درجہ حرارت کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کریں اور زیادہ سے زیادہ پانی پئیں

ڈیوریٹکس، جنہیں ‘واٹر پلز’ بھی کہا جاتا ہے، جسم سے پانی کے اخراج میں اضافہ کرتی ہیں۔ انہیں دل کے عارضے میں مبتلا افراد استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ درجہ حرارت میں ان ادویات کے باعث جسم میں پانی کی کمی اور منرلز کا توازن خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے

اینٹی ہائپرٹینسو ادویات جو بلڈ پریشر میں کمی کا باعث بنتی ہیں، وہ ان خون کی نالیوں کو جوڑ دیتی ہیں، جو گرمی سے مقابلہ کرنے کے لیے پھول جاتی ہیں اور بلڈ پریشر میں خطرناک حد تک کمی کی وجہ بنتی ہیں

مرگی اور پارکنسنز جیسی بیماریوں کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کی وجہ سے پسینہ آنا بند ہو جاتا ہے، جو جسم کو ٹھنڈا کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے

ان ادویات میں لتھیئم اور سٹیٹنز بھی شامل ہوتے ہیں ، جو خون میں اپنی مقدار میں اضافہ کرتے ہوئے ایک مسئلہ بن سکتے ہیں

کیا گرمی سے موت واقع ہو سکتی ہے؟

جان لیں کہ صرف انگلینڈ میں ہر سال دو ہزار افراد زیادہ درجہ حرارت کے باعث ہلاک ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر دل کا دورہ پڑنے اور اسٹروکس کے باعث ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ جسم اپنے درجہ حرارت کو نارمل رکھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے

زیادہ اموات اس وقت واقع ہوتی ہیں جب درجہ حرارت 25-26 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے سامنے آنے والے شواہد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر اموات بہار یا موسمِ گرما کے آغاز میں ہوتی ہیں، نہ کہ موسم گرما کے عروج پر

اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ ہم گرمیوں کی آمد پر اپنے روز مرہ کے رویوں میں تبدیلی لانا شروع کر دیتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ہم گرمی برداشت کرنا شروع ہو جاتے ہیں

گذشتہ ہیٹ ویوز کے اعداد و شمار کے مطابق اموات میں اضافہ بہت جلدی ہوتا ہے، یعنی ہیٹ ویز کے آغاز کے پہلے چوبیس گھنٹوں میں ہی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close