پشاور – وہ بظاہر قتل کا ایک عام واقعہ تھا، ایک ہیلتھ ورکر کے قتل کا واقعہ جو پاکستان میں پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن قتل کرنے والے نے ایک اسپورٹس بائیک کا استعمال کیا اور آگے چل کر یہی بائیک قاتل کا سراغ لگانے مددگار بنی
قتل کا یہ واقعہ ڈھائی ہفتے قبل پشاور میں پیش آیا۔ اس روز ہیلتھ ورکرز اور پولیس سکیورٹی اہلکار شہر بھر میں انسدادِ پولیو مہم میں مصروف تھے
ابتدائی طور پر پولیس نے کہا کہ خاتون ورکر اقرا حیات انسداد پولیو مہم کی ڈیوٹی کے بعد واپس گھر جا رہی تھی کہ گڑھی حمزہ کے قریب قبرستان میں کسی نے ان پر فائرنگ کی۔ پولیس اہلکار نے بتایا کہ اقرا کی لاش قبرستان میں پڑی تھی
مقتولہ ہیلتھ ورکر کی والدہ نے اس کے سابق منگیتر کا ذکر کیا تھا
عینی شاہدین نے پولیس کو بتایا کہ حملہ آور کا موٹر سائیکل عام موٹر سائیکلوں سے مختلف تھا۔ پولیس حکام نے بتایا کہ عام طور پر ایسی وارداتوں میں ون ٹو فائیو یا سی ڈی-70 موٹر سائیکل استعمال ہوتی ہیں لیکن اس واردات میں اسپورٹس بائیک استعمال ہوئی تھی
آگے چل کر یہ سامنے آیا کہ مقتولہ کا قتل اجرت دے کر ان کی اپنی ہی ایک ساتھی نے کروایا تھا اور پولیس کے مطابق اجرتی قاتل پشاور کے ایک مقامی نجی کالج کا طالبعلم ہے
سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ہارون رشید نے جمعے کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’پولیس نے مختلف زاویوں سے تفتیش کی تھی اور اس کے لیے جیو فینسنگ اور سی ڈی آر کی مدد سے ملزمان تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے
انہوں نے بتایا کہ جہاں واقعہ پیش آیا اس کے ارد گرد ایک مخصوص علاقے میں لوگوں کی آمدو رفت کا جائزہ لیا گیا
اس دوران کچھ مشکوک لوگوں کی آمد و رفت علاقے میں اسی وقت کے دوران معلوم ہوئی اور ان تک پہنچنے کے لیے موبائل ٹاور سے اسکیننگ کی گئی
اس قتل کے منصوبے میں ہیلتھ ورکر کی ایک ساتھی کا مرکزی کردار بتایا گیا ہے، جسے یہ شک تھا کہ اس کے شوہر کے مقتولہ کے ساتھ تعلقات ہیں۔ ساتھی ورکر نے مقتولہ کو راستے سے ہٹانے کے لیے اپنی بہن سے ذکر کیا اور اس کے لیے اجرتی قاتل سے رابطہ کیا گیا
قتل کیسے ہوا تھا؟
یہ بدھ کی ایک عام دوپہر تھی، تاریخ 2 مارچ اور وقت کوئی تین بجے کا تھا۔ پشاور میں اس دن انسداد پولیو مہم جاری تھی۔ پولیس کو اطلاع موصول ہوئی کے انسداد پولیو مہم کی ایک خاتون کارکن کا قتل ہو گیا ہے
اگرچہ قتل کے واقعات روزانہ رپورٹ ہوتے ہیں لیکن انسداد پولیو مہم کے کارکن اوران کی ڈیوٹی کے لیے تعینات پولیس اہلکار عام طور پر شدت پسندوں کا خاص نشانہ ہوتے ہیں۔ اس دن تقریباً دو ہزار چار سو پولیس اہلکار اس مہم کے کارکنوں کی حفاظت کے لیے تعینات کیے گئے تھے
اس قتل کے واقعہ کے فوری بعد یہ سوال اٹھ گیا تھا کہ انسداد پولیو مہم کی کارکن کے ساتھ کوئی پولیس اہلکار کیوں نہیں تھا۔ تاہم اس بارے میں پولیس کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد پیش آیا تھا
