لاہور ایلیویٹڈ ایکسپریس وے کا منصوبہ عام شہریوں کی ضرورت یا اشرافیہ کی؟

نیوز ڈیسک

لاہور – محمد عمران یوسف حکومت پنجاب کی جانب سے ان کے شہر لاہور میں اربوں روپے کے ایکسپریس وے پر دوبارہ کام شروع کرنے کی خبر ٹی وی پر سن کر حیران رہ گئے

سرکاری طور پر ایلیویٹڈ ایکسپریس وے کے نام سے جانا جاتا یہ منصوبہ پچھلی مرتبہ جب آگے بڑھایا جا رہا تھا تو شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ یوسف کی ان دنوں کی یادیں خوفناک تھیں، انہی یادوں کی وجہ سے مختلف خدشات نے انہیں ایک مرتبہ پھر اپنے حصار میں لے لیا

یہ سنہ 2014ع کی بات ہے، جب شہر میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) نے اس ایکسپریس وے کے حوالے سے ایک عوامی سماعت طلب کی تھی، جسے وہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا تھا

یوسف وہاں موجود لوگوں میں شامل تھے، جن کے گھروں اور دکانوں کو پنجاب حکومت زبردستی مسمار کر رہی تھی تاکہ اس بڑی آٹھ لین والی ایکسپریس وے سڑک کا راستہ بنایا جا سکے

جب اس سماعت کے دوران رہائشیوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو انتالیس سالہ یوسف نے کہا کہ کچھ قوی ہیکل آدمی جو اپنا تعلق ایل ڈی اے کے ساتھ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، ہال میں داخل ہوئے اور وہاں موجود لوگوں کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں

اپنی چھوٹی سی مرمت کی دکان پر بیٹھے یوسف نے بتایا ”انہوں نے ہمیں کہا کہ ہم اس منصوبے کے خلاف دائر درخواستیں ہائی کورٹ سے واپس لے لیں“

لیکن یوسف پیچھے نہیں ہٹے۔ وہ اور آٹھ دیگر درخواست گزار پنجاب حکومت کو عدالت لے گئے۔ جنوری 2018ع میں لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک (جو اب سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج ہیں) نے ایلیویٹڈ ایکسپریس وے کے منصوبے کی تعمیر کو مناسب ماحولیاتی معیارات پر پورا نہ اترنے پر روک دیا

ان عدالتی احکامات کے باوجود وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان احمد بزدار 2023ع کے عام انتخابات سے عین قبل میگا پراجیکٹ کی تعمیر پر کمر بستہ ہیں

یوسف کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا مستقبل اور روزگار ایک مرتبہ پھر غیر یقینی ہو گیا ہے۔ ان کی اور ان کے تین بچوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ لاہور کے مرکزی گلبرگ کے علاقے میں ان کی گاڑیوں کی مرمت کی دکان ہے۔ وہ پچیس سال سے اس دکان کے مالک ہیں

اور یوسف کی طرح اس کی گلی میں فرنیچر اور مرمت کی چوَن دیگر چھوٹی دکانیں ہیں، جن میں پانچ سو کے قریب لوگ کام کرتے ہیں۔ جبکہ علاقے میں چھوٹے بڑے گھر بھی ہیں۔ ایکسپریس وے کا راستہ بنانے کے لیے ان تمام لوگوں کو اپنا گھر اور کاروبار سمیٹ کر جگہ خالی کرنا ہوگی

یوسف کا مایوسی سے کہنا تھا کہ ”میں نہیں جانتا کہ میں اب کیا کروں گا“

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے 2018ع میں عمران خان کو ووٹ دیا تھا اور اب بھی واٹس ایپ پر ان کی ڈسپلے امیج کے طور پر عمران خان کی تصویر موجود ہے

وہ بتاتے ہیں کہ ”میرا کاروبار ختم ہو جائے گا، اور میرے ملازمین کہاں جائیں گے؟‘ فی الحال اس کاروباری کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ اس معاملے کو دوبارہ عدالت میں لے جائیں

لاہور ایلیویٹڈ ایکسپریس وے ہے کیا؟

ایلیویٹڈ ایکسپریس وے کا تصور پہلی بار پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2014ع میں سوچا تھا۔ یہ آٹھ رویہ سگنل فری ایکسپریس وے ہے، جو گلبرگ میں میکڈونلڈز کے پیچھے سے شروع ہو کر اچھرہ، سمن آباد اور گلشن راوی سے ہوتی ہوئی لاہور-اسلام آباد موٹروے پر ختم ہوگی

ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل احمد عزیز تارڑ کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر اکسٹھ ارب روپے لاگت آئے گی اور اسے مکمل ہونے میں پندرہ ماہ لگیں گے

عزیز تارڑ کا ماننا ہے کہ یہ منصوبہ لاہور، جو کہ پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے، میں ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے میں مدد دے گا

انہوں نے بتایا کہ ’یہ سب سے بڑا منصوبہ ہے جو ایل ڈی اے اس وقت لاہور میں شروع کر رہا ہے‘

