لاہور – گزشتہ روز اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن نے پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کروائی، جس میں سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف مہم چلانے کی مذمت کی گئی
قرار داد کہا گیا کہ ’تحریک انصاف کی خاتون ایم این اے اور پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم فوج کے خلاف مہم چلا رہی ہے، جس کی مذمت کی جاتی ہے‘
اس قرار داد میں الزام بھی عائد کیا گیا ”حکمراں جماعت اداروں کے سربراہان کے خلاف کردارکشی کی مہم چلا رہی ہے۔ حکومت اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کررہی ہے۔ فوج مخالف مہم بھارت کو خوش کرنے کے لیے چلائی جارہی ہے۔ وزیراعظم بھی مودی کی خارجہ پالیسی کی تعریفیں کررہے ہیں“
قرارداد کے متن کے آخر میں لکھا گیا ”ایف آئی اے فوج کے خلاف چلائی جانے والی اس مہم میں ملوث افراد کو گرفتار کرے جبکہ ’یہ ایوان افواج پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے“
خیال رہے کہ گذشتہ ساڑھے تین برسوں میں پہلی مرتبہ مسلم لیگ ن کے طرف سے اس طرح کی کوئی قرارداد کسی بھی اسمبلی میں پیش کی گئی ہے، جسے تجزیہ نگار ملک کے بدلتے سیاسی حالات کے تناظر میں اہم قرار دے رہے ہیں
سیاسی مبصرین اس قرارداد کو اس لیے بھی اہم سمجھ رہے ہیں اسمبلی فلور پر زیادہ تر اس طرح کی قراردادیں زیادہ حکمراں جماعتیں ہی لے کر آتی رہی ہیں
سنہ 2018ع کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ اختیار کیا، جس کو بظاہر سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے بیانیے میں فوج کی جگہ ہمیشہ رکھتی ہیں، لیکن اس کو استعمال کب کرنا ہے یہ صورتحال پر منحصر ہوتا ہے۔ تحریک انصاف نے بالکل ایسی ہی ایک قرارداد مارچ 2014ع میں پنجاب اسمبلی میں جمع کروائی تھی
ایک تو تحریک انصاف اس وقت اپوزیشن میں تھی دوسرا وہ قرارداد ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف اور فوج کے حق میں تھی
اسی طرح مسلم لیگ ق نے بھی اس سے ملتی جلتی قراردادیں پرویز مشرف کے دور میں اسمبلیوں سے پاس کروائی تھیں
فوج کے حق میں ن لیگ کی طرف سے یہ قرار داد پیش کرنے کے ایک روز بعد ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے قومی اسمبلی کے قائد حزبِ اختلاف اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان جان بوجھ کر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت میں توسیع میں تاخیر کی
انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جماعت (ن لیگ) مسلح افواج کا احترام کرتی ہے، جبکہ حمکران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سوشل میڈیا پر مسلح افواج کو ہدف بنا رہی ہے
اپنے انٹرویو میں شہباز شریف نے دہرایا کہ جب وزیراعظم خان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی کوشش کی اور نوٹیفکیشن کو تین بار ری ڈرافٹ کرنا پڑا
تاہم شہباز شریف نے تسلیم کیا کہ ان کے پاس اپنے دعوؤں کی حمایت کے لیے کوئی ٹھوس معلومات نہیں ہیں، لیکن یہ ان کی رائے تھی کہ وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر توسیع کے عمل کو ’متنازع‘ بنانے کی کوشش کی
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی آرمی چیفس کی خدمات میں توسیع کی گئی، پی ٹی آئی حکومت کو صرف پچھلی سمری کو کاپی پیسٹ کرنا تھا، لیکن یہ سب دھوکے طور پر کیا گیا، یہ دھوکے بازی عمران خان نیازی کی جانب سے کی گئی
انہوں نے کہا کہ وہ توسیع میں تاخیر کرتے ہوئے اسے متنازع بنانا چاہتے تھے
اس حوالے سے پارلیمانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ”پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو ابھی کسی طور پر رد بھی نہیں کیا جاسکتا“
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے ”مسلم لیگ ن نے بھی ہمیشہ ایسی ہی سیاست کی ہے جیسی کہ وہ اب کر رہی ہے۔ میرے خیال میں تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ یہ تو ایک قرارداد ہے تحریک انصاف نے تو ایسی قانون سازی کی ہے جو اس طرح کی کئی قراردادوں سے بھاری ہے“
ان کے مطابق ”معروضی حالات ان سیاسی چالوں سے ہمیشہ مختلف ہی رہے ہیں۔ اب تحریک انصاف کی گرفت کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے تو جو کوئی بھی سیاسی جماعت اس کی جگہ آئے گی وہ اپنی سیاسی پالیسیوں بشمول نظریات کے ان سے مختلف نہیں ہوگی“
پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کی استاد ڈاکٹر عنبرین جاوید کا کہنا ہے ”پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں کسی بھی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ سیاسی جماعتوں کو ایک مخصوص ماحول دستیاب ہوتا ہے انہوں نے اس کے اندر ہی رہنا ہوتا ہے۔ ہاں موجودہ سیاسی تاریخ میں کچھ بڑے واقعات ہوئے ہیں، جس میں سیاسی جماعتوں نے اپنی اسپیس بڑھائی ہے“
ڈاکٹر عنبرین جاوید کہتی ہیں ”مکمل سیاسی جگہ لینے میں ابھی وقت لگے گا اور میں اس میں کسی ایک سیاسی جماعت کے حق یا مخالف بات نہیں کر رہی۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ سب ایک طرح کام کر رہی ہیں کیونکہ سیاست کے لیے جو اسپیس دستیاب ہے وہ اتنی ہی ہے.“