آسمان سے گرتے ’پتھر‘ نما اولے، وقت کے ساتھ وزنی کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟

ویب ڈیسک

لندن – یہ 21 جولائی کی بات ہے، برطانیہ میں موسم گرما عروج پر تھا اور ملک ہیٹ ویو کی لپیٹ میں تھا۔ انگلینڈ کے وسطی علاقوں جیسے کہ لیسٹرشائر میں بچے موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران خود کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے گھروں میں بنے پولز میں کھیل رہے تھے کہ اچانک آسمان پر کالی گھٹائیں امڈ آئیں

سہ پہر کو اچانک سے آسمان سے گالف کی گیند جیسے پتھر نما اولے برسنے لگے، جن کے باعث گھروں اور کاروں کے شیشے ٹوٹنے لگے۔ وہ باغیچے جو کچھ دیر قبل لوگوں سے بھرے پڑے تھے، ان کو آسمان سے برف کی بارش کے باعث شدید نقصان پہنچا

اگرچہ آب و ہوا میں موجود اونچے بادلوں میں طاقتور تبدیلیوں کے باعث ہونے والی ژالہ باری کی شدت غیر معمولی تھی، لیکن اس کی شدت سنہ 2020ع جون میں کینیڈا کے شہر کیلگری میں ہونے والی ژالہ باری سے کم تھی

کیلگری میں اس وقت ٹینس بال کے سائز کے اولے برسے تھے، جنہوں نے کم از کم ستر ہزار گھروں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر فصلوں کو بھی تباہ کیا تھا۔ اس ژالہ باری کے نتیجہ میں 1.2 ارب کینیڈین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ بیس منٹ تک جاری رہنے والی یہ ژالہ باری کینیڈا کی تاریخ میں سب سے مہنگا موسمی طوفان ثابت ہوا تھا

ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا بھر میں ژالہ باری کی شدت اور نوعیت میں تبدیلی آ رہی ہے. ٹیکساس، کولوراڈو اور الاباما میں گذشتہ تین برسوں کے دوران ژالہ باری کے طوفان کی شدت کے ریکارڈ ٹوٹے ہیں جن میں سولہ سینٹی میٹر قطر کے اولے بھی پڑے ہیں

جبکہ سنہ 2020ع میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں تقریباً اٹھارہ سینٹی میٹر تک بڑے اولے پڑے تھے

واضح رہے کہ ژالہ باری کے دوران دس سینٹی میٹر سے بڑے سائز کے اولے گرنا بہت غیر معمولی ہیں اور یہ اس جانب ایک اشارہ ہے کہ اب امریکا میں ژالہ باری کے باعث ہونے والے نقصان کی اوسط دس ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے

لیکن ایسا کیوں ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی آسمان سے برف گرنے یعنی ژالہ باری میں اضافہ کر رہی ہے اور ان طوفانوں میں گرنے والے اولوں کی سائز میں کس حد تک اضافہ ہو سکتا ہے؟

ایک اولا اس وقت تشکیل پاتا ہے، جب پانی سے اٹھنے والے آبی بخارات کو بادلوں کی سرد ہوا جما دیتی ہے۔ جب برف کے قطرے ہوا میں سے گزرتے ہیں تو ہوا میں موجود نمی ان برف کے قطروں کے باہری حصے میں اکٹھی ہو جاتی ہے۔ اس اولے میں پیاز جیسی برف کی پرتیں ہوتی ہیں

ایک اولا کتنی جلدی تشکیل پاتا ہے، اس کا انحصار ہوا میں موجود نمی پر ہوتا ہے۔ اور اس کا سائز اس وقت تک بڑھتا رہتا ہے جب تک یہ فضا میں معلق رہتا ہے

امریکی نیشنل اوشیانک اور آٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے مطابق فضا کے اوپری حصے میں ایک سو تین کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوا گالف کی گیند کے سائز کا اولا بنا سکتی ہے اور اس سے 27 فیصد تیز چلنے والی ہوا بیس بال کی گیند کے سائز کا اولا بنا سکتی ہے