ان کا کہنا ہے کہ شہر میں ٹریفک کی نمو کی شرح تین سے چار فیصد سالانہ ہے لیکن کینال روڈ پر یہی شرح سات تا آٹھ فیصد سالانہ ہے. اگر ٹریفک اسی طرح بڑھتی رہی تو چند سالوں میں کینال روڈ چھوٹی پڑ جائے گی. ہمیں اس کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنا ہوگا

سینتیس میل طویل کینال روڈ مغلوں کی تعمیر کردہ آبی گزرگاہ پر واقع ہے، جو لاہور شہر کے وسط سے گزرتی ہے

ایل ڈی اے کے لیے کینال روڈ پر ٹریفک کو کم کرنے کا واحد حل اس پر ایکسپریس وے بنانا ہے تاکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد یا موٹر وے پر واقع کئی اضلاع سے آنے والی ٹریفک کو شہر کے مرکزی علاقوں سے ملایا جا سکے

لیکن ذرائع کا ماننا ہے کہ ٹریفک کی باقاعدگی کے علاوہ ایک اور وجہ ہے کہ ایل ڈی اے اور پنجاب حکومت اس منصوبے پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ ہے پیسہ

ایل ڈی اے کے اندازے کے مطابق اپنی تعمیر کے بعد اس ایکسپریس وے کو تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار کاریں روزانہ استعمال کریں گی اور حکومت نے فی کار ایک سو روپے ٹال فیس وصول کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے

عزیز تارڑ نے مزید کہا کہ ’اس طرح بیس برسوں میں حکومت ایک سو اَسی ارب روپے جمع کرے گی۔‘

لاہور ہائی کورٹ نے 2018ع میں ایلیویٹڈ ایکسپریس وے کی تعمیر کو کیوں روکا؟

2018ع کے اوائل میں آٹھ درخواست گزاروں نے ایلیویٹڈ ایکسپریس وے کی تعمیر کو چیلنج کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا

ان کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ ایکسپریس وے جو کہ ایک انتہائی مہنگا اور بڑا منصوبہ ہے لاہور کے ماسٹر پلان میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے

انہوں نے مزید دلیل دی کہ اس منصوبے کے پاس مناسب ماحولیاتی منظوری نہیں تھی، کیونکہ اس کی ماحولیاتی اثرات کی رپورٹ میں اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ نہر کو کینال ہیریٹیج پارک ایکٹ کے تحت محفوظ کیا گیا ہے

درخواست دہندگان میں زیادہ تر گھروں کے مالکان تھے اور انہوں نے گلبرگ کے علاقے میں 132KV ہائی وولٹیج بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا تھا، جسے تعمیر شروع ہونے پر ان کے گھروں کے قریب منتقل کر دیا جانا تھا

دائر کی گئی پٹیشن کے مطابق ’ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن لائنوں کے نقصان دہ تابکاری سے متعدد اسکول اور ہسپتال متاثر ہوں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس سے درخواست گزاروں کی زندگی، جائیداد، ماحولیات، ورثے کے تحفظ اور قانون کے تحفظ کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی‘

درخواست گزاروں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ یہ اربوں روپے صوبے کی گیارہ کروڑ سے زائد آبادی کی صحت اور تعلیم کی بہتری پر خرچ کرے

ان دلائل کی روشنی میں لاہور ہائی کورٹ نے اس منصوبے کی تعمیر روک دی تھی

جب ڈی جی ایل ڈی اے سے پوچھا گیا کہ وہ 2018ع میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے روکے گئے ایک منصوبے کو دوبارہ کیسے شروع کر سکتے ہیں، تو انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا ”چونکہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ میرے سامنے نہیں ہے، اس لیے میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا“

پی ٹی آئی کی بزدار حکومت نے ایکسپریس وے پر دوبارہ کام کیوں شروع کیا؟

پی ٹی آئی نے 2018ع میں عام انتخابات کے بعد مرکز اور پنجاب میں حکومت بنائی۔ پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہونے کے ساتھ سیاسی طور پر ملک کا سب سے اہم صوبہ بھی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس کی قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں ہیں

گذشتہ تین برسوں میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کارکردگی پر حزب اختلاف اور حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے اپنے ناراض ارکان نے سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا موازنہ اپنے حریف پیشرو مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف سے کیا جاتا ہے کیونکہ شہباز شریف پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں میٹرو بس اور اورنج لائن جیسے مہنگے، بڑے اور دکھاوے کے منصوبے شروع کرنے کے لیے جانے جاتے تھے۔ یہ ایسے منصوبے ہیں، جو انتخابی مہم کے دوران ووٹرز کو راغب کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں

یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ وزیراعلیٰ بزدار نے اگلے عام انتخابات سے قبل ایلیویٹڈ ایکسپریس وے پر نظریں جما لی ہیں

ڈی جی ایل ڈی اے احمد عزیز تارڑ بتاتے ہیں ”گذشتہ سال جولائی اور اگست میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے صوبائی وزرا پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جہاں ایسے مختلف پراجیکٹس پر بات ہوئی، جو لاہور میں شروع کیے جا سکتے ہیں۔ ایلیویٹڈ ایکسپریس وے کو سب سے زیادہ قابلِ عمل منصوبوں میں سے ایک کے طور پر دیکھا گیا اور اس کی منظوری دی گئی

