چانڈکا میڈیکل کالج میں گھٹنوں، کولہوں کی ہڈی کے ’مفت‘ آپریشنز

ویب ڈیسک

صوبہ سندھ میں پہلی بار گھٹنوں اور کولہوں کی ہڈی کی تبدیلی کے مفت آپریشنز کا آغاز چانڈکا میڈیکل کالج ہسپتال میں کر دیا گیا ہے، جہاں مریض کو امپلانٹس سے ادویات تک ہر چیز کی فراہمی بالکل مفت بنا دی گئی ہے اور مریض کا ایک روپیہ خرچ نہیں ہوتا

چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ کو سندھ میں میڈیکل کے میدان میں ’مدر انسٹیٹیوشن‘ کا درجہ حاصل ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ع میں اپنے دور حکومت کے دوران تین میڈیکل کالجز کی سنگ بنیاد رکھی تھی، جن میں سر فہرست چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ تھا

اس کالج کو بعد میں سندھ حکومت نے 2009 میں محترمہ بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب کر کے میڈیکل یونیورسٹی کا درجہ دیا

سندھ میں نئے صحت کے منصوبے زیادہ تر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر چل رہے ہیں، جن میں سرفہرست سندھ کے ضلعی ہیڈ کواٹرز میں چائیلڈ لائف فاؤنڈیشن کی چلڈرن ایمرجنسیز کا قیام ہے اور سندھ سے متاثر ہو کر اب بلوچستان حکومت نے بھی اس ماڈل کو اپنا لیا ہے

لیکن چانڈکا میڈیکل کالج ہسپتال نے حالیہ چند ماہ میں ایک اور سنگ میل طے کیا ہے جس کی سندھ میں تو کوئی مثال نہیں ملتی تاہم شاید پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی یہ سہولت میسر نہ ہو اور یہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا حصہ بھی نہیں

گھٹنوں اور کولہوں کی ہڈی کو تبدیل کر کے ان کی جگہ مصنوعی آلات لگانے کا آپریشن نہ صرف انتہائی پیچیدہ ہے بلکہ کافی مہنگا بھی ہے لیکن سندھ میں پہلی بار چانڈکا میڈیکل کالج ہسپتال میں اب یہ سہولت متعلقہ مریضوں کو بالکل مفت میسر ہے، جس میں مریض کا آپریشن، ادویات، ہسپتال میں قیام، کھانا، امپلانٹس تک سندھ حکومت اب بالکل مفت فراہم کر رہی ہے

اس کے ساتھ ساتھ آپریشن کے بعد مریض کی فزیو تھراپی اور ری ہیبلیٹیشن کا بھی مکمل بندوبست کیا گیا ہے۔ اس سارے عمل میں اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ مریض کا ایک روپیہ بھی خرچ نہ ہو

چانڈکا میڈیکل کالج ہسپتال میں ان پیچیدہ اور مہنگے آپریشنز کا آغاز ڈاکٹر شاہ جہان سیال نے کیا، جو کہ ہسپتال کے آرتھوپیڈک ڈیپارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں

ڈاکٹر شاہ جہان سیال ایک آرتھو پلاسٹی سرجن ہیں اور انہوں نے گھٹنوں اور کولہوں کی تبدیلی سمیت اسپورٹس سے منسلک نوجوانوں میں کسی بھی وجہ سے گھٹنوں کے کھٹکنے کے علاج اور پیچیدہ آپریشنز کے لیے خاص تربیت حاصل کی ہے اور وہ آج بھی کراچی کے متعدد نجی ہسپتالوں میں یہ مہنگے پروسیجرز کر رہے ہیں

ڈاکٹر شاہ جہان سیال کا کہنا ہے ”گھٹنوں اور کولہوں کی ہڈیوں کی تبدیلی پر دس لاکھ روپے تک کی لاگت آتی ہے اور اگر یہ سرجری کسی اچھے ہسپتال سے کروائی جائے تو خرچ اس سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے“

انہوں نے کہا ”مریضوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو کہ غربت کے باعث یہ مہنگے آپریشنز نہ کروا سکنے کے باعث مفلوج ہو کر محتاجی کی زندگی گزار رہی ہے جبکہ میری خواہش تھی کہ کم از کم اپنے آبائی شہر میں مریضوں کے ایسے پیچیدہ آپریشنز مفت کر کے ان کی زندگی سے محتاجی کو ختم کر سکوں“

اپنے گھٹنوں کا چانڈکا میڈیکل کالج سے علاج کرنے والے عبدالرزاق نامی ایک ساٹھ سالہ مریض نے بتایا ”میں نے چار پانچ سال اذیت میں گزارے۔ نہ میں چل پا رہا تھا نہ گھوم پا رہا تھا۔ اب مجھے کسی چیز کی تکلیف نہیں ہے“