ادارے کے مطابق کسی بھی اولے کے سائز کا براہ راست تعلق اس کے وزن سے نہیں ہوتا

فضا کا اوپر والا حصہ، جو زیادہ نمی والا اور تیز ہوا والا ہو، وہ زیادہ بڑے سائز کے اولے بناتا ہے۔ زیادہ تر بڑے سائز کے اولے ژالہ باری کے دوران تیز ہوا کے قریب گرتے ہیں اور چھوٹے اولے اکثر ہوا کے باعث اڑ کر دور جا گرتے ہیں

موسمیاتی تبدیلی کے اولے کے تشکیل پر اثر انداز ہونے کے بارے میں تحقیق کرنے والی جولیان بریمیلو، جن کا تعلق کینیڈا کی یونیورسٹی آف مانیٹوبا سے ہے، کہتی ہیں ”ژالہ باری کے ایسے تباہ کن طوفان، جن میں ایک انچ سے بڑے اولے پڑتے ہیں، کے لیے ایک خاص قسم کے حالات کی ضرورت ہوتی ہے“

وہ بتاتی ہین ”انہیں ہوا میں زیادہ نمی، فضا کے بالائی حصے میں طاقتور ہوا اور ایک موسمی طغیانی جیسے عوامل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگین نوعیت کے ژالہ باری کے طوفان دنیا کے چند مخصوص حصوں میں آتے ہیں، جیسا کہ امریکا کے گریٹ پلینز اور آسٹریلیا کے سنہری ساحلوں کے علاقے“

ان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر ان علاقوں میں گرم اور نمی والی ہوا کے اوپر فضا کے بالا حصہ میں عموماً ٹھنڈی ہوا ہوتی ہے۔ فضا کی یہ غیر مستحکم صورتحال فضا کے بالا حصے میں طاقتور ہوا اور گرج چمک کو جنم دیتی ہے

ایسے علاقے خصوصاً گرج چمک کے ایک خاص طوفان کی لیے جانے جاتے ہیں، جنہیں سپر سیل کہا جاتا ہے۔ جو فضا کے بالا حصے میں چلنے والی تیز اور طاقتور ہوا کے باعث بہت زیادہ ژالہ باری کے طوفان کو جنم دیتی ہے

لیکن جیسا کہ موسمیاتی تبدیلی زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی پیدا کرتی ہے، ایسے ہی اس کے باعث ہوا میں نمی کے تناسب میں بھی تبدیلی رونما ہوتی ہے

جہاں گرم ہوا کے باعث ہوا میں زیادہ آبی بخارات معلق رہ سکتے ہیں، وہی گرم درجہ حرارت زمین سے زیادہ آبی بخارات کے عمل کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اس سے دنیا کے مختلف حصوں میں زیادہ بارش اور شدید طوفان کی توقع ہوتی ہے

جولیان بریمیلو کہتی ہیں ”جیسے جیسے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے زیادہ ژالہ باری کے لیے جانے جانے والے علاقوں سے یہ اب تبدیل ہو رہا ہے۔ اب ایک ایسے علاقے میں، جہاں ہوا میں نمی کا کم تناسب ژالہ باری نہ ہونے کا سبب تھا، ان علاقوں میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث ممکن ہے کہ زیادہ نمی کا تناسب بن جائے اور وہاں بھی تسلسل کے زیادہ ژالہ باری شروع ہو جائے“

ان مشاہدات کا مجموعہ پہلے ہی دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث وقوع پذیر ہو رہا ہے اور درجہ حرارت میں تبدیلی سے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب آسٹریلیا اور یورپ میں زیادہ ژالہ باری ہو سکتی ہے

لیکن مشرقی ایشیائی ممالک اور شمالی امریکا کے علاقوں میں کم ژالہ باری ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی جانا کہ ژالہ باری کے طوفانوں میں مزید شدت آ سکتی ہے