ایلیویٹڈ ایکسپریس وے کو دوبارہ قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا؟

تاہم چند ماہ بعد دسمبر 2021 میں، ایل ڈی اے کے چیف انجینیئر اسرار سعید کو لاہور ہائی کورٹ میں بلایا گیا۔ بمطابق عدالتی حکم انہوں نے عدالت میں واضح طور پر کہا کہ ”پراجیکٹ (ایلیویٹڈ ایکسپریس وے) کے حوالے سے کوئی بھی تعمیراتی کام نہیں کیا جا رہا ہے“

عدالتی حکم کے مطابق اسرار سعید نے مزید واضح کیا ہے کہ اس وقت یہ منصوبہ جاری نہیں ہے اور نہ ہی کسی تعمیر کے مقاصد کے لیے اسے منظور کیا گیا ہے

بعد ازاں اس حوالے سے جب اسرار سعید سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا کہ اس منصوبے کی کوئی منظوری نہیں دی گئی جبکہ پنجاب حکومت نے اگست میں اس کی منظوری دے دی تھی، تو انہوں نے کہا ”لاہور ہائی کورٹ نے پوچھا کہ کیا ہم نے تعمیر کا آغاز کیا ہے اور ہم نے کہا کہ ہم کوئی تعمیر نہیں کر رہے۔ فی الحال تو نہیں کر رہے۔ جب منظوری ہوگی تو ہم کورٹ کو بتائیں گے کہ اب ہم تعمیر کا آغاز کرنے جا رہے ہیں“

لاہور سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی وکیل اور کارکن احمد رافع عالم، جو 2018ع میں بھی درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہوئے تھے، نے کہا کہ وہ اس منصوبے کو دوبارہ عدالت لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں

ان کا کہنا ہے ”یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرار سعید نے لاہور ہائی کورٹ کو سچ نہیں بتایا“

احمد رافع عالم کا مزید کہنا ہے کہ ایل ڈی اے کے چیف انجینیئر نے دسمبر میں عدالت کو بتایا کہ ایکسپریس وے پر کوئی تعمیراتی کام نہیں ہو رہا تھا

احمد رافع عالم کہتے ہیں کہ ’میں عدالت میں واپس جاؤں گا اور عدالت سے کہوں گا کہ وہ اس کی غلط بیانی پر مقدمہ چلائے۔‘

اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ایل ڈی اے نے غلط بیانی کی ہے تو عدالت اس پر کارروائی کر سکتی ہے اور جرمانہ عائد کرسکتی ہے۔ توہین عدالت کی کارروائی پی سی ون کے مرحلے پر نہیں ہوگی بلکہ اس الزام پر کہ آیا اسرار سعید نے جان بوجھ کر ایل ڈی اے کی جانب سے غلط بیانی کی ہے

”ہم اپنے شہروں کو صرف کار والے اشرافیہ کے لیے ترتیب کر رہے ہیں“

احمد رافع عالم کا کہنا ہے ”اس منصوبے کی 2014ع کی فزیبلٹی اسٹڈی ایلیویٹڈ ایکسپریس وے کے نشان کردہ راستے پر سفر کرنے والوں کی تعداد کے تخمینے پر مبنی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ 2022ع میں ان اندازوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ 2014ع سے لاہور کی جیل روڈ پر سگنل فری کوریڈور بنایا گیا ہے اور اورنج لائن میٹرو ٹرین بھی چلائی گئی ہے“

وہ کہتے ہیں ”یہ دونوں منصوبے بھی مسافروں کو اسی طرح کا راستہ فراہم کرتے ہیں، جیسا کہ یہ اربوں روپے کا پراجیکٹ۔ اس بنا پر آج اس منصوبے کی کوئی ضرورت نہیں ہے“

ان کے مطابق زیادہ سڑکوں کا مطلب شہر میں زیادہ ٹریفک ہے، جس کا مطلب ہے فضائی آلودگی میں اضافہ۔ ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد آبادی کا شہر لاہور پہلے ہی سالانہ سموگ کا شکار ہوتا ہے اور اکثر اسے دنیا کے آلودہ ترین شہر کے طور پر درجہ دیا جاتا ہے

رافع عالم کا کہنا ہے ”پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری کرنے اور ہمارے شہروں کے ڈیزائن کے طریقے کو تبدیل کرنے کے بجائے وہ [حکومت اور ایل ڈی اے] شہر میں مزید کنکریٹ انفراسٹرکچر شامل کر رہے ہیں“

وہ کہتے ہیں ”لاہور کی صرف 10 سے 15 فیصد آبادی کو ذاتی گاڑیوں کی سہولت حاصل ہے جبکہ ایک بہت بڑی تعداد پیدل ہے یا موٹر سائیکل استعمال کرتی ہے۔ اس کے باوجود ہم اپنے شہروں کو صرف ان اشرافیہ کے لیے ترتیب کر رہے ہیں، جن کے پاس کاریں ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close