ڈاکٹر شاہ جہان سیال کے مطابق، جب وہ مکمل تربیت حاصل کرنے کے بعد لاڑکانہ کے چانڈکا میڈیکل کالج ہسپتال کا حصہ بنے تو انہوں نے سب سے پہلے چند ایک غریب مریضوں کے لیے امپلانٹس اپنی جیب سمیت دوستوں سے چندہ کر کے خریدے اور اپنی ٹیم کے ہمراہ پروسیجرز کیے، جس کی کامیابی کے بعد مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو وہ اس کا مستقل حل تلاش کرنے لگے

اس کے بعد محکمہ صحت سے اس متعلق بات کرنے پر محکمہ نے متعلقہ میڈیکل سپریٹنڈنٹ کے ذریعے ڈاکٹر شاہ جہان سیال سے مریضوں کے کوائف، آپریشن تھیٹرز، انفراسٹرکچر، درکار آلات اور مشینری سمیت دیگر معلومات پر تفصیلات طلب کیں اور متعلقہ معلومات ملتے ہی محکمہ صحت نے اس پر عملی کام کا آغاز کر دیا

ان کا کہنا تھا کہ انتہائی کم وقت میں محکمہ صحت کی جانب سے ابتدائی طور ان کی ٹیم کو کولہوں کی ہڈیوں کے پچیس سے تیس جبکہ گھٹنوں کی ہڈیوں کے دس امپلانٹس مہیا کر دیے گئے

جبکہ متعلقہ پروسیجرز کے لیے درکار الگ آپریشن تھیٹر اور آلات کی ضروریات کو بھی پورا کیا گیا جس کے بعد انہوں نے تیس سے زائد آپریشنز کیے اور تمام مریض متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں

اس پیچیدہ سرجری کے متعلق ڈاکٹر شاہ جہان سیال کا کہنا تھا: ’دنیا بھر میں گھٹنوں اور کولہوں کی ہڈی کی تبدیلی کے پروسیجرز کی کامیابی کا تناسب 95 فیصد تک ہے، جبکہ دیگر پانچ فیصد وہ ہیں جن میں سرجری کے بعد کسی وجہ سے انفیکشن ہو جاتا ہے جس پر وہ مریض کے دوبارہ ٹیسٹ کروا کر اینٹی بائیوٹکس کا کورس دیتے ہیں۔ تاہم پھر بھی چند کیسز میں مریضوں کو تھوڑی بہت محتاجی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

ان کے بقول متعلقہ آپریشن کے دوران اس بات کا پورا خیال رکھا جاتا ہے کہ ایسا کچھ نہ ہو جو مریض میں انفیکشن پیدا ہونے کی وجہ بنے۔ تمام درکار آلات اور چیزیں ڈسپوزایبل استعمال کیے جاتے ہیں، مریض کی ڈریسنگ کا خیال رکھا جاتا ہے، ائیر ٹائیٹ ایٹماسفیئر میں آپریشن کیا جاتا ہے کہ کہیں ہوا انفیکشن کا باعث نہ بنے اور آپریشن کے اگلے ہی روز مریض کو اپنے پیروں پر کھڑا کر کے چلایا جاتا ہے، دیکھا جاتا ہے کہ پروسیجر عملی طور پر کیا نتائج دے رہا ہے اور اس کے بعد مریض کے فزیوتھراپی سیشنز ہوتے ہیں تاکہ پٹھوں کو مضبوط کیا جا سکے

کن مریضوں کو یہ آپریشن فوری کروا لینا چاہیے اور کیا آپریشن کے علاوہ مختلف ورزشوں اور ادویات کے استعمال سے جوڑوں کے دردوں سے مستقل طور پر بچا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شاہ جہان سیال کا کہنا تھا کہ اگر کسی مریض کو گھٹنوں میں درد ہے، سوزش ہے، ٹانگیں ٹیڑھی ہو رہی ہیں اور سب کچھ کر لینے کے باوجود بھی آرام نہیں مل رہا تو یہ اس مریض کے لیے فوری آپریشن کروانے کا وقت ہے۔ اس سے زیادہ تاخیر مریض کو ویل چیئر یا چھڑی پر لے آئے گی اور تب یہ پروسیجر بھی پہلے کی نسبت کم سود مند ثابت ہوگا

ان کا کہنا تھا کہ آرتھرائیٹس کے تین گریڈ ہوتے ہیں اگر مریض گریڈ ون اور ٹو کے درمیان ہے تو ہلکی پھلکی دوا، فزیوتھراپی، لائف اسٹائل موڈیفیکیشنز اور ورزش درد میں آرام لا سکتی ہیں۔ تاہم اگر مریض گریڈ تھری میں ہے تو ان کا علاج صرف آپریشن ہے

ڈاکٹر شاہجہان کہتے ہیں ”مختلف مریض درد کش ادویات کا استعمال کرتے ہیں، جس سے عارضی طور پر تو آرام مل جاتا ہے تاہم انہیں چند سال بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کی ہڈیاں بُھرنا شروع ہو چکی ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close