لندن – زوم کال پر تقریباً چالیس لوگ تھے، یا کم از کم جو لوگ وہاں موجود تھے ان کا یہی خیال تھا۔ ”گلیمرس ڈیزائن ایجنسی“ میں تمام عملے کی یہ میٹنگ بڑھتی ہوئی کمپنی میں نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے بلائی گئی تھی
اس کا نام ’میڈ برڈ‘ تھا اور اس کے متحرک اور متاثرکن سربراہ علی ایاد چاہتے تھے کہ کال پر آنے والا ہر شخص اس کی طرح پرجوش طریقے سے کام کرے
لیکن زوم میٹنگ کے لیے اپنے کیمرے آن کرنے والے لوگ اس بات سے لاعلم تھے کہ میٹنگ میں شرکاء کے طور پر درج موجود کچھ لوگ حقیقی لوگ نہیں تھے
کچھ کے پاس فعال ای میل اکاؤنٹس اور ’لنکڈ ان‘ پروفائلز بھی تھے، لیکن ان کے نام گھڑے گئے تھے اور ان کے ہیڈ شاٹس یا چہرے کی تصاویر دوسرے لوگوں کی تھیں یا اصلی نہیں تھیں. دراصل یہ سارا معاملہ جعلی تھا کیونکہ حقیقی ملازمین کو پہلے ہی ’ملازمت سے فارغ‘ کر دیا گیا تھا
مانچسٹر میں مقیم ستائیس سالہ سیلز مینیجر کِرس ڈوسی نے اس زوم کال سے چند ماہ قبل اکتوبر سنہ 2020ع میں ‘میڈ برڈ’ میں ملازمت کا آغاز کیا تھا. انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ گھر سے کام کریں گے۔ عالمی وبا اب بھی پھیل رہی تھی، لہٰذا یہ معمول کی بات تھی
کووڈ کے باعث کِرس مالی مشکلات کا سامنا کر رہے تھے، ان کی پہلی نوکری چلی گئی تھی، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے میڈ برڈ میں ملازمت کے لیے درخواست دی تھی
ملازمت کے اشتہار میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ’ایک ڈجیٹل ڈیزائن ایجنسی ہے، جو لندن میں بنائی گئی ہے اور اس کا محور انسان ہیں اور یہ دنیا بھر میں چل رہی ہے“ کرس اسے پڑھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا
میڈ برڈ نے پچاس سے زائد دیگر افراد کو بھرتی کیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر نے سیلز میں کام کیا، کچھ نے ڈیزائن کے شعبے میں اور کچھ کو نگرانی کے لیے لایا گیا
ہر نئے شامل ہونے والے کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، جس میں ای میل پر پیغام رسانی اور زوم پر ایک دوسرے سے بات کرنا بتایا گیا تھا
دیگر عملہ برطانیہ سے باہر رہتا تھا۔ عالمی مارکیٹ میں جگہ بنانے کے خواہشمند، میڈ برڈ کے ہیومن ریسورس یا ایچ آر ڈپارٹمنٹ نے دبئی سے بین الاقوامی سیلز ٹیم میں آسامیوں کے اشتہارات آن لائن جاری کیے تھے۔ یوگنڈا، بھارت، جنوبی افریقہ، فلپائن اور دیگر ممالک سے کم از کم ایک درجن افراد کی خدمات حاصل کی گئیں
ان کے لیے ملازمت کا مطلب صرف تنخواہ کا چیک نہیں تھا بلکہ اس کا مطلب برطانیہ کا ویزا بھی تھا، کیونکہ معاہدے میں کہا گیا تھا کہ اگر انہوں نے اپنی چھ ماہ کی عبوری مدت گزار لی، اور اپنے سیلز کے اہداف کو پورا کر لیا تو میڈ برڈ انہیں برطانیہ منتقل ہونے کے لیے سپانسر کرے گی
