کیلیفورنیا – امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ ایک معمولی کیچوا، جس میں باقاعدہ طور پر کوئی دماغ نہیں ہوتا، ایسے پیچیدہ فیصلے بھی کرسکتا ہے کہ جو اس کے لیے دور رس فوائد کے حامل ہوں
اس تحقیق کی تفصیلات موقر آن لائن ریسرچ جرنل ’’کرنٹ بائیالوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں
سائنسی زبان میں اس کیچوے کو ’پرسٹیونکس پیسیفیکس‘ (Pristionchus pacificus) یا مختصراً ’پی پیسیفیکس‘ (P. pacificus) کہا جاتا ہے
اس کی لمبائی ایک ملی میٹر سے بھی کم ہوتی ہے، دماغ کے نام پر اس میں چند اعصابی خلیات (نیورونز) کا ایک خردبینی گچھا ہوتا ہے، جبکہ اس کا پورا اعصابی نظام صرف 302 نیورونز پر مشتمل ہوتا ہے، جس کا بیشتر حصہ اس کے سر اور دُم میں جمع ہوتا ہے
اگرچہ بنیادی نوعیت کی ذہانت تو معمولی جراثیم (بیکٹیریا) میں بھی دیکھی جا چکی ہے، لیکن کیا اتنی کم تعداد میں نیورونز رکھنے والا یہ معمولی کیچوا کوئی پیچیدہ فیصلہ کرسکتا ہے؟
اس سوال کا جواب جاننے کےلیے سالک انسٹیٹیوٹ فار بایولاجیکل اسٹڈیز، کیلیفورنیا کے ڈاکٹر سریکانتھ چلاسانی اور ان کے ساتھیوں نے ’پی پیسیفیکس‘ کو مختلف حالات سے گزارا
انہیں معلوم تھا کہ یہ ’سی ایلیگنز‘ کہلانے والے ایک اور کیچوے کے لاروے کھا جاتا ہے، جبکہ بالغ ’سی ایلیگنز‘ کا سامنا ہونے پر یہ اسے کاٹتا ہے
تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے ’پی پیسیفیکس‘ کے اسی طرزِ عمل کا تفصیلی مشاہدہ کیا
انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ’سی ایلیگنز‘ کے لارووں پر اس کیچوے کے حملے بالکل ایسے تھے کہ جیسے کوئی شکاری جانور اپنے شکار پر حملہ آور ہوتا ہے
یہ ’سی ایلیگنز‘ کے لاروے تلاش کرتا ہے اور لاروا مل جانے پر اسے اس طرح کاٹتا ہے کہ وہ مر جاتا ہے، جس کے بعد یہ اس کی دعوت اُڑاتا ہے
اس کے برعکس، جب یہ کسی بالغ ’سی ایلیگنز‘ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھتا ہے تو اس کے جسم کے مختلف حصوں پر اس طرح کاٹتا ہے کہ وہ گھبرا کر اس سے دور بھاگ جاتا ہے لیکن مرتا نہیں
بظاہر ایسا لگتا تھا کہ بالغ ’سی ایلیگنز‘ پر ’پی پیسیفیکس‘ اپنے حملے میں اسے ہلاک کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔
لیکن تفصیلی اور محتاط مشاہدے سے انکشاف ہوا کہ وہ یہ ساری کارروائی بہت سوچ سمجھ کر انجام دیتا ہے
چونکہ ’سی ایلیگنز‘ کا لاروا اس کی غذا ہے، لہٰذا ’پی پیسیفیکس‘ ہلاک کرنے کے ’ارادے‘ سے اس پر حملہ آور ہوتا ہے
اس کے برعکس، بالغ ’سی ایلیگنز‘ کا سامنا ہونے پر وہ خود کو، اور اپنے ’علاقے‘ کو، اس سے بچانا چاہتا ہے۔ لہٰذا وہ ’شعوری طور‘ پر اس انداز سے ’سی ایلیگنز‘ پر حملہ کرتا ہے کہ اسے مار بھگائے، نہ کہ ہلاک کر ڈالے
ماہرین کا کہنا ہے کہ لاروا اور بالغ ’سی ایلیگنز‘ کے خلاف ’پی پیسیفیکس‘ کی الگ الگ حکمتِ عملی اس میں پیچیدہ فیصلے کرنے کی صلاحیت اور غیرمعمولی ذہانت کا ثبوت ہے
ڈاکٹر سریکانتھ کا کہنا ہے کہ ’پی پیسیفیکس‘ کے مشاہدات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایک سادہ نظام (معمولی کیچوا) بھی ’’مخصوص مقصد حاصل کرنے کے لیے پیچیدہ فیصلے کرسکتا ہے۔ یعنی بہت ممکن ہے کہ انسانی دماغ میں بھی پیچیدہ فیصلے صرف چند اعصابی خلیوں (نیورونز) کی مدد سے انجام پاتے ہوں‘‘
یہی وجہ ہے کہ ماہرین یہ امید کر رہے ہیں کہ اس تحقیق سے قدرتی ذہانت کو سمجھنے میں بھی خاصی مدد ملے گی
علاوہ ازیں، بہت ممکن ہے کہ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) میں ’نیورل نیٹ ورکنگ‘ پر ان معلومات کا اطلاق کرتے ہوئے ایسے خودکار نظام تیار کرلیے جائیں، جنہیں اپنا کام بہتر طور پر انجام دینے کے لیے کم پروسیسنگ کی ضرورت ہو.