بریمیلو اور ان کے ساتھیوں کی ایک اور تحقیق کہ دنیا کے بڑھتے درجہ حرارت میں شمالی امریکا میں اولوں کی ہئیت کیسے بدل سکتی ہے، کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگرچہ شمالی امریکا کے علاقوں میں ژالہ باری میں کمی آ سکتی لیکن یہاں گرنے والے اولوں کے سائز میں اضافہ ہو سکتا ہے

ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ فضا میں وہ مقام، جہاں یہ پگھل کر زمین پر گرتے ہیں، وہ مزید بلند ہو جائے گا، جس کے باعث چھوٹے اولے زمین پر گرنے سے قبل ہی بارش میں تحلیل ہو جائیں گے، جبکہ بڑے سائز کے اولے فضا کے گرم ہوا کے حصے سے تیزی سے گزرتے ہوئے زمین پر ٹکرائیں گے

بریمیلو کا کہنا ہے ”درحقیقت ہم نے فرانس میں ژالہ باری کے ‘ہیل پیڈز’ ڈیٹا کے ذریعے اس کے شواہد پہلے ہی دیکھ لیے ہیں، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اولوں کے سائز میں فرق آ رہا ہے“

واضح رہے کہ ہیل پیڈز دراصل وہ نرم فوم نما پیڈز ہوتے ہیں، جنہیں ژالہ باری یا اولوں کے طوفان کے دوران باہر رکھ دیا جاتا ہے اور ان پر پڑنے والے اولوں کے باعث ان میں گڑھے یا نشانات بن جاتے ہیں. جو اس علاقے میں برسنے والے اولوں کی شدت اور سائز کے بارے میں جاننے میں مدد دیتے ہیں

بریمیلو کہتی ہیں کہ ‘ہم نے مشاہدہ کیا کہ گرم درجہ حرارت کے باعث چند دن ہی چھوٹے سائز کے اولے پڑے جبکہ زیادہ دنوں میں بڑے اولے پڑے تھے۔’

اس کا یہ مطلب ہے کہ ژالہ باری کے باعث ہونے والے سالانہ نقصانات میں بھی اضافہ ہو گا۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ دنیا کے کن کن علاقوں میں ژالہ باری سے نقصان کا اضافہ ہوگا

ایسے علاقے، جہاں ژالے باری سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے، وہاں ایسی تعمیرات کی جا سکتی ہیں جو اس نقصان کو کم کر سکے۔ اس وقت ژالہ باری کے ممکنہ نقصان سے بچنے اور اس کی شدت جاننے کے لیے چھوٹے چھوٹے اسٹیل بالز کو فائر کر کے اس کے اثرات کو جانا جاتا ہے لیکن اولوں کے سائز بڑھنے سے آپ متوقع نقصان اور اس کی شدت کا درست اندازہ نہیں لگا سکتے

سنہ 2020ع میں ٹیکسس ٹیک یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ جانا گیا کہ کیوں اس کی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے اور کیوں ژالہ باری توقع سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتی ہے

جس درجہ حرارت اور نمی کے تناسب کی فضا میں ایک اولا بنتا ہے، وہ اس کی شدت پر اثر ڈال سکتی ہے۔ بہت سرد ہوا میں جہاں پانی اولے کے ساتھ ٹکرائے، فوراً ہی جم جاتا ہے. ایسی فضا میں بہت تیز ہوا اور برف بننے کا امکان زیادہ ہوتا ہے

اور ایسی فضا جہاں پانی کے بخارات آہستہ آہستہ ٹھنڈے ہوتے ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہوا گرم اور اس میں نمی کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے

ایسی ہوا میں پانی کے بخارات فوراً نہیں جمتے اور ایسے میں چھوٹے اولے بنتے ہیں۔ اور ہوا کے گزرنے کے باعث اس کی شدت میں کمی آتی ہے