علی ایاد جانتے تھے کہ برطانیہ میں نئی زندگی گزارنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ لندن میں آباد ہونے سے پہلے وہ اکثر میڈ برڈ کے عملے سے اپنے ماضی کے بارے میں بات کرتے تھے لیکن ان کی کہانی بدلتی رہی تھی
ایک شخص کے سامنے انہوں نے خود کو ‘مورمن’ کے طور پر متعارف کرایا، جو امریکا کی ریاست یوٹاہ میں آباد ایک فرقہ ہے۔ دوسروں کے بتایا کہ وہ لبنان سے ہیں، جہاں بچپن کے مشکل حالات سے انہوں نے کسی طرح ایک اچھا کاروباری بننا سیکھ لیا تھا
یہاں تک کہ انہوں نے اپنا نام بھی تبدیل کر لیا تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنی کنیت میں ایک دوسرے ‘وائے’ کا اضافہ کر کے ‘ایاد’ لکھا کرتے۔ کبھی وہ ‘الیکس ایڈ’ کے طور پر دستخط کرتے
تاہم ان کی کہانی کے کچھ ایسے باب بھی تھے جن میں کوئی ردوبدل نہیں ہوا تھا۔ اس میں سب سے اہم چیز یہ تھی کہ انہوں نے کچھ عرصہ مشہور کمپنی ’نائیکی‘ کے ساتھ بھی گزارا تھا جہاں وہ تخلیقی ڈیزائنر تھے
انہوں نے اپنے ہر ساتھی کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ امریکا کی ریاست اوریگون میں نائیکی کے ہیڈکوارٹرز میں کام کرتے رہے تھے۔ یہی وہ مقام تھا، جہاں ان کی ملاقات میڈبرڈ کے شریک بانی، ڈیوّ اسٹینفیلڈ سے ہوئی تھی
علی نے اپنے شاندار کریئر کے حوالے سے جو کہانی سنائی تھی، وہ حقیقت سے دور نہیں لگتی تھی۔ وڈیو کالز کے دوران وہ بہت متاثر کن انداز میں بات کرتے تھے
باتوں کی گہرائی اور کرشماتی شخصیت کی وجہ سے ہر کوئی ان سے متاثر ہوتا تھا، حتیٰ کہ یہ بھی لگتا تھا کہ وہ دوسروں کا خیال رکھنے والے انسان ہیں۔ وہ بڑے اعتماد سے بات کرتے، یہاں تک کہ کبھی کبھی لگتا تھا کہ ضرورت سے زیادہ بڑے بڑے دعوے کر کے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں
ان کا یہی وہ جادوئی انداز تھا، جس کی وجہ سے کم از کم تین افراد اپنی پرانی نوکریاں چھوڑ کر ان کے ساتھ کام کرنے پر رضامند ہوگئے
میڈبرڈ کے عملے کے پاس علی کی نائیکی والی کہانی پر شک کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی۔ اور اگر انہیں شک ہوتا بھی تو علی کے لِنکڈ ان پروفائل پر جا کر دیکھ سکتے تھے، جہاں علی کے پرانے ساتھیوں کی طرف سے تعریفوں کے پل باندھے گئے تھے
اگلے کئی ماہ تک میڈبرڈ کا کاروبار خوب چلتا رہا، اور اس دوران ڈیزائن کے شعبے میں مزید لوگوں کو بھرتی کیا گیا تاکہ ان ٹھیکوں کی بھرمار کو مکمل کیا جا سکے، جو کپمنی کی سیلز ٹیم لا چکی تھی
لیکن میڈبرڈ کی حقیقت کے افشا ہونے سے پہلے ہی اس کے ملازمین کو مسائل کا سامنا شروع ہو گیا۔ جس عجیب و غریب طریقے سے کمپنی نے ان سے معاہدے کیے تھے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملازمین کو ابھی تک تنخواہیں نہیں ملی تھیں
معاہدے کے تحت تمام ملازمین یہ تسلیم کر چکے تھے کہ پہلے چھ ماہ میں وہ کمیشن پر کام کریں گے اور چھ ماہ کا پروبیشن پیرید مکمل کے بعد ہی انہیں ماہانہ تنخواہ ملا کرے گی۔ اکثر ملازمین کو پینتیس ہزار سے سینتالیس ہزار تین سو ڈالر ماہانہ تک کا وعدہ کیا گیا تھا
