اسلام آباد – حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) پاکستان کی حالیہ سیاسی ملاقاتوں پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے قبل کم ووٹوں والی اتحادی جماعتیں اور زیادہ اہم ہوجاتی ہیں۔ حکومت کو کمزور دیکھ کر ایم کیو ایم نے اپنے لیے دوسرے راستے دیکھنے شروع کردیے ہیں
پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی ملاقات کے بعد دونوں جماعتوں کی جانب سے اعلامیے جاری کیے گئے جن میں ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا تھا کہ ’چیئرمین پیپلزپارٹی اور شریک چیئرمین سے ہونے والی ملاقات گذشتہ کئی دنوں سے جاری سیاسی ملاقاتوں کا تسلسل ہے۔ اس ملاقات میں پیپلزپارٹی نے شہری سندھ کے مسائل کے مستقل حل اور آپس میں روابط استوار کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ البتہ عدم اعتماد سمیت سیاسی صورت حال پر اپنے لوگوں اور ان کے مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں گے۔‘
جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ ’ہم نے ایم کیو ایم کے تمام تر نکات پر اتفاق کیا ہے اور دونوں جماعتوں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کام کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔‘
اگر اعداد و شمار کی بات کی جائے تو قومی اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 342 ہے، جس میں سے حکومتی اتحاد کے پاس 180 نشستیں ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس 160 نشستیں ہیں۔ باقی دو نشستیں خالی ہیں
حکومتی اتحاد میں سب سے زیادہ نشستیں یعنی 155 پاکستان تحریک انصاف کے پاس ہیں جبکہ اتحادی جماعتوں میں ایم کیو ایم کے پاس 7، ق لیگ 5، جی ڈی اے 3، عوامی مسلم لیگ 1، بلوچستان عوامی پارٹی 5 اور جمہوری وطن پارٹی کی 1 نشست ہے
اس کے علاوہ دو آزاد امیدوار میر علی نواز شاہ اور اسلم بھوتانی بھی اسی اتحاد کا حصہ ہیں، جس کے بعد حکومتی اتحاد کے پاس 180 ارکان کی حمایت ہے
مگر وزیر اعظم كے خلاف تحریک عدم اعتماد كو كامیاب بنانے كے لیے اپوزیشن كو ایوان میں 172 نشستیں چاہیے یا سادہ اکثریت سے فی الحال 160 نشستون والی اپوزیشن کو کامیاب ہونے کے لیے کم از کم 12 نشستیں مزید درکار ہیں
پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی حالیہ ملاقات کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سحر کامران کا کہنا تھا کہ ’2008 میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دور میں بھی ایم کیو ایم وفاق اور صوبہ سندھ میں بھی پیپلزپارٹی کی اتحادی تھی۔ ایم کیو ایم ایک خود مختار جماعت ہے، اسے اپنا فیصلہ خود کرنا ہے لیکن اسے اپنے ووٹرز کو جواب بھی دینا ہے۔‘
’اس وقت حکومت کی کوئی بھی اتحادی پارٹی اس مقام پر نہیں ہے کہ حکومت کی ناقص کارکردگی کو لے کر عوام کے پاس دوبارہ جاسکے۔ نہ ہی کسی کو ایک کروڑ نوکریاں مل سکیں، نہ پچاس لاکھ گھر ملے، نہ حیدرآباد میں یونیورسٹی قائم ہوئی اور نہ ہی ایم کیو ایم کی مردم شماری سے متعلق شکایات دور ہوئیں بلکہ ہر دفعہ ایم کیو ایم سے سمجھوتا کروایا گیا۔ آج ایم کیو ایم کے لیے اہم فیصلہ ہے کہ کیا وہ ان جھوٹے وعدوں پر ایک مرتبہ پھر یقین کرنا چاہتے ہیں؟‘
پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی ملاقات کے بعد حکومتی جماعت کے کچھ اراکین نے فوری طور پر ڈیمیج کنٹرول کے لیے اپنی اتحادی جماعت سے وفاقی وزیر برائے آئی ٹی اور ٹیکنالوجی امین الحق کی پارلیمنٹ لاجز میں رہائش گاہ پر ملاقات کی، جو کہ ایک گھنٹے تک جاری رہی
اس ملاقات کے بعد بھی ایم کیو ایم پاکستان نے اپنا کوئی واضح موقف ظاہر نہیں کیا البتہ ملاقات کی تصاویر میں ماحول انتہائی خوش گوار دکھائی دے رہا ہے
یکے بعد دیگرے سیاسی ملاقاتوں پر ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی عثمان قادری کا کہنا تھا ’ایم کیوں ایم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا، ابھی مشاورتوں کے سلسلے جاری ہیں۔ جہاں ایک طرف ہم حکومتی جماعت پی ٹی آئی سے مل رہے وہیں دوسری جانب ہماری اپوزیشن جماعتوں پیپلزپارٹی، ن لیگ اور حکومتی اتحادی ق لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی سے مشاورتیں جاری ہیں۔ ایم کیو ایم جلد اپنا فیصلہ کرے گی۔‘