پولیس کو اس مقام سے جہاں قتل ہوا تھا گولیوں کے خول، پستول اور ایک موٹر سائیکل کے بارے میں معلومات ملی تھیں
منصوبہ کیسے بنایا تھا؟
پولیس حکام نے بتایا کہ ملزمان نے اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی اور مقتولہ کے گھر سے ڈیوٹی پر جانے اور ڈیوٹی سے گھر واپس آنے کے اوقات کو نوٹ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ساتھی کارکن نے ملزمان کو ساری تفیصل فراہم کی تھی
ایس ایس پی ہارون رشید نے بتایا کہ مبینہ طور پر ہیلتھ ورکر کے اپنی ساتھی کے شوہر سے تعلقات تھے۔ جس کی رنجش ساتھی کارکن کو تھی اور وہ اس سے پریشان تھی۔ ساتھی کارکن نے اس کا ذکر اپنی بہن سے کیا اور پھر اس کی بہن کے ذریعے ایک اجرتی قاتل سے معاملہ طے کیا، جس نے پانچ لاکھ روپے میں خاتون ورکر کو قتل کرنے کی ہامی بھری تھی
پولیس نے بتایا کہ مقتولہ کی ساتھی ہیلتھ ورکر کی بہن نے اس مقصد کے لیے دو افراد سے بات چیت کی
ایس ایس پی ہارون رشید نے بتایا کہ جب ان کی گرفتاری کے لیے پولیس وہاں پہنچی تو وہاں سے وہی اسپورٹس موٹر بائیک موجود تھی اور اس سے پولیس کے شک کو تقویت ملی تھی
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کی اس موقع پر موجودگی کے شواہد بھی ملے تھے اور تفتیش کے دوران ملزمان نے اس مقام کی نشاندہی بھی کی تھی اور پستول وہیں سے ملا تھا
پولیس نے بتایا کہ ملزمہ کی بہن دراصل مبینہ اجرتی قاتل کی چچی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کے لیے موصول ہونے والی رقم میں چار لاکھ روپے ایک نے اور ایک لاکھ روپے دوسرے نے لیے تھے
ایس ایس پی ہارون رشید نے بتایا کہ اس کیس میں تین ملزمان گرفتار ہیں، جن میں دو ساتھی ہیلتھ ورکر شامل ہیں جبکہ ساتھی ہیلتھ ورکر کی بہن اس وقت ضمانت پر ہے اور عدالت نے ملزمان کا ریمانڈ دے دیا ہے اور اس سے مزید معلومات مل سکتی ہیں
ایس ایس پی ہارون رشید نے بتایا کہ اس واقعے کی تفتیش کے لیے انھوں نے جیو فینسنگ کا طریقہ استعمال کیا اور واردات سے ایک گھنٹہ پہلے اور واردات سے ایک گھنٹہ بعد اس علاقے میں تمام آنے جانے والے افراد کا ڈیٹا حاصل کیا تھا
پولیس کے مطابق اس بارے میں مزید تفتیش کی جا رہی ہے کہ آیا ملزمان اس سے پہلے بھی کسی واقعے میں ملوث تھے یا یہ ایک ہی واقعہ ہے جس میں انہوں نے رقم لے کر کارروائی کی ہے یہ سب کچھ تفتیش سے معلوم ہو سکے گا
واضح رہے کہ مقتولہ کی والدہ نے ابتدائی طور پر مقتولہ کے سابقہ منگیتر پر قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا تاہم جامع تفتیش کے دوران سابقہ منگیتر نامزد ملزم سیف اللہ بے گناہ ثابت ہوا. دراصل ملزمہ نے مقتولہ کی سابقہ منگنی سے فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی تھی، جس کے بعد لیڈی ہیلتھ ورکر کو قتل کرنے کا الزام سابقہ منگیتر پر لگنا فطری عمل تھا.