معاہدے کے مطابق ماہانہ تنخواہ شروع ہونے تک ہر ملازم کو سودے میں سے ایک خاص حصہ دیا جائے گا، جو اس نے طے کیا ہوگا
یہ تمام ملازمین نوجوان تھے، جو وبا کے دنوں میں محض کسی کام کی تلاش میں تھے اور اکثر کا خیال تھا کہ ان کے پاس میڈبرڈ کی شرائط کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارا نہیں تھا
لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمپنی کا کوئی بھی سودا پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچا تھا۔ فروری 2021ع تک کسی بھی خریدار کے ساتھ معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے اور میڈ برڈ کے کسی بھی ملازم کو ایک ٹکہ بھی نہیں ملا تھا
بھرتی ہونے والے کچھ لوگ تو ایک ہفتے بعد ہی نوکری چھوڑ گئے، لیکن زیادہ تر رکے رہے۔ بہت سے تقریباً چھ ماہ تک کمپنی میں موجود رہے اور اس دوران کریڈٹ کارڈز پر گزارا کرتے رہے، جو خاندان والوں سے قرض لے لے کر اپنے بِل ادا کرتے رہے
اب تو یہ واضح ہوگیا ہے کہ میڈبرڈ کے کسی بھی ملازم کو کبھی بھی تنخواہ نہیں ملی تھی۔ کمپنی کوئی پیسے نہیں کما رہی تھی۔ لیکن یہ بات نئے آنے والوں کی معلوم نہیں تھی۔ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ کمپنی سے انہوں نے ملازمت کے جو معاہدے کیے تھے، وہ خاص قسم کے تھے اور ان کے مینجروں کو تو یقیناً تنخواہیں مل رہی ہوں گی۔ انہیں امید تھی کہ کمپنی جلد ہی بہت سے سودے مکمل کرنے والی تھی اور پیسے آنے والے تھے
اس وقت تک شاید یہی لگتا ہو، لیکن پھر وہ سہہ پہر بھی آ گئی جب ساری کمپنی دھڑام سے گر گئی۔
تب ہی کمپنی کے دو ملازمین، جیما بریٹ اور انٹونیو اسٹوئرٹ کو شک پڑ گیا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ انہوں نے انٹرنیٹ پر ’ریروس امیج‘ کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے کھوج لگانے کی کوشش کی کہ ان ساتھی ملازمین کی تصویریں شروع کہاں سے ہوئیں۔ بہت جلد ہی انہیں معلوم ہو گیا کہ ان کے کئی ساتھی ملازمین کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے
دونوں نے کمپنی کے تمام عملے کو جین سمتھ کے فرضی نام سے ای میل بھیجنے کا فیصلہ کر لیا
یہ ای میل انہوں نے جس سہہ پہر بھیجی، اس دن بظاہر کمپنی میں بڑا کام تھا اور ہر کوئی مصروف تھا۔ ای میل میں انہوں نے میڈ برڈ کے بانی افراد پر ’شرمناک اور غیر اخلاقی‘ رویے کا الزامات لگاتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ انہوں نے دوسرے لوگوں کا تخلیقی کام چرایا ہے اور ’جعلی‘ عملہ بنایا ہوا ہے
کپمنی کے حقیقی ملازمین کے لیے یہ انکشافات ہوش اڑا دینے والے تھے۔ انہیں لگا کہ وہ کمپنی کے لیے جو کام کر رہے تھے، وہ تو تمام جھوٹ تھا
اب انہیں محسوس ہونے لگا کہ وہ گذشتہ کئی ماہ سے جو محنت کرتے رہے ہیں اور کمپنی کو جتنا وقت دے چکے ہیں، اس کا تو کوئی معاوضہ نہیں ملے گا