چھوٹے اولوں کی شدت بڑے اولے کے مقابلے میں آدھی ہوتی ہے کیونکہ ان میں بہت سی ہوا موجود ہوتی ہے اور زمین پر پڑنے سے پہلے اس ہوا کے باعث ان کی شدت میں کمی آ جاتی ہے

بڑے اولوں کی تشکیل اکثر برف کی مختلف پرتوں سے بنتی ہے اور یہ پرتیں ان کے گرد ٹھنڈی ہوا کے باعث بنتی ہیں

سنہ 2003ع میں نیبراسکا کے علاقے اورورا میں گرنے والے سترہ سینٹی میٹر کے ایک بڑے اولے کے تجزیہ کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس کی اندرونی پرت میں نرم برف جبکہ اس کی باہری سطح پر سخت جمی ہوئی برف موجود تھی

جن سائنسدانوں نے اس کا تجزیہ کیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ صرف سخت برف سے بنا ہوتا تو اس کا سائز ایک والی بال تک کا ہوتا اور اس کا وزن ڈھائی کلو تک ہوتا۔ لیکن درحقیقت یہ صرف پانچ سو گرام وزنی تھا کیونکہ اس کی اندرونی ساخت یا پرت ہوا والی نرم پرت سے بنی تھی

وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ اولا بادلوں میں آبی بخارات کے پہنچنے کے فوراً بعد ہی بن گیا تھا، اور اس کو فضا کے بالائی حصے میں موجود ٹھنڈی ہوا نے مزید برف کی پرت چڑھا دی اور اس کے سائز میں اضافہ کیا

کسی بھی اولے کی شدت کا دارو مدار اس پر بھی ہے کہ یہ کتنا بڑا ہے۔ یہ جتنا وزنی ہوگا اس کے فضا کے بالا حصے سے تیزی سے گرنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہیں

عموماً ایک انچ قطر سے چھوٹے اولے نو سے پچیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین پر گرتے ہیں جبکہ 1 سے 1.7 انچ قطر کے اولے پچیس سے چالیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین پر پڑتے ہیں

دنیا میں اب تک کے سب سے وزنی اولے سنہ 1986ع میں بنگلا دیش کے علاقے گوپال گنج میں پڑے جن کا وزن 1.2 کلو گرام تھا۔ اس وقت کی خبروں کے مطابق اس ژالہ باری کے طوفان میں چالیس افراد ہلاک جبکہ چار سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ لیکن بعد میں آنے والی اطلاعات میں اس طوفان میں کم از کم بیانوے افراد کی ہلاکت کا بتایا گیا تھا

جس رفتار سے اولے زمین پر پڑتے ہیں، یہ جاننا اتنا آسان نہیں. ماضی میں محققین یہ سمجھتے تھے کہ ژالہ باری کے دوران اولے ہوا کے ساتھ دائری شکل میں زمین پر گرتے ہیں۔ جبکہ حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ سیدھے ہوتے ہیں ان کے زمین پر گرتے وقت انہیں ہوا کے دباؤ کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے

اسی لیے وہ جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں، ان کی شکل زیادہ بیضوی یا ٹیڑھی ہوتی ہے۔ یہ دونوں عوامل ہی ان کی زمین پر گرنے کی رفتار اور زمین پر پڑنے کے بعد ہونے والے نقصان کا تعین کرتے ہیں

لہٰذا ایک اولے کی زمین پر گرنے کی رفتار اور اس کے زمین پر ٹکرانے کی رفتار اور شدت میں فرق ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ ایک اولا ہوا کے باعث آسمان سے سیدھا گرنے کی بجائے ہوا کے ساتھ افقی سمت میں زمین کے ساتھ ٹکرائے تو اس کے نقصان کی شدت کم ہوگی. جبکہ سب سے زیادہ شدت اس ژالہ باری کی ہوتی ہے، جو فضا کے بالائی حصے میں پیدا ہونے والی گرج چمک کے ساتھ عمودی سمت میں زمین پر گرے

