بیر بھوم – بھارتی صوبے مغربی بنگال میں بظاہر سیاسی دشمنی کے ایک واقعے میں دس مکانوں کو آگ لگا دی گئی اور آٹھ افراد زندہ جلا دیے گئے۔ اپوزیشن بی جے پی نے ترنمول کانگریس کی حکومت کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے
کولکتہ ہائی کورٹ اس واقعے کی مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی یا این آئی اے سے انکوائری کرانے کے مطالبے پر آج بدھ کو سماعت کر رہی ہے
اس واقعے پر کولکتہ سے نئی دہلی تک سیاسی ہنگامہ شروع ہو گیا ہے۔ ریاستی گورنر اور وزیراعلیٰ کے درمیان لفظی جنگ میں ایک بار پھر تیزی آ گئی ہے۔ اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی نے ریاست میں ممتا بنرجی حکومت کو برطرف کر کے صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ریاست کے چیف سکریٹری کو پورے معاملے کی 72 گھنٹے کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ ریاستی حکومت نے ریاستی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کی سربراہی میں واقعے کے جانچ کے لیے خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) قائم کر دی ہے
دس گھروں کو آگ لگا کر آٹھ لوگوں کو زندہ جلادیے جانے کا یہ واقعہ منگل کے روز مغربی بنگال میں بیر بھوم ضلع کے بوگتوئی گاؤں میں پیش آیا
اس سے قبل پیر کے روز ترنمول کانگریس سے تعلق رکھنے والے گاؤں کے نائب پردھان بھادو شیخ کو کسی نے مبینہ طور پر قتل کر دیا تھا۔ اس سے ناراض مشتعل ہجوم نے گاؤں پر حملہ کر دیا اور متعدد مکانوں کو آگ لگا دی، جس میں دو بچوں سمیت کم از کم آٹھ افراد زندہ جل گئے
کچھ اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد بارہ بتائی گئی ہے، جبکہ بی جے پی کے رکن پارلیمان لاکٹ چٹرجی نے بیس افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ لوگوں کو زندہ جلانے سے قبل انہیں قتل کر دینے کی بات بھی کہی جا رہی ہے
ریاستی پولیس کا کہنا ہے کہ مکانوں میں آگ لگا دینے کی وجہ سے سات افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھے، جبکہ تین زخمیوں کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں ایک کی موت ہو گئی
پولیس نے ہلاک ہونے والوں کے نام جہاں آرا بی بی، للی خاتون، سہیلی بی بی، نور نہر بی بی، روپالی بی بی، قاضی ساجدالرحمان، تولی خاتون، اور مینا بی بی بتائے ہیں۔ ساجدالرحمان اور للی خاتون کی ابھی حال ہی میں شادی ہوئی تھی
پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک ایک درجن سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے
بیربھوم ضلع میں پیش آنے والا واقعہ حالیہ عرصے میں بدترین اور سن 2011ع میں ترنمول کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ اس واقعے کی وجہ سے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی خاصی سبکی ہو رہی ہے، جنہیں اقلیتوں کا ہمدرد سمجھا جاتا ہے
پولیس گوکہ اس واقعے کو سیاسی رقابت کا نتیجہ سے انکار کر رہی اور ذاتی دشمنی قرار دے رہی ہے، تاہم اپوزیشن بی جے پی کا کہنا ہے کہ ترنمول کانگریس کے اندر کی باہمی چپقلش اس ”قتل عام‘‘ کی وجہ ہے
گزشتہ اسمبلی الیکشن میں ترنمول کانگریس کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے والی بی جے پی اس واقعے کو ممتا بنرجی کے خلاف پوری شدت کے ساتھ استعمال کر رہی ہے۔ بی جے پی نے الزام لگایا ہے کہ ریاست میں قانون اور انتظام کی مشنری پوری طرح ٹوٹ پھوٹ چکی ہے
دہلی میں بی جے پی کے رکن پارلیمان نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت مغربی بنگال میں سیاسی تشدد کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا ”ہم مغربی بنگال میں اس طرح کے واقعے سے شرمندہ ہیں۔ بے گناہ لوگوں اور بچوں کو زندہ جلادیا گیا۔ لوگ خوف کی وجہ سے گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں“
ان کے بقول ”بی جے پی کے اب تک دو سو سے زائد ورکروں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ آخر حکومت کر کیا رہی ہے؟ اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔“
بائیں بازو کی جماعت سی پی ایم نے اس واقعے کو ”قتل عام‘‘ قرار دیا۔ سی پی ایم کے ریاستی سکریٹری محمد سلیم کا کہنا ہے ”ایک بار پھر کوئی وزیر جائے واردات کا دورہ کرے گا لیکن ان اموات کی ذمہ داری کون لے گا؟ واقعے کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے‘‘
اس ہولناک واقعے کے بعد ریاستی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور گورنر جگدیپ دھنکڑ کے درمیان اختلافات ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئے ہیں
گورنر دھنکڑ نے اس واقعے پر ایک وڈیو بیان جاری کیا اور ریاستی حکومت کو خط بھی لکھا۔ انہوں نے اس واقعے کو ”ہولناک تشدد‘‘ قرار دیا
انہوں نے ممتا بنرجی پر طنز کرتے ہوئے لکھا ”حکومت کو خود غرض مفادات سے اوپر اٹھنے کی ضرورت ہے، لیکن ایسا دکھائی نہیں دے رہا ہے‘‘
وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے جوابی بیان میں کہا ”ایک آئینی عہدے پر فائز شخص کو اس طرح کے بیانات دینا زیب نہیں دیتا، یہ حکومت کو دھمکانے اور مغربی بنگال کو بدنام کرنے کی کوشش ہے‘‘