یہی وہ وقت تھا جب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے میڈبرڈ کے سارے معاملے کی تحقیق کرنا شروع کی۔ اس دوران بی بی سی کے تحقیق کاروں نے نہ صرف جین اسمتھ کی ای میل میں لگائے گئے الزامات کی تصدیق کی، بلکہ مزید چھان بین بھی کی
جھوٹے اور چُرائے ہوئے پروفائل
بی بی سی کی ٹیم معلوم ہوا کہ کمپنی کا یہ دعویٰ جھوٹ تھا کہ ’ہم گذشتہ دس برس سے مقامی اور عالمی سطح پر اپنی مصنوعات فروخت کرنے کا تجربہ رکھتےہیں‘
اس کے برعکس حقیقت یہ تھی کہ علی ایاد برطانیہ میں قانونی طور پر اپنی کمپنی کا اندارج اُسی دن کرایا تھا، جس دن انہوں نے سیلز مینجر کے عہدے کے لیے کِرس ڈوسی کا انٹرویو کیا تھا، یعنی 23 ستمبر2020 کو
میڈبرڈ کے سینیئر مینجروں میں کم از کم چھ ایسے تھے، جو جعلی تھے، یعنی اصل میں ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ان کی شناخت انٹرنیٹ پر موجود مختلف لوگوں کی تصاویر چرا کر بنائی گئی تھیں اور ان کے نام بھی خود ہی گھڑے گئے تھے
کپمنی کے ان کرتا دھرتا جعلی افراد میں میڈ برڈ کے شریک بانی ڈیو اسٹینفلیڈ بھی شامل تھے، حالانکہ لِنکڈ ان پر ان کا ایک نیا پروفائل بھی موجود تھا اور علی ہر وقت ان کا ذکر کرتے رہتے تھے
دھوکہ کھا جانے والے عملے کے کچھ لوگ تو اس جعلی بانی کی طرف سے ای میلز بھی وصول کر چکے تھے
ایک ملازم کو علی یہ بھی کہہ چکے تھے کہ ”اگر وہ ڈیو سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ای میل بھیج دیں کیونکہ وہ نائیکی کے ساتھ کسی پراجیکٹ میں اس قدر مصروف ہیں کہ وہ فون بھی نہیں اٹھا سکتے“
بی بی سی کی ٹیم کو تحقیق میں چہرہ شناخت کرنے والی (فیشل ریکگنیشن) ٹیکنالوجی کے استعمال سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ڈیو اسٹینفیلڈ کی جو تصویر زوم میٹنگز میں دکھائی جاتی تھی، وہ اصل میں چیک ریپبلک کے شہر پراگ میں مقیم مچل کیلس کی ہے، جو شہد کی مکھیوں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ جب ان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تو میڈبرڈ، علی ایاد یا ڈیو اسٹینفلیلڈ کا نام تک نہیں سنا
ان جعلی مینجروں میں ایک اور نام نائجل وائٹس کا تھا۔ یہ نام استعمال کرنے والا شخص جنوری میں ہونے والی زوم کال میں بھی موجود تھا، لیکن اس کی تصویر کسی گرافِک ڈیزائنر کی نہیں تھی بلکہ یہ ایک ماڈل کی تصویر تھی، جو گوگل سے چرائی گئی تھی
جب ‘جِنجر مین’ کے الفاظ سے گوگل پر تصویریں تلاش کی گئیں تو سب سے پہلے سامنے آنے والی تصویروں میں اس شخص کا چہرہ بھی شامل تھا۔ اس شخص کا چہرہ انٹرنیٹ پر ہر جگہ موجود تھا
ٹیم نے ان تمام بیالیس افراد سے بھی رابطہ کیا، جن کے بارے میں میڈبرڈ کا دعویٰ تھا کہ یہ لوگ ماضی میں کمپنی کے لیے کام کر چکے ہیں۔ ان میں سے جن افراد نے درخواست کا جواب دیا، ان میں ایک بھی ایسا نہیں تھا، جس نے کبھی بھی میڈورڈ میں کام کیا ہو