آسمان سے سیدھے نیچے کی جانب برسنے والی بارش یا ژالہ باری عموماً چند کلومیٹر تک محدود رہتی ہے اور یہ چند منٹوں کے لیے ہوتی ہے۔ لیکن اس دوران ہوا کی رفتار 156 میل سے 179 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے، جو ژالہ باری سے نقصان کا باعث بنتی ہے

اس رفتار سے پڑنے والے بڑے اولوں میں اتنی شدت ہوتی ہے کہ وہ چھت کی ٹائلوں، گاڑیوں کے شیشوں، عمارتوں پر لگے ہوئِے پردوں کو توڑ سکتے ہیں۔ یہ فصلوں کو تباہ کر سکتے ہیں اور انسانوں اور جانوروں کو بھی زخمی کر سکتے ہیں۔ وہ جہازوں کو بھی ایک خاص طرح کے خطرے میں ڈال سکتے ہیں

ان تمام عوامل کو یکجا کریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اس سب کو ملا کر اولے توقع سے زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں

سنہ 2018ع میں ارجنٹینا کے قصبے ولا کارلوس پاز میں تاریخ کے سب سے بڑے اولے پڑے تھے، جن کا سائز تقریباً اٹھارہ انچ قطر تھا، لیکن ان میں سے کچھ 9.3 انچ تک بڑے ہو سکتے تھے

اگرچہ اولوں کا یہ سائز ورلڈ ریکارڈ سمجھا جاتا ہے لیکن اس پر حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ایک بڑا اولا کبھی ثابت نہیں ملا کیونکہ وہ زمین کے ساتھ ٹکراتے ہی بکھر یا ٹوٹ جاتے ہیں

پنسلوینیا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے موسمیات کے ماہر میتھیو کمیان نے ولا کارلوس پاز میں پڑنے والے اولے کی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر کا جائزہ لے کر ان کے سائز کا اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی

اس کے بعد انہوں نے وہاں کا دورہ کیا اور سڑک پر لگی لائٹ، کنوپیوں اور دیگر ان چیزوں کا جائزہ لیا جہاں یہ اولے ٹکرائے تھے اور وہاں پڑنے والے نشانات کو ناپنے اور عینی شاہدین سے بات بھی کی

وہ وہاں فریزر میں رکھے ہوئے ایک اولے کو جانچنے میں بھی کامیاب ہوئے، جس کا سائز چار انچ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں بڑے بڑے اولے پڑنے کی خبریں زیادہ عام ہو گئی ہیں

وہ کہتے ہیں ”گذشہ دو دہائیوں میں امریکا میں ژالہ باری کے دوران چھ انچ یا اس سے بڑے اولے گرنے کے دس واقعات رپورٹ ہوئے اور یہ انتہائی غیر معمولی واقعات تھے“

حالیہ برسوں میں یہ ریکارڈ نیچے گر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ برس ٹیکساس میں ایک اولا 16 سینٹی میٹر بڑا اور 590 گرام وزنی تھا۔ اسے فریزر میں محفوظ کر لیا گیا اور بعد میں اسے ناپا گیا تو یہ ریاست میں بڑے اولے کا نیا ریکارڈ بن گیا

لیکن ایک اولا کتنا بڑا ہو سکتا ہے؟ اعدادوشمار اور تحقیق کی بنیاد پر میتھیو کمیان کا اندازہ ہے کہ ممکنہ طور پر سب سے بڑے اولے کا سائز 27 سینٹی میٹر (10.6 انچ) ہو سکتا ہے تاہم اتنے بڑے اولے ابھی تک ریکارڈ نہیں کیے گئے اور میتھیو کمیان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس اندازے کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

