کوئٹہ – بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں کوئلے کی کان میں تقریباً تیرہ سو فٹ گہرائی میں پھنسے ہوئے تین کان کنوں کو ایک سو پانچ گھنٹے بعد ہفتے کے روز زندہ نکال لیا گیا
حکام کا کہنا ہے کہ چار دنوں بعد کان کنوں کا گیس دھماکے سے منہدم ہونے والی کان سے زندہ نکل آنا کسی معجزے سے کم نہیں
کان کنوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد مزید علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کر دیا گیا
ڈپٹی کمشنر ہرنائی سردار محمد رفیق ترین کے مطابق تین کان کن 22 مارچ کی صبح سے کان میں پھنسے ہوئے تھے اور ان تک پہنچنے کے لیے قریب واقع دو دوسری کانوں سے سرنگیں کھود کر رسائی حاصل کی گئی
چیف انسپکٹر مائنز عبدالغنی نے بتایا کہ زندہ بچ جانے والے کان کن چار دن تک کان کے اندر بھوکے پیاسے رہے
انہوں نے بتایا کہ ایک سو پانچ گھنٹوں تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد جب انہیں نکالا گیا تو کان کن بہت ڈرے ہوئے تھے اور ذہنی تناؤ کا شکار تھے
پی پی ایچ آئی کی ٹیم نے موقع پر ہی طبی امداد دینے کے بعد سول ہسپتال کوئٹہ کے ٹراما سینٹر ریفر کر دیا، جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی گئی ہے
واضح رہے کہ کوئٹہ اور ہرنائی کے درمیانی علاقے زرغون غر میں واقع کوئلے کی کان میں حادثہ گیس دھماکے کے باعث پیش آیا تھا جس سے کان کا ایک بڑا حصہ منہدم ہو گیا تھا۔
ڈپٹی کمشنر ہرنائی رفیق ترین نے بتایا کہ حادثے کے وقت کان میں چھ کان کن کام کر رہے تھے جن میں سے تین کو ساتھی کان کنوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زندہ نکال لیا تھا جبکہ تین کان کن تیرہ سو فٹ کی گہرائی میں پھنس گئے تھے
چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی نے کہا کہ متاثرہ کان میں آکسیجن کی فراہمی اور گیس کے اخراج کے لیے کوئی متبادل راستہ موجود نہیں تھا اور اسی بنیاد پر اسے دو سال پہلے بند کر دیا گیا تھا لیکن کان کے مالک اور ٹھیکیدار نے غیر قانونی طور پر کام شروع کرا دیا تھا
انہوں نے بتایا کہ حفاظتی انتظامات کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے کان میں گیس جمع ہو گئی تھی اور دھماکا ہوا، جس سے کان کا چار سو سے پانچ سو فٹ حصہ بیٹھ گیا تھا
چیف انسپکٹر مائنز کے مطابق اتنے بڑے حصے سے ملبہ ہٹانا بہت مشکل تھا، اسی لیے قریب واقع دو دوسری کوئلہ کانوں سے متاثرہ کان کے لیے متبادل راستہ بنانے کی غرض سے کھدائی کا کام شروع کیا گیا۔
چار دنوں میں سو فٹ سے زائد لمبی متبادل سرنگ کھود کر کان کنوں کو باہر نکالا گیا
انہوں نے بتایا کہ آکسیجن کی فراہمی اور گیس کے اخراج کے لیے کان کے باہر بڑے پنکھے لگائے گئے، جس کی مدد سے پھنسے ہوئے کانکنوں کو چار دنوں تک زندہ رہنے میں مدد ملی
مقامی حکام کے مطابق ریسکیو آپریشن میں محکمہ معدنیات کی چار ٹیموں کے ساتھ ساتھ پی پی ایچ آئی اور لیویز فورس کے اہلکار وں نے بھی حصہ لیا۔ ریسکیو آپریشن کےدوران سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران متعدد ریسکیو اہلکار فوڈ پوائزئنگ کا بھی شکار ہوئے
ڈپٹی کمشنر رفیق ترین کا کہنا ہے کہ متاثرہ کان کے مالک اور ٹھیکیدار کے خلاف مجرمانہ غفلت اور مائنز ایکٹ کی خلاف ورزی پر کارروائی کے لیے متعلقہ حکام کو لکھ دیا گیا ہے.