جب ٹیم نے اس معاملے کی مزید کھوج لگائی تو علی کی اپنی کہانی بھی جھوٹ نکلی۔ ان کے دعوے کے برعکس علی نے کبھی بھی نائیکی کے ساتھ ‘کریئٹِو لِیڈ’ کی حیثیت سے کام نہیں کیا تھا
نائیکی نے بی بی سی کی تحقیقاتی ٹیم کو تحریری شکل میں تصدیق کی کہ کمپنی نے کبھی بھی علی ایاد نامی شخص کو ملازم نہیں رکھا اور نہ ہی اس سے ملتے جلتے نام کے کسی اور شخص کو
اور پھر باری آئی علی کے انسٹاگرام اکاؤنٹ کی، جہاں انہوں نے اپنے نوے ہزار سے زیادہ مداحوں کو یہ بتایا ہوا تھا کہ ایک ماڈل اور انفلوئنسر کی حیثیت سے وہ کیا کچھ کر چکے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں
میڈبرڈ کے ملازمین کے دھوکہ کھانے اور علی کو سراہنے کی ایک بڑی وجہ انسٹاگرام پر علی کا اکاؤنٹ تھا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ علی انسٹاگرام پر اپنی زندگی کی جو تصویر پیش کر رہے تھے، وہ ان کی حقیقی زندگی سے کوسوں دور تھی
انسٹاگرام پر ان کی ایک پوسٹ پر بی بی سی کی تحقیقاتی ٹیم کی توجہ خاص طور پر مرکوز ہو گئی، جس میں علی ایاد مشہور فیشن میگزین ‘جی کیو’ کا صفحہ کھول کے دکھا رہے تھے، جہاں وہ اسپین کے معروف برینڈ ‘ماسیمو دُتی ‘ کی جیکٹ پہنے ماڈلنگ کر رہے تھے
لیکن جب ٹیم نے جی کیو کا وہ شمارہ لے کر اس کا صفحہ نمر 63 کھولا تو، وہاں علی کی کوئی تصویر نہیں تھی، بلکہ اس اس صفحے پر تو ایک گھڑی کا اشتہار تھا
تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ علی ایاد نے نہ تو کبھی ماسیمو دُتی کے لیے ماڈلنگ کی تھی اور نہ ہی ‘جی کیو’ میں ان کی کوئی تصویر کبھی شائع ہوئی تھی
جب میڈبرڈ کے عملے کو معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے، تو انہیں شدید دھچکا لگا۔ ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جو تنخواہ کے بغیر چھ چھ ماہ کام کر چکے تھے
یہ لوگ آج بھی بیروزگار ہیں اور وبا کے اس دور میں شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ وہ تو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے
اپنی پہلی تنخواہ کے انتظار میں سیلز مینیجر کرِس ڈوسی ماہانہ بِل ادا کرنے کے لیے اپنے کریڈٹ کارڈ پر دس ہزار پاؤنڈ کا قرض لے چکے تھے
دوسرے ملکوں میں کمپنی کے ملازمین کا حال شاید اس بھی برا تھا۔ بھارت کے شہر چنئی سے تعلق رکھنے والے ایلوس جان کو ایک وقت یہ لگ رہا تھا کہ کچھ ہی عرصے میں وہ برطانیہ روانہ ہو جائیں گے
ان کی چھ ماہ کی پروبیشن ختم ہونے میں چند ہی ہفتے باقی رہ گئے تھے اور انہیں پوری امید تھی کہ علی ان کا ویزا اسپانسر کر دیں گے۔ لیکن جب انہیں جین اسمتھ کی ای میل ملی وہ ذہنی ڈپریشن میں چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا ’میرے تمام خواب چکنا چور ہو چکے تھے۔‘
ان دنوں ایلوس جان چونکہ دبئی میں کام کر رہے تھے، اس لیے ان کے لیے مسائل شدید بڑھ گئے
وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ میڈبرڈ کے نمائندے کے طور پر کوئی سودا طے کر دیتے تو دبئی کے سخت قوانین کی وجہ سے انہیں لینے کے دینے پڑ سکتے تھے، اور قید کی سزا ہو سکتی تھی یا انہیں واپس بھارت بھجوا دیا جاتا
ایلوس کے بقول ‘مجھے نہیں معلوم علی کو کبھی بھی یہ سمجھ آئے گی کہ اس نے ہم سب کو کتنی بڑی مصیبت میں ڈال دیا تھا۔’ ایلوس سمجھتے ہیں علی نے یہ سب کچھ ایسے کیا جیسے یہ کوئی کھیل ہو
بہت سے ملازمین شرمندہ تھے کہ ان کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے کئی دنوں اور ہفتوں تک اپنے دوستوں اور خاندان والوں سے یہ بات چھپائے رکھی
اور دیگر لوگوں کے لیے کسی دوسرے شخص کو یہ سارا معاملہ سمجھانا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ وہ جب بھی بتانے کی کوشش کرتے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا، لوگ ایسے سوال پوچھتے، جن کے جواب دھوکہ کھا جانے والے عملے کے پاس نہیں تھے
کیا علی کو اپنے کیے کے نتائج کا علم ہوا؟
کافی عرصے تک علی کا یہی کہنا تھا کہ وہ اپنا مؤقف بتانا چاہتے ہیں کہ یہ تمام واقعات کیسے ہوئے۔ کئی ماہ تک بی بی سی اور علی ایاد کے درمیان پیغامات کا تبادلہ ہوتا رہا اور آخر کار وہ بی بی سی کے دفتر آ کر کیمرے کے سامنے انٹرویو دینے پر آمادہ ہو گئے، تاہم پھر ایک ہی دن پہلے انہوں نے آنے سے انکار کر دیا
بی بی سی کی ٹیم نے علی کا موقف جاننے کے لیے مسلسل کوشش جاری رکھی، آخر گذشتہ برس اکتوبر میں ایک دن لندن کی ایک سڑک پر ان کا علی سے ٹاکرا ہو ہی گیا۔ انہوں نے سیاہ رنگ کی چمڑے کی جیکٹ پہن رکھی تھی اور وہ ایک ٹیوب اسٹیشن کی جانب جا رہے تھے
اگر وہ بی بی سی کی تحقیقاتی ٹیم کو دیکھ کر حیران ہوئے بھی تھے تو بھی انھوں نے ظاہر نہیں ہونے دیا، اور جب ٹیم نے سوال پوچھنا شروع کیے تو پہلے پہل انہوں نے نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔لیکن کچھ دیر بعد وہ مجبوراً سوالوں کا جواب دینے لگے
علی کا اصرار تھا کہ وہ کوئی بھلے کا کام کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ‘میں صرف یہ جانتا ہوں کہ ہم نے کووڈ کے دنوں میں لوگوں کے لیے کچھ اچھے مواقع پیدا کیے۔
جب بی بی سی نے ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے جعلی اکاؤنٹ بنائے اور دوسرے لوگوں کے کاموں کو چرایا، تو وہ غصے میں آ گئے۔
’میں نے ایسا کیا؟ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں نے ایسا کیا ہے؟‘
کیا علی یہ کہنا چا رہے تھے کہ کوئی اور شخص اس میں ملوث تھا؟
لیکن جب ٹیم نے اپنی بات پر اصرار کیا، تو انہوں نے کسی دوسرے شخص کا نام نہیں بتایا
اس بات کا امکان ہمیشہ تھا کہ اس معاملے کے پیچھے شاید کوئی اور ماسٹر مائنڈ بیٹھا ہوا تھا، اور یہ ایک ایسی چیز تھی جس کے بارے میں تحقیقاتی ٹیم شروع سے غور کر رہی تھی ۔ لیکن چونکہ علی نے کبھی کسی کا نام نہیں لیا اور نہ کوئی مدد کی، اس لیے اس بارے میں مزید پیش رفت ممکن نہیں ہو سکی