ان کے مطابق ’جہاں تک سندھ کی حکمراں جماعت سے روابط استوار کرنے کی بات ہے، ایم کیو ایم کے کارکنوں پر شیلگ تو صرف ایک واقعہ تھا لیکن اگر سندھ حکومت کے مظالم کے تمام واقعات بیان کیے جائیں تو ایک پوری کتاب بن جائے گی۔‘
رواں سال جنوری میں متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر سندھ حکومت کی جانب سے متعارف کروائے گئے بلدیاتی نظام کے نئے قوانین اور ٹنڈو الہیار میں ایم کیو ایم کے کارکن بھولو خانزادہ کے قتل کے خلاف احتجاج کیا تھا
پولیس کی جانب سے شیلنگ اور لاٹھی چارج کے باعث ایم کیو ایم کے کئی کارکنان زخمی ہوئے تھے، جن میں رکن صوبائی اسمبلی منگلا شرما بھی شامل تھیں
عثمان قادری کے مطابق: ’اگر ایم کیو ایم صرف اسی صورت میں اپوزیشن کا ساتھ دے گی جب آئینی اور قانونی راستہ اختیار کرکے اپوزیشن اپنے وعدوں کو یقینی بنائے۔‘
تجزیہ کاروں کی رائے ایم کیو ایم کی سیاسی وفاداری کے حوالے سے بٹی ہوئی ہے
اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار چودہری غلام حسین کا کہنا تھا کہ ’حتمی طور پر ایم کیو ایم خان کے ساتھ ہی ووٹ ڈالے گی۔‘
’ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کی ضد پر قائم ہیں اور یہ ایک ساتھ بہت کم چل سکتے ہیں۔ پہلے ایم کیو ایم شہری سندھ اور پیپلز پارٹی بڑے پیمانے پر دیہاتی سندھ کی نمائندگی کرتے تھے۔ مگر اب کی جو صورتحال ہے، اس میں پیپلز پارٹی کو عمران خان کو ہٹوانے کے لیے ایم کیو ایم کے ووٹوں کی بہت ضرورت ہے۔ اس لیے وہ ان کے سارے مطالبے مان رہے ہیں۔ یہ مکمل طور پر موقع پرستی کا معاملہ ہے۔ مگر عین ممکن ہے کہ ایم کیو ایم خان ہی کا ساتھ دے۔‘
تجزیہ کار سلیم بحاری نے کہا کہ ’ملک میں جب ایسی صورتحال ہو کہ موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جانے والی ہو، حکومت کمزور ہو اور ایم کیو ایم اس کی اتحادی ہو تو یہ جماعت ہمیشہ دوسرا راستہ ڈھونڈتی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’ایم کیو ایم کی تاریخ رہی ہے کہ وہ ہر حکومت کا حصہ بنتی ضرور ہے تاکہ کراچی میں اس کا اقتدار برقرار رہے۔ کراچی کے مسائل حل کرنا ان کی مجبوری بھی ہے اور خواہش بھی۔ حکومت کو کمزور مقام پر دیکھ کر ایم کیو ایم نے اپنے لیے دوسرے راستے دیکھنے شروع کردیے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہے، ان کی ہمیشہ سے یہی روش رہی ہے۔‘
سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ ’اصل میں ایم کیو ایم حکومت سے زیادہ دن تک دور نہیں رہ سکتی۔ اس جماعت کو اپنی بقا کے لیے ہر حکومت کا حصہ بننا لازمی ہے۔ ان کی حالیہ سیاسی ملاقاتیں چاہے وہ شہباز شریف سے ہوں یا زرداری صاحب سے، اس کا تسمیہ یہی ہے ان کو دیکھنا یہ ہے کہ اب یہ اوںٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔‘
’یہ بات بھی واضح ہے کہ سندھ کہ صوبائی حکومت پیپلزپارٹی کے ہاتھوں سے لے لینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے پیپلزپارٹی سندھ میں برسراقتدار ہے اور اب یہ بات ایم کیو ایم کو بھی سمجھ آگئی ہے۔ اسی لیے انہیں اب سندھ حکومت کے ساتھ کوئی نہ کوئی اکویشن بنانی پڑے گی۔‘
سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ ’یہ بات غور طلب ہے کہ اپوزیشن سے ملاقاتوں کے بعد ایم کیوں ایم کی باڈی لینگویج بھی کافی مثبت نظرآئی۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ اب انہیں پیپلزپارٹی کے ساتھ کچھ نہ کچھ معاملہ کرنا پڑے گا۔ پیپلزپارٹی بھی جانتی ہے کہ اب سندھ کے شہری علاقوں بلخصوص کراچی میں اس کی Arch Enemy پی ٹی آئی ہے ایم کیو ایم نہیں۔‘
’ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر پیپلزپارٹی کی یہ خواہش ہوگی کہ وہ سندھ کے شہری علاقوں میں پی ٹی آئی کا زور توڑیں۔ اس کے غالب امکانات ہیں کہ ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کا ساتھ دے۔ مگر پی ٹی آئی کو سندھ میں کافی بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان کے چار رکن صوبائی اسمبلی نے سینٹ الیکشنز میں، دھڑلے سے پیپلزپارٹی کے رہنما نثار کھوڑو کو ووٹ دیا ہے۔ اب اگر سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کا الائنس قائم ہوجاتا ہے تو پی ٹی آئی اپنی خیر منائے۔‘
’حکومت اس وقت مانگے ہوئے ووٹوں سے بنی ہوئی ہے۔ اس کے اتحادی اگر علیحدہ ہونا چاہیں تو کسی اور کو لانے کی ضرورت نہیں ہے، حکومتی جماعت وفاق میں بھی بیٹھ جائے گی اور سندھ میں بھی۔ تحریک عدم اعتماد کے دوران کم ووٹوں والے اتحادی اور زیادہ اہم ہوجاتے ہیں۔‘