چونکہ 27 سینٹی میٹر (10.6 انچ) سائز ان اندازوں میں سب سے زیادہ ہے تو ممکن ہے کہ اس سائز کے اولوں کی شکل بھی بے ترتیب ہوگی لیکن میتھیو کمیان کہتے ہیں کہ ایسے اولوں کے لیے درکار اجزا جیسے بڑی مقدار میں شدید ٹھنڈا پانی اور ٹھنڈی ہوا میں طویل وقت تک سفر کرنے جیسے عوامل آج موجود ہیں

میتھیو کمیان کہتے ہیں کہ وہ شدید گرج چمک، جو دنیا کے بڑے اولے پیدا کرتی ہے، شاید پہلے سے ان اجزا کی حامل ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ شدید گرج چمک ممکنہ طور ہر ایسے سپر سائز کے اولے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے

یہ اولے مال مویشیوں، انسانوں اور املاک کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں

9 جون سنہ 2006ع کو جنوبی کوریا میں ایئربس 321 کو ایک شدید طوفان کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے جہاز کے ریڈار کی حفاظت کرنے والا حصہ ریڈوم خراب ہو گیا اور ریڈار تباہ ہو گیا

جہاز کے عملے کو بار بار ہونے والے نقصان سے متعلق بڑی تعداد میں وارننگ میسجز وصول ہو رہے تھے۔ وہ بالآخر خیریت سے اپنی منزل تک پہنچ گئے۔ مگر کم دکھائی دیے جانے کی وجہ سے وہ دو بار اپنی منزل تک پہنچنے میں ناکام رہے

ان اولوں سے ائیرکرافٹ ہمیشہ خطرے میں ہوتے ہیں۔ سال 2017 سے 2019 تک ایسے بیس واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان طیاروں کی ونڈ اسکرین پرندوں سے ٹکرانے سے متاثر نہیں ہوتی اور یہ ژالہ باری بھی عام طور پر ان کو متاثر نہیں کرتی

مگر جنوبی کوریا کے واقعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسی ژالہ باری سے ہونے والا نقصان ونڈ اسکرین کے اتنا ضرور متاثر کرسکتا ہے کہ جس سے لینڈنگ کے دوران مشکلات پیش آ سکتی ہیں

موسم بتانے والا ریڈار عام طور پر طیاروں کو ژالہ باری سے بچنے میں مدد دیتا ہے تاہم اگر اولے بہت اونچائی سے گر رہے ہوں، مثال کے طور پر سنہ 2017 سے 2019 کے درمیان سات ایسے واقعات تیس ہزار فٹ سے زیادہ کی بلندی پر ہوئے

اتنی بلندی پر اولے عام طور پر انتہائی خشک ہوتے ہیں کیونکہ اس بلندی پر درجہ حرارت انتہائی کم ہوتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ریڈار کا اسے پکڑنا بہت مشکل ہوتا ہے اور بڑے اولے حجم میں چھوٹے اولوں سے زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں

زمین پر دو نئے اور وقت کے ساتھ عام ہونے والے ڈھانچوں کو ان سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ ان میں سولر پینلز اور ونڈ فارم متاثر ہو سکتے ہیں

سنہ 2019ع میں ایمسٹرڈیم میں انسٹیٹیوٹ فار انوائرمینٹل اسٹڈیز کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق، جتنے زیادہ سولر پینلز ہوں گے، اتنا ہی ژالہ باری کے باعث نقصان بھی اٹھانا پڑے گا

یورپی یونین کی جانب سے سنہ 2023 تک دس لاکھ زیرو کاربن گھروں کا وعدہ کیا گیا ہے، جس کے باعث سولر پینلز بہت عام ہو گئے ہیں

تاہم محققین کے مطابق اس بارے میں قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا جا رہا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہ سولر پینلز ژالہ باری کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں

ماحولیاتی تبدیلی کے باعث تباہ کن ژالہ باری کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے والے سولر پینلز تباہ ہو سکتے ہیں