علی کا یہ بھی اصرار تھا کہ میڈ برڈ کا ایک اپنا دفتر بھی تھا لیکن جب ٹیم نے بار بار پوچھا کہ وہ دفتر کہاں ہے، تو علی نے بات بدل دی اور کہا کہ ان کی مراد ورچوئل آفس تھی۔ دفتر کے لیے ‘ضروری نہیں کہ آپ کے پاس کمپیوٹرز اور دوسری چیزیں موجود ہوں، ہے ناں؟‘
‘یہ تو ہے ہی ایک ڈجیٹل کمپنی۔’
اس کے بعد علی نے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں دیا، اس لیے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر علی ایاد نے میڈبرڈ بنائی کیوں تھی
جن لوگوں نے علی کے ساتھ آن لائن بہت سا وقت گزارا اور ای میلز کا تبادلہ کرتے رہے، ان کے ذہن میں دو چیزیں آتی ہیں
پہلا خیال یہ ہے کہ علی نے یہ تمام حربے ایک کاروبار شروع کرنے کے لیے کیے تھے
ہو سکتا ہے کہ اس کا آغاز جھوٹ سے ہوا ہو، لیکن ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں میڈبرڈ واقعی سودے کرنے میں کامیاب ہو جاتی اور یوں اسے پیسے ملنا شروع ہو جاتے۔ عملے کا خیال تھا کہ کمپنی چند ہی دنوں میں مختلف خریداروں کےساتھ معاہدوں پر دستخط کرنے ہی والی تھی، لیکن سب کچھ بکھر کے رہ گیا
ان لوگوں کا خیال ہے کہ اگر یہ جھوٹ نہ پکڑے جاتے تو ہو سکتا ہے کسی کو کبھی معلوم ہی نہ ہوتا کہ میڈبرڈ کا آغاز کیسے ہوا تھا اور لوگ اس کمپنی کے ساتھ کاروبار کرتے رہتے
اس حوالے سے دوسرا نظریہ یہ ہے کہ علی ایاد شاید اس کمپنی کے ذریعے صرف پیسے نہیں کمانا چاہتے تھے
ہو سکتا ہے علی کو یوں آن لائن باس بن کر مزا آتا ہو۔ لگتا ہے کہ جب وہ یہ کمپنی چلا رہے تھے تو وہ بہت خوش تھے۔ وہ جب ملازمت کے خواہشمند کسی شخص سےآن لائن انٹریو لیتے تھے، تو اکثر یہ انٹرویو ایک گھنٹے سے زیادہ جاری رہتا
زوم میٹنگز میں بھی وہ اکثر بتاتے کہ وہ لوگوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کر کے اور انہیں نئے مواقع فراہم کر کے ان کی زندگی بدل چکے ہیں
وہ اپنے عملے کے لوگوں کو اکثر انٹرنیٹ لِنک بھیجتے اور کہتے کہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ یہ میوزک بھی سنا کرو۔ وہ ایک ہر دلعزیز اور ’کُول‘ باس بننا چاہتے تھے، اور یہ سچ ہے کہ جتنا عرصہ یہ آن لائن کمپنی چلتی رہی، ان کے عملے کے لوگ انہیں ایک کول باس ہی سمجھتے رہے
کورونا وائرس کی عالمی وبا نے بہت سے لوگوں کے کام کرنے کے طریقوں کو بدل دیا ہے اور اب کمپیوٹر اسکرین کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرنا معمول بن چکا ہے۔ علی ایاد نے اسی چیز سے فائدہ اٹھایا
لگتا ہے وہ ایلون مسک بننا چاہتے تھے، جو ان کے ہیرو بھی ہیں۔ ان کا خیال یہی تھا کہ میڈبرڈ بنا کر وہ اپنی منزل پر جلد پہنچ جائیں گے، ایک ایسی دنیا میں، جہاں لوگ حقیقی دنیا کی بجائے صرف ان کی آن لائن شناخت کو ہی دیکھیں گے
علی نے جو جوا کھیلا، اس کا سب سے عجیب پہلو یہ ہے کہ جس دنیا میں ہم آج رہ رہے ہیں، وہاں علی کی آن لائن شناخت اپنا جادو تقریباً دکھا چکی تھی!