صدر نے ریفرنس دائر کرکے سپریم کورٹ سے رائے مانگ لی. کتنے صدور نے کن معاملات پر ایسا کیا؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – صدر ڈاکٹر عارف علوی پیر کو پاکستان کے اُن صدور میں شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے آئین کے شقوں کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے دوسری مرتبہ رجوع کیا ہے

انہوں نے صدر پاکستان کی حیثیت سے لگ بھگ ایک برس کے وفقے سے سپریم کورٹ میں دوبارہ ریفرنس دائر کیا ہے

یاد رہے کہ اس سے پہلے انہوں نے دسمبر 2020ع میں ایک ریفرنس دائر کرتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں ووٹ دینے کے طریقے پر رائے مانگی تھی

اس مرتبہ صدر علوی نے آئین کی شق 63 الف کے بارے میں رائے مانگی ہے، جو رکن اسمبلی کے اپنی سیاسی جماعت کی منشا کے برعکس ووٹ دینے کے متعلق ہے

انہوں نے یہ رائے ایک ایسے وقت پر مانگی جب وزیر اعظم عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی ہے

ان کے خیال میں یہ قانونی نکتہ تصفیہ طلب ہے کہ کیا حکمران جماعت کے ارکان قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دے سکتے یا نہیں؟

ہارس ٹریڈنگ کے خلاف اور آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لئے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا جانے کے حوالے سے اٹارنی جنرل خالد جاوید کا کہنا ہے کہ ریفرنس میں کچھ سوالات پوچھے ہیں

منظر عام پر آنے والے صدارتی ریفرنس کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ سے چار سوالوں کے جواب پوچھے گئے ہیں

حکومت نے سوال اٹھایا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت کیا ارکان اسمبلی کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے سے روکا جاسکتا ہے؟

ریفرنس میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا منحرف ارکان کا ووٹ گنتی میں شمار ہوگا یا نہیں ہوگا؟

حکومت نے تیسرا سوال یہ پوچھا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا رکن صادق اور امین رہے گا اور یہ کہ آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا، تو کیا ایسے ارکان تاحیات نااہل ہوں گے؟

ریفرنس میں آخری سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ فلور کراسنگ یا ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے مزید اقدامات کیا ہو سکتے ہیں؟

واضح رہے کہ آئین کی شق 186 کے تحت صدر مملکت کسی قانونی نکتے پر جو مفاد عامہ کا حامل ہو، سپریم کورٹ سے رائے لے سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ صدر مملکت کو قانونی نکتے پر غور کے بعد اپنی رپورٹ دیتی ہے

آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت صدر مملکت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرتے ہیں۔ اس معاملے پر تاریخ کو ٹٹولا جائے تو اب تک ایک درجن کے قریب ریفرنس دائر کیے گئے، جن پر اعلیٰ عدلیہ نے اپنی رائے دی

73 کے آئین کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت، صدر مملکت غلام اسحاق خان، صدر فاروق احمد خان لغاری، فوجی صدر جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور موجودہ صدر عارف علوی نے یہ اختیار استعمال کیا ہے۔ تاہم جنرل ضیاء الحق، صدر رفیق تارڑ اور صدر ممنون حسین نے کسی صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا

قیام پاکستان کے بعد ملک کے تیسرے گورنر جنرل غلام محمد واحد گورنر جنرل نے اپنے دور یعنی 1955 میں دو مختلف معاملات پر اعلیٰ عدلیہ سے رائے مانگی تھی لیکن اس کے بعد بیس برس تک سپریم کورٹ میں کوئی ریفرنس دائر نہیں ہوا

گورنر جنرل غلام محمد نے امور مملکت چلانے اور صوبائی اسمبلی کے تحلیل کے بارے میں ریفرنس کے ذریعے رائے مانگی تھی

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنگلہ دیش کو ملک کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے لیے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا

حکومت نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور اس بارے میں رائے لینے کے لیے اس وقت کے صدر مملکت فضل الہیٰ نے ریفرنس دائر کیا۔ یہ پہلا ریفرنس تھا جو 1973 کے آئین کے تحت سپریم کورٹ میں دائر ہوا

خیال رہے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ نے رائے دی تھی کہ قومی اسمبلی میں ایسے معاملے پر بحث کرنے پر کوئی پابندی نہیں

اس کے بعد نہ تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کوئی ریفرنس دائر ہوا اور نہ ہی جنرل ضیاءالحق نے بطور صدر مملکت سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ پھر 1989 میں صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 186 کو دو مرتبہ استعمال کیا

پہلے وفاقی اور صوبائی حکومت کے فنڈز کی قانونی معیاد ختم ہونے کے بعد اس کے استعمال کے سوال پر اور دوسرا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے اختیارات کے بارے میں

اپنے پیشرو کی طرح صدر فاروق احمد خان لغاری نے آئین کے آرٹیکل 186 کا سہارا لیا اور بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوران 1996 میں ریفرنس دائر کیا کہ کیا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر کے لیے صدد مملکت وزیر اعظم کے مشورے کے پابند ہیں؟

ریفرنس پر سماعت کے دوران ہی انہوں نے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار کو استعمال کیا اور بینظیر بھٹو کی حکومت رخصت کرتے ہوئے سابق اسپیکر قومی اسمبلی ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم مقرر کر دیا

ججوں کی تقرری کے تنازعے پر فاروق لغاری نے ایک اور ریفرنس بھی دائر کیا تھا لیکن وہ واپس لے لیا گیا

بے نظیر بھٹو واحد وزیراعظم تھیں جن کے دو مختلف ادوار میں دو مختلف صدور نے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیے

10 برس کے طویل وقفے کے بعد فوجی صدر پرویز مشرف نے صوبائی حکومت کے ایک بل پر سپریم کورٹ سے رائے مانگی

ہوا کچھ یوں کہ مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد یعنی متحدہ مجلس عمل نے صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی اور 2005 میں حسبہ بل متعارف کرایا، جس کے بارے میں یہ تاثرعام تھا کہ اس سے صوبے میں متوازی عدالتی نظام قائم ہو جائے گا

جنرل پرویز مشرف نے بل پر اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا اور ریفرنس کے ذریعے رائے مانگی

اُس وقت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں فل بینچ نے بل کی بعض شقوں کو قانون کے منافی قرار دے دیا

صدر آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمے کو ری اوپن کرنے پر رائے مانگی

ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاءالحق کے دور پر لاہور ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزا دی تھی جسے اکثریتی فیصلے نے برقرار رکھا

ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت پر چار اپریل، 1979 میں عمل کیا گیا اور آصف علی زرداری نے تیس برس کے بعد 2 اپریل، 2011 کو صدارتی ریفرنس دائر کیا جو ابھی تک زیر سماعت ہے

نواز شریف کے ادوار میں صدر رفیق تارڑ کی طرح ممنون حسین نے بھی کسی قانونی نکتے کی تشریح یا رائے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔

لگ بھگ دس سال بعد موجودہ صدر مملکت عارف علوی نے دسمبر 2020ع میں ایک ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا، جس میں سینیٹ میں رائے شماری کے لیے خفیہ یا اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے پر رائے مانگی

سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے رائے دی کہ سینیٹ کے انتخابات قانون نہیں بلکہ آئین کے تحت ہوں گے اور اوپن بیلٹ کے ذریعے رائے شماری نہیں کرائی جاسکتی

اب ایک سال گزرنے کے بعد صدر علوی نے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے

بے نظیر بھٹو اور عمران خان وہ وزرائے اعظم ہیں، جن کے دور میں قانونی نکات پر رائے کے لیے ایک سے زائد مرتبہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close