ژالہ باری ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ونڈ ٹربائنز کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور ان کے بلیڈز کو متاثر کرتی ہے، جس کے باعث ان کی دیکھ بھال کے لیے خرچ ہونے والی رقم میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ونڈ فارم سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے

اس کی وجہ یہ ہے کہ ونڈ ٹربائنز کے کنارے انتہائی ایروڈائنیمک ہونے ضروری ہیں تاکہ وہ ہوا کو چیر کر زیادہ سے زیادہ تیزی سے گھوم سکیں

یوں تو یہ بارش سے بھی متاثر ہوتے ہیں لیکن ژالہ باری کے باعث ہونے والا نقصان زیادہ ہوتا ہے اور کئی مرتبہ ٹکرانے کے باعث دراڑیں پڑنے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے

بلیڈ کو ہونے والے کسی قسم کے نقصان سے ایئر فلو متاثر ہوتا ہے اور ڈریگ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یوں ٹربائن کی صلاحیت میں کمی آ جاتی ہے

سنہ 2017 میں ڈنمارک میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ژالہ باری سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے غیر معمولی موسمی حالات میں ٹربائن بلیڈز کو روک دینا ہی ٹھیک ہے تاکہ اولے ٹکرانے کی رفتار کم کی جا سکے

جہاں یہ بات یقینی ہے کہ مستقبل میں ہمیں تباہ کن ژالہ باری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وہیں یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ نقصان ناگزیر ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ متاثرہ علاقوں کے لیے ژالہ باری کی وارننگ جاری کی جائے

جنوبی افریقہ میں انشورنس کمپنیاں اب بھی ژالہ باری کے حوالے سے متنبہ کرتی ہیں تاکہ لوگ اپنی گاڑیوں اور دیگر قیمتی چیزوں کو ڈھک لیں

ژالہ باری کا مقابلہ کرنے کے لیے مونوفلامینٹ پولی ایتھائلین سے بنے جال کا استعمال بھی عام ہو رہا ہے جن کے ذریعے ویسے تو متاثرہ پھلوں جیسے سیب، آم اور انگوروں کو بچایا جاتا تھا، اب انھیں اولوں سے بچنے کے لیے بچھایا جا رہا ہے

ایسے ہی جال امریکا میں ایک گاڑیوں کی ڈیلرشپ نے بھی لگا دیے ہیں، جو برائم لو کے مطابق ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ژالہ باری سے متعلق بڑی مقدار میں انشورنس کلیم آتے ہیں

سنہ 2021 کی تحقیق، جس کی سربراہی یونیورسٹی آف کولوراڈو کی لیلا ٹولڈرلنڈ کر رہی تھیں، میں اس بات کو بھی نمایاں کیا گیا ہے گرین روفنگ کے ذریعے ژالہ باری سے بچاؤ ممکن ہے

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی چھت پر مٹی کی ایک تہہ لگا کر وہاں پودے اگائیں۔ گرین روفز کے باعث دھوپ اور گرمی سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ، کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی جذب ہوتی ہے اور یہ ژالہ باری کے خلاف ایک بہترین ڈھال کا کام بھی دیتی ہے

اس تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک تجربے کی غرض سے کی گئی مصنوعی ژالہ باری کے باعث تمام گرین روفز محفوظ رہے جبکہ دیگر کو نقصان پہنچا

کچھ مخصوص طوفانوں سے پیدا ہونے والے اولوں کے سائز کا اندازہ لگانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں لیکن ان میں سے بہت سے اندازے درست نہیں

برائم لو کے مطابق ابھی یہ کہنا بہت قبل ازوقت ہو گا کہ مستقبل میں کہاں ژالہ باری سے نقصان ہو گا لیکن اس موضوع پر ان سمیت دیگر افراد کے کام سے واضح ہے کہ بہت بڑے اولے ہم پر برس سکتے ہیں اور ہمیں ان سے بچنے کے لیے ایک خود کو تیار کرنا ہوگا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close